خدا اور محبت۔۔محمد نوید عزیز

انابیہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنا تفصیلی جائزہ لے رہی تھی۔ کانوں میں پرل کے ٹاپس پہنے، کلائی میں نازک سا سلور بریسلٹ  ، سلک کا ہلکے پنک کلر کا ڈوپٹہ اوڑھا جو کہ پھسل کر دوبارہ اس کے ہاتھ میں آگیا اس نے دوبارہ کندھے پر ٹکایا، گورے مخملی پاؤں میں سلور کلر کی ہائی ہیل پہنی۔ جو کہ پنک چوڑی دار پاجامے اور لانگ فراک کے ساتھ بہت جچ رہی تھی۔
ہر چیز پر فیکٹ تھی اس کو ہر چیز میں پرفیکشن ہی چاہیے ہوتی تھی، خواہ وہ اس کی جیولری ہو، کپڑے ہوں یا زندگی کا کوئی بھی مسئلہ ہو ہر چیز پرفیکٹ ہونی چاہیے تھی۔

انابیہ تیار ہو کر نیچے آئی۔ آج اس کی بڑی بہن کی منگنی تھی۔ باہر لان میں ارینجمنٹ کیا گیا تھا گلاب کے تازہ پھولوں کی مہک ہر سو تھی۔ وہ اپنی عمّو جان کو ڈھونڈتی ہوئی باہر لان کی طرف بھاگی تھی۔ راستے میں اپنے خالہ زاد کزن عدیل سے ٹکرائی۔ نگاہیں ایک دوسرے سے ملیں انابیہ نے شرم سے سر جھکا دیا۔ عدیل مسکرا اٹھا اور بولا” اوئے چڑیل اتنی بڑی ہو گئی ہو؟ ” انابیہ نے گھوری ڈال کر دیکھا کہ یہ کون ہے جو اتنی بے تکلفی سے مجھے چڑیل کہہ رہا ہے۔

اس کو پہچاننے میں ذرا ٹائم لگا یہ تو عدیل تھا۔ کافی عرصے کے بعد اس کی خالہ جان اور ان کا بیٹا منگنی اٹینڈ کرنے انکے گھر آئے تھے۔

انابیہ نے اس کو ایک بار پھر دیکھا اور سوچنے لگی کیا شاندار پرسنیلٹی ہے۔ عینک جو کہ اس نے شاید نظر کی لگائی تھی مگر اس پر جچ رہی تھی، کلا ئی میں ریسٹ واچ، بلیک شلوار قمیض کے اوپر گرے واسکٹ پہنے وہ بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔ واسکٹ کی جیب میں سوٹ کے میچنگ  رومال رکھا گیا تھا جو کہ پرسنیلٹی میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔
جائزہ لینے کے بعد اس نے عدیل کو مسکرا کر اندر آنے کو کہا اور وہ اندر باقی کزنز کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ عدیل کی نظریں بار بار ایک ہی چہرہ ڈھونڈنے میں مصروف تھیں۔
انابیہ کبھی اندر کبھی باہر کا جائزہ لے رہی تھی۔
منگنی کا فنکشن اختتام پذیر ہوا۔

انابیہ اپنی جیولری اتار کر ڈریسنگ پر رکھ رہی تھی، ایک بار پھر عدیل کی سوچوں میں گم ہوگئی۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ عدیل کچھ روز بعد اپنی خالہ سےاکثر ملنے کے بہانے آتا۔ اورانابیہ سے کافی دیر باتیں کرتا۔ اب ان کی پسندیدگی ایک نئے رشتے میں بندھنے جا رہی تھی، دونوں گھرانوں نے بچوں کی خوشی دیکھتے ہوئے ان کی منگنی کردی۔
وہ دونوں اس نئے رشتے میں بندھ کر بہت خوش تھے۔

کچھ دن کے بعد عدیل کی سالگرہ تھی، وہ اپنی سالگرہ اپنی ہونے والی شریک حیات کے ساتھ منانا چاہتا تھا، انھوں نے سمندر کے کنارے سالگرہ سیلیبریٹ کی۔ آج کا دن عدیل اور انابیہ دونوں کے لیے خوشگوار تھا۔ کھانا کھانے کے بعد عدیل نے انابیہ کو شاپنگ کروائی اور گھر کے دروازے تک چھوڑنے آیا۔ ” انابیہ آج میں بہت خوش ہوں تمہاری ذات نے مجھے مکمل کر دیا۔ ”
انابیہ نےمحبت بھری نگاہ سے عدیل کو دیکھا اور رخصت کردیا۔

عدیل بھی واپسی کے سفر پر روانہ اس کی پیاری یادوں کے سنگ جا رہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتا ہوا ٹرالا اس کی گاڑی میں آ لگا۔ عدیل کا دماغ یکدم ماوُف ہو گیا اس کو بے ہوشی کی حالت میں آئی سی یو میں لے جایا گیا۔ کچھ گھنٹوں کے آپریشن کے بعد ڈاکٹر نے مسز ارشد کو بتایا کہ آپ کے بیٹے کی دونوں ٹانگیں مفلوج ہو چکی ہیں۔ مسز ارشد یہ بات سن کر ڈھےسی گئیں اور زار و قطار رونے لگیں کہ میرے بیٹے کو
اس جوانی میں یہ کیا ہوگیا میرے خدایا!
عدیل کو چند ماہ بعد ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔

آج انابیہ کے امی بابا عدیل کی خیریت دریافت کرنے آ رہے تھے۔ انابیہ ایک بار اس کو دیکھنے ہاسپٹل آئی تھی۔ مگر کچھ خاص بات کئے بغیر ہی چلی گئی تھی آج بھی امید کی کرن تھی کہ شاید وہ آجائے گی اور مجھ سے ڈھیروں باتیں کریں گی۔ مگر وہ نہیں آئی تھی اس کے والدین منگنی کے سامان سمیت آئے انہوں نے رشتہ توڑ دیا، ان کا کہنا تھا کہ ہماری بیٹی ساری زندگی ایسے معذور کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس کو ایسے ساتھی کی ضرورت نہیں جو کہ اپنے پاؤں پر بھی چل پھر نہ سکے۔

ان کے جانے کے بعد عدیل نے انابیہ کو فون کیا اور اس نے آج کافی دن کے بعد کال رسیو کی تھی۔ اس کی آواز سنتے ہی انابیہ کے آنسو ٹپک پڑے تھے، دل پر پتھر رکھ کر بولی آج کے بعد کال مت کرنا۔ عدیل منمنایا کہ” میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ ” بیا!

میں اب مزید تمہارے ساتھ یہ رشتہ نہیں نبھا سکتی میں اپنے امی بابا کے فیصلے پر مجبور ہوں۔ اس نے اپنا سیل فون بستر پر پھینکا اور رابطہ منقطع ہوگیا۔ وہ اب پھوٹ پھوٹ کر کر رو رہی تھی۔

عدیل بھی آج اپنی ٹانگیں کھونے کے بعد ایک بار پھر سے ٹوٹا تھا۔ آج کی چوٹ نے اسکے پہلے زخم تازہ کر دیے تھے۔ یہ چوٹ اس کے دل پر لگی تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مسز ارشد اس کی آواز سن کر کمرے میں آئیں اور اس کو دلاسہ دینے لگیں، ” عدیل بیٹا صبر رکھو میری جان! جو تم سے لیا گیا ہے اس کے بدلے میں اچھا ملے گا تمہیں۔ ”

Advertisements
julia rana solicitors london

“ماما میں اس کی محبت میں اپنے خدا کو بھول گیا اور آج اللہ نے اس کو مجھ سے دور کردیا۔ مجھے اللہ نے بتا دیا کہ دنیا اور اس کی محبتیں سب فانی ہیں باقی رہنے والی محبت تو صرف اللہ ہی کی ہے۔ ” وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اس کی ماما اسکو تسلیاں دے رہی تھیں” جب کوئی ہاتھ اور ساتھ دونوں چھوڑ دیں تو فکر مت کرو اللہ تعالی کوئی نہ کوئی پکڑنے والا بھیج دیتا ہے۔ اللہ تعالی تمہیں اس کے بدلے میں بہت اچھا نوازے گا” انہوں نےنم آنکھوں کے ساتھ بوسہ عدیل کی پیشانی پر ثبت کردیا، اور اللہ کے حضور اپنے بیٹے کی خوشیوں کی بھیک مانگنے چلی گئیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply