’’پرَکَھ ‘‘کی پَرکَھ (1)۔۔کبیر خان

’’پَرکَھ‘‘ ڈاکٹر محمد صغیر خان کی تازہ ترین تصنیف ہے ۔ پَرکَھ کے لغوی معنی پہچان، شناخت،وقوف، گیان، معیار،کسوٹی اور آزمائش ہیں ۔ پَرکَھ کو عربی ، فارسی اور اردو میں تحقیق کہتے ہیں ۔ سیّد عبداللہ فرماتے ہیں :
’’تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے۔اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلّمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔ تاریخی تحقیق میں کسی امر واقعہ کے وقوع کے امکان و انکار کی چھان بین مد نظر ہوتی ہے۔‘‘
مالک رام کہتے ہیں :
’’تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کامادہ’ح۔ق۔ق‘ ہے۔ جس کے معنی ہیں کھرے اور کھوٹے کی چھان بین یا بات کی تصدیق کرنا۔ دوسرے الفاظ میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے علم و ادب میں کھرے کو کھوٹے سے، مغز کو چھلکے سے، حق کو باطل سے الگ کریں۔ انگریزی لفظ” ریسرچ “کے بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں‘‘
علمائے ادب میں اس امر پر اجماع امّت پایا جاتا ہے کہ تحقیق تنقید کے بغیر نہیں چل سکتی ۔ ہم تو اس قولِ فیصل کے دل و جان سے قائل اور گھائل ہیں۔ آپ نے کبھی پڑوسنوں کو نئی نویلی دُلہن کا حاصلِ مطالعہ اک دوجی کے سامنے ’’سپردم بتو خویش را‘‘کرتے سُنا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔:۔
’’منہ نہ متھّا ،جِنّ پہاڑوں لتھّا۔۔۔‘‘۔
’’نی دیکھنا ، پارلر کا لیپا پوتا جھڑے گا تو بچّے دیکھ ماٗوں کے کُنجوں میں جا دبکیں گئے۔۔۔۔ ‘‘
’’ایسا چِھلا گھڑا تختہ میں نے پہلے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔‘‘
(2)
’’ وہ تو ٹھیک ہے، پتہ کر گھڑائی کرائی کہاں سے اور کتنے میں؟۔ وارا کھائے تو میں بھی۔۔۔۔، دیکھ ننگیئے ! تجھ سے کیا پردا،ساری پیرہنیاں بیٹھے بٹھائے، چول چُپ ،موُل چئیں چک سُکڑ گئی ہیں ، سمجھ لوبچّوں کے ابّا کی طرح مجھ سے تنگ آ چکی ہیں۔ صلاح دے تومیں بھی تیشہ رندہ پھروا لوں۔۔۔۔۔ ؟‘‘
’’قسم لے لو، دانتوں پر پترا چڑھوا کر بلٹی کی گئی ہے۔ ورنہ اتنے اُجلے دانت۔۔۔۔؟؟‘‘ ’’نہ نہ، گونگی وونگی کوئی نہیں ،ماتھا بتاتا ہے کہ سانپوں کی جیبھیں دھرونے والی چیز ہے۔۔۔‘‘
’’نی بھابیئے ! تو نے اُس کی گردن کا مسّا دیکھا؟، جو پنکھی جھلنے کے بہانے گھڑی گھڑی دکھا رہی ہے۔۔۔۔، بیوٹی سنٹر کے شو کیس میں میں نے بچشم دید خود اِن گنہگار آنکھوں سے دیکھا ہے۔۔۔۔ قیمت صرف پندرہ سو ۔۔۔۔‘‘۔
’’اُس کی آواز سُنی؟ کان میں گوشا بھی کرتی ہے تو شوشہ لگتا ہے۔۔۔۔‘‘وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بھی تنقید ہے۔۔۔۔ سلیس پہاڑی بولی میں اسے ’’کھُتّیں نکالنا‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ تنقید چنگے بھلے پردہ نشین بندے کو چھیل کرچوک میں بٹھا دیتی ہے۔ اس کے باوجود فقہائے ادب تنقید کو لازم قرار دیتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ، تحقیق اور تنقید لازم و ملزوم ہیں ۔ یعنی اک دوجی کے بغیر چل نہیں سکتیں ۔ ادبیات میں جب بھی کسی معاملہ کی تحقیق مقصود ہوتی ہے تو اسے تنقید کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنقید کے بغیر تحقیق ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک محقق کا نقّاد ہونا بھی از بس ضروری ہوتا ہے۔ اس وصف کے بغیر وہ تحقیق کا حق کما حقہ ادا نہیں کر سکتا۔
رہی بات ڈاکٹر صغیر خان کی تو وہ پیدائشی نقّاد ہے۔ نِکّی بے اکثر ماتھا پیٹا کرتی تھیں۔۔۔۔۔:
’’اسے پرے لے جاِ میں اس کی بھن بھن سے عاجز آ گئی ہوں۔۔۔۔ ’’ادھر سے مڑے گا تو، مائے! بھائی جان کلوخی(کلوخ؟) کیوں ہے ۔۔۔۔۔ ؟دُدّھ چِٹّا مکھن کا پیڑا کیوں نہیں؟؟‘‘۔
(3)
’’داداجی سوکھے میں بھی اُس طرح کھالے ٹاپتے کیوں چلتے ہیں جیسے برسات میں چِیچاں کھیلتے جا رہے ہوں۔۔۔۔۔؟‘‘
’’مُنشی چاچا کی تنخواہ ابّا سے آدھی ہے، پھر بھی وہ لوگ ہر روز عید والے کپڑے پہنے پھرتے ہیں ، ہمیں سال میں صرف ایک جوڑا کیوں؟۔۔۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
چنانچہ ڈاکٹر صغیر خان کی ’کیوں ؟‘ ہمارے لئے اجنبی نہیں ۔اور’ کیوں ‘ تنقید کا جزو اعظم ہے۔ تنقید کےذریعہ ہی کوئی محقق ا پنی تحقیق کا ’’سترا‘‘ ڈالتا ہے اور اسی پر’’کاہڑی‘‘(خشک چارے کا ذخیرہ) کھڑی کرتا ہے۔
ڈاکٹر محمد صغیر خان نے ’’پَرکَھ‘‘ کے نام پر جو تحقیقی ’’کاہڑی‘‘کھڑی کی ہے، وہ حجم میں ’’کُپّا‘‘یعنی کم سہی، وزن میں اس قدر بھاری بھرکم ہے کہ پلڑے میں پاسنگ رکھنے کی ضرورت اور صورت بھی نہیں۔ دراصل ’’پرکھ‘‘ کے مصنّف نے صرف چھ عدد موضوعات کو پرکھا،پٹخا،چھانٹا ،جانچا، اور پھر اس چھانٹ پٹخ کو ۱۲۸ صفحات کی ایک دُبلی پتلی کتاب کی شکل میں ہمارے سامنے رکھ دیاہے۔۔۔۔۔ کر لو جو کرنا ہے۔
صاحبو! آپس کی بات ہے، لوگ اپنی منجی تلے ڈنگوری پھیرنے کو اچھا نہیں جانتے ، ہمیں گھر کی ہر کھاٹ کے سرہانے پھرولنے کی عادت ہے۔ ڈاکٹر صغیر خان کا معمول ہے کہ وہ کالج روانگی سے پہلے کچّا پکّا قلمی مسوّدہ تکیے تلے پال میں لگا کر جاتا ہے ۔ اور ہمیں نیم پختہ آم ، ویسی ہی بوٹیاں کھانے کا اورادھ پکّے مضامین چوسنے کا چسکا ہے۔ چنانچہ اس مجموعہ میں شامل جملہ مضامین قبل اشاعت چکھ چکے ہیں ۔ لیکن کتابی شکل میں ان مضامین کو دیکھ کریوں لگا جیسے سندھڑی آم پال میں نہیں ،جامشورو والے اپنے پیڑ پر ہی پہلے گدرایا پھر اور گدرایا۔ پھر۔۔۔۔۔ اِدھر سے رال سُڑکی تو اُدھر سے ٹپک پڑی۔ مت پوچھو ۔۔۔ ،بادشاہو سواد آ گیا۔
ویسے مختصر اولاد اور مختصر تر معنوی اولاد کا بھی اپنا ہی سواد اور ثواب ہوتا ہے۔ بندہ اُلانگتے پھلانگتے بھی اُن کے حقوق ادا کر لیتا ہے۔ پھر اولاد یہ سوال نہیں
(4)
پوچھتی کہ۔۔۔۔۔۔’’مُنشی چاچا کی تنخواہ ابّا سے آدھی ہے، پھر بھی وہ لوگ ہر روز عید والے کپڑے پہنے پھرتے ہیں ، ہمیں سال میں صرف ایک جوڑا کیوں؟۔۔۔۔۔‘‘
صاحبو! ضمناً عرض کردیں کہ ڈاکٹرصغیر خان نے راولاکوٹ میں گھر کے پہلو میں ایک خوبصورت لائبریری قائم کی ہے،جس میں بیٹھ کر پڑھنے اور لکھنے کے جملہ اسباب موجود ہیں۔ لیکن وہ چولہے کے پاس ، بچّوں کے ہنگاموں کے بیچ بیٹھ کر پڑھتا اور دور افتادہ کمرے میں ایک جھلنگی چارپائی پرنیم دراز ہو کر لکھتا ہے۔ ہمیں اس پر اعتراض نہیں ، تعجب ہے۔اور تعجب بندہ آسانی کے ساتھ سہہ سکتا ہے۔(یہی ہمارا تجربہ ہے)۔ اُس نے درجن بھر تصانیف اسی حال بے حالی میں لکھیں ۔ پارہ پارہ دیس سے منسوب زیر نظر’’پرکھ ‘‘بھی اسی ’’حالیت‘‘ میں لکھی۔ لگتا ہے ،اسے یہی ’’حالیت‘‘موافق آ گئی ہے۔اور وہ آئیندہ بھی اسی رنگ ڈھنگ میں لکھتا رہے گا۔
( ضمناً عرض ہے کہ ڈاکٹر مرحب قاسمی کی ولولہ انگیز قیادت میں ہم نے بھی بڑے جوش وخروش سے جامشورو والے گھرمیں ایک اچھی لائبریری بنائی تھی ۔ اور ڈرائنگ روم کی بجائے اسی لائبریری میں کئی نامور اہل قلم کی خاطر تواضع بھی کی۔ چناچہ اُنہوں نے دل کھول کر لائبریری کی تعریف کی۔ دو تین نے تو ’’مہمانوں کی کتاب میں‘‘ادیب جوڑے کی ادب دوستی اور مہمان نوازی کو سنہری حروف میں رقم کیا۔ لیکن جب کالم چھپے توہمیں مایوسی ہوئی۔ اس کے بعد الماریوں کے وہ خانے جو کالم نگاروں کی تصانیف کے لئے مختص تھے، اُن میں پرانے کمبل ، تکیے اور چادریں ڈال دیں ۔۔۔۔ سپردم بتو خویش را۔ مور اوور کے طور پر احتیاطاً اُن میں فنائل کی آٹھ دس لپّ گولیاں بھی رکھ دیں ،مبادا کتابوں کے پنوں سے نکل کر جھینگرپلّوں کو چاٹ جائیں ۔ اب چار چھ سیڑھیاں چڑھنا کار دارد لگتا ہے، کام والی ماسی ہی لائبریری کی قرار واقعی دیکھ بھال کرتی ہے۔۔۔۔۔ جملہ آلات صحت و صفائی اسی کے دروازہِ خاور میں کھُلا رکھتی ہے۔ (ہمارا مصّمم ارادہ ہے کہ اِسی ویک اینڈ پر تڑپتی پھڑکتی’’پرکھ‘‘ کی کاپی ڈاکٹر صغیر خان کے کارنر میں لے جا رکھیں گے۔۔۔۔ استھان ہے استھان۔(
5))
پَرکَھ میں پہلا مضمون ہی بڑا دلچسپ ہے۔ جس کا عنوان ’’پہاڑی لوک گیتوں میں موضوعاتی تنوع‘‘ہے۔ اس میں ڈاکٹر صغیر خان نے گیتوں کی جو قسمیں گنوائی ہیں ،وہ حیران کُن ہیں ۔ کم ازکم ہمارے علم میں نہیں تھا کہ ہماری ماں بولی میں (جو اس سے پہلے ، اس طرح کبھی لکھنے میں آئی نہ پڑھنے میں ) لوک گیتوں کی اتنی اقسام ہیں ۔ نعت،سہلے،چن،قینچی،وار،ویر،مہندی،ڈولی،مراج،کھارے،بوہٹی،گانا،سِٹھنی،جیندا جی،
چرخہ،ڈھولا، ماہیا،شپاہیا،مٹھا، رومال ۔ ایک ایسی بولی جس کی ابھی تک اپنی ’’پٹّی‘‘
بھی نہیں لکھی گئی،اُس میں لوک گیتوں کی بیس کے قریب اقسام رائج ہیں، بجا طور پر حیران کُن ہے۔ محقق نے بکھری ہوئی اقسام کو ایک لڑی میں پرو کر ’’گیت مالا‘‘بنا دی۔ جو بلا شبہ لائق صد ستائش ہے۔
چنّ ساڑھی وہیلی ناں تھم کِیاں کڑکے
ہکے کہلّی جِندڑی اتے جگ سارا چِہڑکے
’’آزادکشمیر میں اردو غزل 1947 کے بعد‘‘ ایک اور مقالہ ہے جس میں محقّق نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ خِطّہ میں اردو غزل اور شعرا کا احاطہ کیا ہے۔ سینتیس(37) صفحات پر مشتمل اس مضمون میں مصنف نے آزاد ریاست جموں و کشمیر کے نمائندہ غزل گو شعراٗ کا احاطہ کیا ہے ۔ جن میں آزرعسکری سر فہرست رکھے گئے ہیں ۔آزر بزرگ شاعر تھے۔ وہ سنجیدہ شاعری کرتے تھے لیکن شہرت اور مقبولیت مزاح گوئی میں پائی۔ آزر عسکری 1947کے بعد مظفرآباد میں آن بسے۔ مولانا چراغ حسن حسرت کے اخبار نویس بھائی ضیاالحسن ضیاؔ بھی آزادکشمیر کے باسی تھے۔ ضیاؔ اچھے غزل گو تھے۔ پروفیسر آمین طارق قاسمی نظم اور غزل کے مستند شاعر تھے:
سر زمینِ گل و لالہ پہ نظر جا کے پڑی
جب شہیدانِ محبت کا کفن یاد آیا
پروفیسرعبدالعلیم صدیقی اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔
(6)
اُنہوں نے حکیم الامت علامہ اقبال کے جملہ فارسی کلام کو اُردو کے قلب میں ڈھالا۔ جسے علمی و ادبی حلقے آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔وہ ہمہ صنف شاعر تھے لیکن غزل میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔
بیمار شفا پائے گا اے چارہ گرو کیا
دکھ اور طرح کا ہے دوا اور طرح کی
ڈاکٹر صابر آفاقی اردو، فارسی، پہاڑی، کشمیری ، پنجابی اور گوجری کے شاعر تھے۔ صابؔر نے مروج اصناف کے علاوہ ’’کہہ مکرنی‘‘ میں بھی طبع آزمائی کی اور کامیاب رہے۔ احسان دانش نے صابر آفاقی کے حوالہ سے لکھا تھا کہ جب وہ کسی مسئلہ یا منظر پر سوچتے ہیں توان کی نظر میں داخلیت اور خارجیت دونوں بیک وقت بے نقاب ہو جاتی ہیں ۔ اور اُن کی الفاظ ساز فیکٹری میں تخلیقی ہنگامہ آرائی ہونے لگتی ہے۔ شاعرانہ تعلّی ملاحظہ ہو:
غالبؔ سے کل بیانِ سحرزا کا شہرہ تھا
مشہور آج شعر دل آویز مجھ سے ہے

پروفیسر اکرم طاہر منفرد انداز کے غزل گو رہے ہیں ۔ ان کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
شاخ آہو پہ برات اپنی ہے
ہم نے چاہا تھا کہ گھر اپنا ہو
پروفیسرنزیر انجم کشمیر کے ترقی پسند شاعر ہیں ۔اور یہ کہا جائے کہ اس خطّہ کے نمائندہ شاعر ہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔ حبیب جالب،فارغ بخاری، قدرت اللہ شہاب،جمال نقوی،محسن بھوپالی،امجد اسلام امجد اور ڈاکٹر فہیم اعظمی سمیت ملک کے کئی اہم اہل
(7)
قلم نے نزیر انجم کے فن شاعری کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔ نزیر انجم خواص کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی مقبول تھے، مقبول ہیں اور رہیں گے۔
شہید ناوک و تیغ نگاہِ یار ہیں ہم
بلاکشانِ محبت کی یاد یادگار ہیں ہم
پروفیسر افتخار مغل آزاد کشمیر کے ایک اور نمائندہ شاعر ہوئے ہیں ۔ وہ نذ یر انجم کی فکری تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔ افتخار مغل ’’فنونیے‘‘ تھے۔ چنانچہ اسی اسکول آف تھاٹ کے پڑھے پڑھائے تھے۔ احمد ندیم قاسمی نے افتخار مغل کے فنّ غزل کے بارے میں لکھا ہے کہ ‘‘قدیم و جدید اردو اور فارسی غزلوں میں سے اگر بے مثال ، سراسر بے مثال اشعار کا انتخاب کیا جائے تو ان میں افتخار مغل کا یہ شعر بہرصورت شامل ہو گا:
یہ دیکھ کر ، مری حیرت کی انتہا نہ رہی
کہ میں نے ہاتھ بھی پھیلا دیا ، مرا بھی نہیں
مخلصؔ وجدانی گوجری اور اردو کے ایک اہم شاعر ہیں ۔ مخلصؔ کی غزل گوئی کا نمونہ ملاحظہ ہوں:
ہم نے ہی کیا مطلع انوار جہاں کو
سورج کبھی نکلا نہیں مغرب کی زمین سے

’’ریگ زار‘‘ کے خالق رفیق بھٹی خطہ کے ایک اور اہم شاعر ہیں ۔ غازی علم الدین نے رفیق بھٹی کی غزل کے باب میں کہا ہے: ’’رفیق بھٹی کے ہاں صرف معاشرتی المیوں ہی کا بیان نہیں ، تغزل کا بانکپن اور شعری شگفتگی بھی ہے، جو انہیں صنف غزل میں منفرد مقام دیتی ہے‘‘۔
(8)
رفیق بھٹی کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
مست آنکھیں سرخ چہرہ تمتماتے لال گال
یہ سراپا تھا جسے میں نے کتابی کہہ دیا
آزاد کشمیر کے غزل گو شعرا میں ڈاکٹرآمنہ بہار رونا ؔ ایک اہم نام ہے۔ روناؔ زود گو ہیں لیکن تاحال اُن کا ایک ہی مجموعہ ’’چناروں کی آگ‘‘ شائع ہوا ہے۔ نجانے کیوں؟
تاروں کا سفر ہے اور دہکتا ہوا صحرا
اپنا تو یہ عالم ہے کہ بارش بھی جلا دے
صابر حسین صابرؔ اس وقت آزاد کشمیر کے سنیئر شعرا میں شمار ہوتے ہیں ۔ کرم حیدری نے صابرؔ کے باب میں کہا تھا۔۔۔۔’’ صابر حسین صابر کو فطرت نے شاعر پیدا کیا ہے‘‘۔ صابرؔ کا اندازِ غزل ملاحظہ ہو:
دل تیری یاد سے بیگانہ کہاں ہوتاہے
یہ وہ افسانہ ہے اشکوں سے بیاں ہوتا ہے
’’سرسوں برسوں کی‘‘،’’ برف سے حرف‘‘، ’’شاردا‘‘ اور ’’سرد دھوپ‘‘جیسے مجموعوں کے خالق اسرار ایوب کا تعلق راولاکوٹ کے ایک موقّر علمی گھرانے سے
ہے۔ چنانچہ شعر بھی سوچ سمجھ کر کہتے ہیں ۔ احمد ندیم قاسمی نے فرمایا تھا کہ اسرار ایوب نے شاعری کے لئے وہ موضوع منتخب کیا ہے جو ہمیشہ نیا رہے گا۔ یہ موضوع حسن و محبت کی کار فرمائی ہے۔ سیّد ضمیر جعفری نے اسرار کو اردو شاعری کا ابھرتا ہوا ورڈزورتھ قرار دیا تھا۔ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش کہاں رہتی ہے؟۔اسرار ایوب کا طرز بیاں دیکھیئے:
فضا ِ دشت میں کچھ سایہ دار سا ہی تو ہے
کہ ذکرِ یار بھی بزمِ چنار سا ہی تو ہے
(9)
ڈاکٹر نثار ہمدانی ایک اور اچھے شاعر ہیں ۔ کہتے ہیں:
بارشوں میں مبتلائے پیاس رہنا چاہیئے
زندگی میں کچھ فریب ِ آس رہناچاہیئے
شفیق راجا کا رنگ تغزّل ملاحظہ ہو:
بہت کٹھن ہے محبت میں سرخرو ہونا
کسی کلی کا گلستاں کی آبرو ہونا

’’فنون‘‘ کے پلیٹ فارم سے متعارف ہونے والے احمد عطا ٗ اللہ کے رنگ ڈھنگ ملاحظہ ہوں:
سر پہ وہموں سے آسمان سیا
ہم نے خود کو بہت ہلاک کیا
نظم کے شاعر اکرم سہیل بھی کبھی کبھی منہ کاذائقہ بدلنے کے لئے غزل کہہ لیتے ہیں :
لے کے پھرتے رہے انا ہم لوگ
ورنہ تھے یوں نہ بے وفا ہم لوگ
اعجاز ہمدانی کسی تعارف کےمحتاج نہیں، عمدہ غزل گو شاعر ہیں ۔تمونہ کلام دیکھیئے:
ایسے منظر کھلے تھے کہ بینائی سے خوف آنے لگا
رات پہلی دفعہ مجھ کو تنہائی سے خوف آنے لگا

(10)
شہباز گردیزی ابھرتے ہوئے شاعر ہیں ۔ عمدہ غزل کہتے ہیں ۔ملاحظہ ہو نمونہ کلام:
کب تک تو مجھے رنجش بے جا میں رکھے گا
اب اور کتنے دن مجھے دنیا میں رکھے گا

Advertisements
julia rana solicitors london

’’میرے خواب زنجیریں‘‘ کے خالق افضل کا رنگ دیکھیئے:
حریف جاں پہ چلو پھر سے اعتبار کریں
یہ زیست شے ہی نہیں ایسی جس کو پیار کریں
زیداللہ فہیم کم گو مگر پختہ شاعر ہیں :
راتوں کو جاگ کے چرخہ کاتا ملی ہے وہ مزدوری
جس سے ماں کے لال کی ہوتی فیس نہیں پوری
’’ بساطِ جان‘‘ والے دلشاد اریب کی غزل چکھ دیکھیں:
آنکھوں کے راستے جو دل میں اُتر گیا
راہِ وفا میں اس کا مقدر سنور گیا
’’دسترس‘‘ اور ’’ سرگوشی‘‘ کے خالق نازؔ مظفرآبادی کا رنگ ملاحظہ ہو:
بھوک، بیماری،ہلاکت،نفرتوں کی زد میں ہے
آدمی کی ذات ، کتنے زلزلوں کی زد میں ہے
ڈاکٹر محمد صغیر خان نے ادبی دیانت داری کے ساتھ ایک اور اچھا مضمون اور کتاب لکھی ہے۔ جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
* * * * *
(تمت بالخیر)
(11) نوٹ:(۱)
ہمیں تعجب ہے کہ اس مضمون میں یار غارزاہد کلیم ، عبدالرزاق بیکل اور ابراہیم گُل شامل نہیں کئے گئے۔ زاہد کلیم تو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بیکل کے بارے میں بھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔۔۔۔ عجب نہیں کہ سدھر کر گھر اور گھر والی کو پیارے ہو گئے ہوں ۔ ابراہیم گل کے بارے میں اُنہی سے تبادلہ شکوک کرنا پڑے گا۔اللہ کرے ہمارے اندیشہائے دور دراز غلط نکلیں۔ ابراہیم گل سدھر گئے تو سمجھ لیں جہلم اُلٹا بہنے لگا۔ ہمارے خیال میں اس مضمون میں ایّاز عباسی، محمود ماجد اور لطیف آفاقی کے علاوہ خورشید خان خورشید کو بھی شامل کر لیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
نوٹ :(۲)
’’پرکھ ‘‘میں ’پہاڑی لوک گیتوں میں موضوعاتی تنوع‘ کے عنوان سے ایک اور عمدہ مضمون شامل کیا گیا ہے۔ جو ’’اہلِ زبان‘‘(پونچھی پہاڑی) کو حیران کرنے کے لئے کافی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اُن کی ماں بولی میں اتنے گُن پائے جاتے ہیں ۔
’’جمّوں و کشمیر میں کہانی ‘‘کے حوالہ سے پرکھ میں شامل مضمون ایک معلوماتی تحریر ہے۔اور بہت عمدہ۔’’جموں و کشمیر کی مادری زبانیں اور اسلام ‘‘ کے موضوع پر بیش قیمت مضمون لکھا گیا ہے۔ میاں محمد بخش کی بے مثال شاعری کے علاوہ پونچھی پہاڑی بولی میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے، جو ایک تاریخی کام ہے۔
’’جمّوں کشمیر اور اقبال‘‘ ایک اور وقعی مضمون ہے۔ جس میں اقبال ؒ کی کشمیر سے محبت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون کا لب لباب اقبالؒ کی زبانی ملاحظہ ہو:
کشمیر کا چمن جو مجھے دلپذیر ہے
اس باغِ جانفزا کا یہ بلبل اسیر ہے
ورثہ میں ہم کوآئی ہے آدم کی جائیداد
جو ہے وطن ہماراوہ جنت نظیر ہے
::::::::::::::::::::::::

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply