مصنوعی ذہانت اور انسانی شعور کا موازنہ (حصہ دوم)۔۔ملک شاہد

انسانی ذہن کے مقابلے میں کمپیوٹر کی محدودیت کو دیکھتے ہوئےہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر کیوں ان دو صلاحیتوں کا حامل نہیں ہو سکتا جو ایک عام آدمی کی دسترس میں ہیں۔ پہلی صلاحیت نمونے کی شناخت اور دوسری صلاحیت کامن سینس ( عمومی سمجھ بوجھ)۔ ان دو مسائل نے گزشتہ نصف صدی سے ماہرین کو پریشان کیا ہوا ہے۔

پہلا مسئلہ پیٹرن کی شناخت کا ہے۔ روبوٹ، انسانوں کی نسبت زیادہ بہتر دیکھ سکتے ہیں لیکن وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ جب ایک روبوٹ کمرے میں چل رہا ہوتا ہے تو وہ چیزوں کی تصویروں کو نقطوں کے مجموعے میں تبدیل کرتا ہے۔ ان نقطوں کی پروسیسنگ کرتے ہوئے، وہ مختلف لائنوں، دائروں اور چوکور شکل کے مجموعے کو شناخت کرتا ہے۔ پھروہ نقطوں کے اس مجموعے کو اپنی یاداشت میں موجود مختلف اشیا کے ساتھ ایک ایک کر کے موازنہ کرتا ہے۔ کسی کمپیوٹرکے لئے بھی یہ ایک تھکا دینے والا کام ہے۔اس طویل حساب کتاب کے بعد کمپیوٹر اس قابل ہوتا ہے کہ ان نقطوں اور لائنوں کا کسی، میز یا لوگوں کے ساتھ موازنہ کر سکے۔ اس کے برعکس، ہم جیسے ہی کمرے میں داخل ہوتے ہیں، تو محض ایک سیکنڈ میں ہی کرسی، میز یا افراد کو شناخت کر لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمار ادماغ بنیادی طور پر پیٹرن کو پہچاننے والی مشین ہی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ روبوٹ میں روزمرہ کی سمجھ بوجھ ( کامن سینس) نہیں ہے۔ اگرچہ روبوٹ ہم انسانوں کی نسبت زیادہ بہتر سن سکتے ہیں، لیکن وہ اپنی سنی ہوئی بات کو سمجھ نہیں سکتے۔

مثلاََ درج ذیل بیانات پر غور کریں:
٭ بچے مٹھائی پسند کرتے ہیں لیکن سزا پسند نہیں کرتے
٭ رسی کسی چیز کو کھینچ سکتی ہے لیکن دھکیل نہیں سکتی
٭ چھڑی کسی چیز کو دھکیل سکتی ہے لیکن کھینچ نہیں سکتی
٭ جانور ہماری زبان بول نہیں سکتے لیکن سمجھ سکتے ہیں
٭ گول گول گھومنے سے سر چکرانے لگتا ہے

ہمارے لیے ان میں سے ہر فقرہ ایک معمولی سمجھ بوجھ کی بات ہے لیکن روبوٹ انھیں نہیں سمجھ سکتا۔ اس بات کی کوئی منطقی پروگرامنگ نہیں کی جا سکتی کہ رسی کسی چیز کو کھینچ سکتی ہے لیکن دھکیل نہیں سکتی۔ ہم نے ان بیانات کا علم اپنے تجربات سے حاصل کیا ہے۔ وہ ہمارے دماغ میں پہلے سے پروگرام شدہ نہیں تھے۔

معلوم سے نامعلوم اپروچ میں مسئلہ یہ ہے کہ عمومی سمجھ بوجھ کے ایسے بہت سے بیانات ہیں جو انسانی ہم کی نقل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ ہمیں کامن سینس کے قوانین کو بیان کرنے کے لئے ایسے لاکھوں بیانات کی ضرورت ہو گی، جنھیں ایک چھوٹا بچہ بھی خوب جانتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ہینس موراویک کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ابھی تک عام سمجھ بوجھ کا ایک فیصد بھی حاصل نہیں کر سکی۔

اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے 1984 میں ایک بڑا منصوبہ شروع کیا گیا جسے ” انسائیکلو پیڈیا آف تھاٹس” کا نام دیا گیا۔یہ مصنوعی ذہانت کا بہت بڑا منصوبہ تھا یعنی عام سمجھ بوجھ کے تمام بیانات کو کسی ایک پروگرام میں فیڈ کرنا۔ اس منصوبے کا مقصد یہ تھاکہ 2007 تک ، ایسی دس کروڑ باتیں فیڈ کی جائیں جو ایک ایک عام آدمی جانتا ہے۔تاہم ایک عشرے کی انتھک محنت کے بعد بھی یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا اور ختم کر دیا گیا۔

انسانی دماغ نما کمپیوٹر کی تیاری ، ایک بہت بڑا منصوبہ ہو گا۔ایسے کسی تصوراتی سپر سپرکمپیوٹر کے لئے ایک ارب واٹس توانائی کی ضرورت ہو گی یعنی ایک بڑے نیوکلئر پاور پلانٹ کی پوری طاقت چاہئے ہو گی۔اس سپر کمپیوٹر کو درکار توانائی سے، ایک بڑے شہر کی توانائی کی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ نیز اسے ٹھنڈا کرنے کے لئے ایک پورے دریا کے پانی کی ضرورت ہو گی جو اس کے چینلز میں سے گزر کر انھیں ٹھنڈا رکھ سکے۔یہ کمپیوٹر خود بھی ایک بڑے شہر کی جسامت کا ہو گا۔ اس سب کے مقابلے میں اگر انسانی ذہن کو دیکھیں تو یہ صرف 20 واٹ کی توانائی استعمال کرتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی حرارت بھی بالکل کم ہے جو محسوس بھی نہیں ہوتی۔ اور پھر اس سپر کمپیوٹر کو اتنی آسانی کے ساتھ کام میں مصروف رکھنا کہ ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ قدرت کی اس صناعی کی کماحقہ تعریف کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ انسانی دماغ شاید کائنات کی سب سے پیچیدہ مشین ہے۔ ہم شاید آئندہ دو سے تین عشروں میں انسانی دماغ کی نقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کے لئے مین ہٹن(ایٹم بم بنانے کا پہلا امریکی منصوبہ) اور “ہیومن جینوم پراجیکٹ”جیسے بہت بڑے منصوبوں کی ضرورت ہو گی۔

