بیج کے اپنے دل میں کیا ہے؟۔۔عارف انیس

ایک مرضی دہقان کی، کسان کی، باغبان کی ہوتی ہے۔
ایک مرضی زمین کی ہوتی ہے۔
ایک سب سے بڑی مرضی اوپر والے کی ہوتی ہے۔
مالی دا کم مشکاں لانا، بھر بھر مشکاں لاوے، ہو!
مالک دا کم، پھل، پھل لانا، لاوے یا نہ لاوے
ہر سال کسان ہل چلاتا ہے، کھاد ڈالتا ہے، جڑی بوٹیاں تلف کرتا ہے اور پھر بیج پھینکتا ہے اور پانی دیتا ہے۔ بہت سے بیج آگ آتے ہیں، کونپلیں سر اٹھاتی ہیں، برگ و بار لاتی ہیں۔
پھر ایک مرضی بیج کی ہوتی ہے۔
جتنا مرضی ہل چل جائے، کھاد ڈل جائے، کھیت سیراب کردیا جائے، اگر بیج کی مرضی نہیں ہے تو وہ اپنی کھال پھاڑ کر زمین کے سینے پر دستک نہیں دے گا۔ کونپل نہیں پھوٹے گی۔ بیج اپنے آمد موجود امکانات، پیغامات، کھلیان سب اپنے ساتھ سمیٹ کر لے جائے گا اور سب دیکھتے رہ جائیں گے۔
یہی پرسنل ڈیویلپمنٹ کی سائنس کا دل ہے۔ تبدیلی کا سارا تحرک بیج کا ذاتی فیصلہ ہے، ورنہ ہل چلانے والے، کھاد ڈالنے والے تھک جائیں گے، اگر بیج اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لئے فنا ہونے پر آمادہ نہیں ہوگا!
سیکھنے کے سلسلے میں ایک قانون واضح ہے کہ طالب جب سیکھنے کے لیے تیار ہو تو استاد کو، مربی کو، مرشد کو حاضر ہونا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں، ترتیب یہی رہے گی۔ تڑپ استاد یا مرشد کے دل میں نہیں، طالب کے دل میں ہوگی اور سکھانے والا ظاہر ہوجائے گا۔ اس کے پاس کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں۔
آپ اپنی زندگی میں یاد کریں جب کسی بھی سلسلے میں ایسی تڑپ پیدا ہوئی تو جیسے عالم غیب سےکوئی آن ٹپکا۔ اگلے کے پاس کوئی چوائس نہیں، سوال یہ ہے کہ ہو بیڈ یو وانٹ اٹ! اس کا کم از کم نسخہ یہ ہے کہ طلب میں اتنی شدت ہونی چاہیے جتنی سانس لینے کے لئے ہوتی ہیں۔ جب دم گھٹتا ہے اور رؤؤاں رؤؤاں اکھٹا ہوکر سر پٹختا ہے۔ اگر طلب میں شدت نہیں ہے تو لے ادھوری رہ جائے گی۔
مرشد رومی کہتے ہیں، جس کی تجھے تلاش ہے، وہ تیری تلاش میں تھکتا پھر رہا ہے، خواری کرتا پھر رہا ہے۔ بوہے، باریاں جھانکتا پھر رہا ہے۔ کہانی یہی ہے کہ اس تلاش میں شدت کتنی ہے؟ وجد کتنا ہے؟
چار سال پہلے کی بات ہے جب لندن کے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی بھرے ہوئے ہال میں، میں اور دیپک چوپڑا اکٹھے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ ٹونی بیوزان موجود تھا۔ دونوں ہی میرے مرشد تھے۔ بیوزان سے میں نے دماغ کو رنگ اور روپ کے زاویے سے پکڑنا دیکھا تھا۔ بیوزان کی مائنڈ میپنگ تکنیک نے مجھے 2002 میں صرف 45 دن میں سی ایس ایس میں کامیاب ہونے میں مدد دی تھی۔
چوپڑا ایک اور طرح کا جادوگر تھا۔ وہ گورے کو اسی کی زبان میں مار دیتا تھا، اس کی ساری سائنس، ساری کیمسٹری، فزکس، بائیالوجی اس کے اوپر الٹاتا تھا اور پھر جب سامعین اور ناظرین کی سوچ ہانپ جاتی تھی تو وہ تمام تر علم کے اوپر بیٹھے خدا سے آہستہ آہستہ نقاب سرکاتا تھا۔ آج بھی دنیا کے ڈھیر ساری رنگوں والی قومیتیں سانس روکے اس کی گفتگو سن رہی تھیں اور وہ انہیں چیلنج کر رہا تھا کہ کائنات %68 ڈارک انرجی سے بنی ہے، %27 ڈارک میٹر ہے اور %5 نارمل میٹر جس کو آج تک ہم سارے سائنسی علوم سے کسی حد تک سمجھ پائے ہیں۔
پھر وہ ایک لحظے کے لیے رکا اور کہنے لگا۔ میرے پاس ایک سوال ڈارک میٹر اور کائنات کی بنت سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ بلکہ دو سوال۔ اور ان دو سوالات سے مشکل سوال ڈکشنری میں وجود نہیں رکھتے۔
پانچ سو لوگ اب دم سادھے اس کے انتظار میں تھے
“میں صبح اٹھتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں اور رات کو سوتے وقت بھی۔ تو کبھی آدھا جواب ملتا ہے، کبھی پاؤ بھر، مگر جتنا بھی مل جائے، کمال کا ہے۔ سوال بہت سادہ ہیں، شاید جواب مشکل ہیں۔”
ہال میں سانسوں کی سمفنی تیز ہوگئی۔ سینکڑوں آنکھیں اس پر جم چکی تھیں۔
“سوال دو ہیں۔
1: تم کون ہو؟ ہو آر یو؟
2:تم کیا چاہتے ہو؟ وٹ ڈو یو وانٹ؟ “۔
ہال میں طاری سکتہ بے تحاشا تالیوں سے ٹوٹا۔ لوگ بے ساختہ اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو کر تالیاں پیٹ رہے تھے۔
تم چاہتے کیا ہو؟ کئی بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اس کا جواب پتہ ہے، پھر آپ لکھتے ہیں، چند لکیریں کھینچے ہیں، فہرست بناتے ہیں، پھر فہرست لمبی ہوجاتی ہے۔ پھر صفحے ختم ہونے لگتے ہیں۔ پر چاہت ختم نہیں ہوتی اور فہرست دیکھ کر لگتا ہے کہ مجھے یہ نہیں، شاید کچھ اور چاہیے۔
جب بیج جان لیتا ہے کہ اسے کیا چاہیے تو پھر اسے پھوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا، مگر ایک ہی چیز بیج کے لیے مشکل ہے کہ اسے اپنا “بیج پنا” فنا کرکے اگلی صورت قبول کرنی ہوگی۔ وہ ایک ہی وقت میں بیج اور کونپل نہیں ہوسکتا۔ بیج اور درخت نہیں ہوسکتے۔ بیج اور پھل نہیں ہوسکتا۔ کیا تم تیار ہو؟
جب طالب مانگتا ہے اور اپنی موجودہ حالت کو کھونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو پھر استاد، مربی یا مرشد کا ظہور ہوجاتا ہے۔
کہ ہم جس کی طلب میں ہوتے ہیں، وہی ہمیں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔
کس کی طلب میں ہو؟ کیا ڈھونڈ رہے /رہی ہو؟
کون ہو تم؟
کیا چاہتے /چاہتی ہو؟
بیج کے دل میں کیا ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