باشعور روبوٹس
ٹرمینیٹر (Terminator) مووی سیریز میں پینٹا گون بڑے فخر کے ساتھ اپنا حیرت انگیز اور فول پروف کمپیوٹر نیٹ ورک “سکائی نیٹ” لانچ کرتا ہے جو امریکی نیوکلئیر اسلحہ خانہ کو ایمانداری کے ساتھ کنٹرول کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہوتا ہے۔ یہ خودکار طریقے سے اپنا کام بالکل صحیح انداز میں شروع کر دیتا ہے لیکن 1995 میں، ایک دن ، غیر متوقع طور پر یہ “سکائی نیٹ” باشعور ہو جاتا ہے۔ سکائی نیٹ کے بنانے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ان کی بنائی گئی مشین اچانک باشعور ہو گئی ہے۔وہ اسے بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اپنا دفاع کرنے کے لئے “سکائی نیٹ” فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے لئے خود کو محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ تباہ کن ایٹمی جنگ لانچ کر دے اور تمام انسانوں کا خاتمہ کر دے۔

“میٹرکس”سیریز کی تینوں فلموں میں اس سے بھی بدتر حالات دکھائے گئے ہیں۔ ان میں دکھایا گیا کہ انسان اس قدر بے وقوف ہیں کہ انھیں اس بات کا شعور ہی نہیں ہو پاتا کہ مشینیں ان پر قبضہ کر چکی ہیں۔ لوگ اپنے معمولات جاری رکھے ہوتے ہیں اور اس خیال میں ہوتے ہیں کہ سب کچھ نارمل ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ سب محض ایک قید میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کی دنیا بس ایک مجازی کمپیوٹر نقل (سیمولیشن) ہوتی ہے جو روبوٹ آقائوں کے ذریعے چلائی جا رہی ہوتی ہے۔ انسانوں کی موجودگی محض ایک سافٹ وئیر پروگرام ہوتی ہے جو ایک بڑے کمپیوٹر پر چلائی جا رہی ہوتی ہے اور یہ پروگرام، انسانوں کے ذہنوں میں، ان کے قید خانہ کے اندر رہتے ہوئے فیڈ کیا جاتا ہے۔ مشینیں انسان کو اپنے اردگرد صرف اس لیے رکھنے پر مجبور ہوتی ہیں کیونکہ وہ انسانوں کو بیٹریوں کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

ان کے علاوہ بھی کئی ایسی فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں یہ دکھایا جاتا ہے انسان کی بنائی ہوئی روبوٹ مشین، کسی موقع پر اچانک “باشعور” بن جاتی ہے اور وہ انتقاماََانسانوں کو ہی اپنا غلام بنا لینا چاہتی ہے۔یہاں ایک منطقی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” اگر روبوٹس ہماری طرح ذہین ہو گئے تو کیا ہو گا”؟ سائنسدان باقاعدگی کے ساتھ یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ “اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا”؟ یا یہ کہ “ایسا کب تک ہو سکتا ہے”؟

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری بنائی ہوئی روبوٹ مشینیں بھی ارتقائی مراحل طے کر رہی ہیں۔ روبوٹ ٹیکنالوجی کو شروع ہوئے ابھی بمشکل نصف صدی ہوئی ہے اور اس دوران ہماری روبوٹ مشینیں کاکروچ جتنی ذہین ہو چکی ہیں۔ مستقبل قریب میں وہ چوہوں جتنی ذہین ہو جائیں گی اور اس کے بعد وہ انسانوں جیسی ذہانت کی حامل ہو سکیں گی۔ اس ارتقائی عمل کو اوپر پہنچنے میں ابھی کئی عشرے درکار ہیں لیکن ان ماہرین کواس بات کا یقین ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب مشینیں ذہانت میں واقعی انسانوں سے آگے بڑھ جائیں گی۔
یہ انقلاب کب تک آ سکتا ہے؟ اس بارے میں ماہرین کیے اندازےمختلف ہیں۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ محض 20 سے 30 سال کے عرصے میں روبوٹ مشینیں،ذہانت میں انسانوں کے برابر پہنچ جائیں گی اور اس کے کچھ عرصہ بعد وہ انسانوں پرقبضہ کر لیں گی۔دوسری طرف کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آئندہ 100 سے 200 سال میں بھی ایسا ہوگیا تو یہ حیرانی کی بات ہو گی۔ ان ماہرین کے مطابق، ہم مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کے بارے میں کئی بار غلط اندازے لگا چکے ہیں۔ ہم ابھی تک اس میدان کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کر سکے۔ اس لیے فی الحال ایسا کچھ عجیب و غریب سوچنا بعید از قیاس ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ملک شاہد
ملک محمد شاہد موبائل: 03007730338 اعزازی مدیر ماہنامہ گلوبل سائنس کراچی۔۔ اعزازی قلمی معاون : سہ ماہی اردو سائنس میگزین ، لاہور مصنف: 100عظیم سائنسی دریافتیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply