اقبال اور جرمن فلسفہ ۔ عمران شاہد بھنڈر

ہر فلسفی کا اپنا ایک فلسفیانہ نظام ہوتا ہے، جس میں حسیات، مقولات اور تعقلات کسی فلسفیانہ نظام کے داخلی تقاضوں کے تحت تشکیل دیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف فلسفوں میں مقولات، تعقلات اور خیالات مختلف مفاہیم رکھتے ہیں اور ان مقولات اور تعقلات کا استعمال جس طریقے سے کیا جاتا ہے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ مختلف فلسفیوں کے فلسفوں کے درمیان امتیاز و تفریق بھی اس وقت تک قائم نہیں کی جاسکتی جب تک مقولات اور تعقلات کے تفریقی و امتیازی کردار کا فہم حاصل نہ کرلیا جائے، فلسفوں کے ظاہر اور جوہر تک رسائی حاصل نہ کرلی جائے۔ ظاہری مماثلتیں دیکھ کر قیاس آرائیاں نہیں کی جاسکتیں۔ہر فلسفے کی عمارت مخصوص قضایا یا ان کی مختلف ترتیب کی بنیاد پر کھڑی کی جاتی ہے۔یہ بہت مشکل کام ہے کہ کسی فلسفی کی ایک ہی کتاب پڑھ کر اس کے فلسفیانہ نظام کا فہم حاصل کرلیا جائے۔ بڑا فلسفی وہ ہوتا ہے جو گزشتہ فلسفوں کی تعمیر شدہ بنیادوں کو شک کی نظر سے دیکھے ، ان میں منطقی نقائص اور تضادات کو تلاش کر کے ان کی تحلیل کرے، یا تحلیل شدہ تضادات میں مزید تضادات کو دکھائے، محض اس لیے کہ بعد ازاں وہ ان منطقی اغلاط سے محفوظ رہ سکے جن کا بصورتِ دیگر وجود میں آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ بعض فلسفوں میں مخصوص اصطلاحات ایک مختلف قسم کا کردار ادا کررہی ہوتی ہیں، جسے جاننا غلط فہمی سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں کوئی ایسا فلسفہ ابھی تک وجود میں نہیں آسکا جسے شک و شبے سے بالا قرار دیا گیا ہو۔یہ فکری معذوری صرف ہمارے ہاں ہی پائی جاتی ہے کہ ان لوگوں کو فلسفے پر سند تسلیم کرلیا جاتا ہے، جو ایک مخصوص مدار کے گرد گردش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی باتوں کو حتمی سمجھ لیا جاتا ہے۔بڑا فلسفی ایک مخصوص طریقہ کار ( میتھڈ )کی تشکیل کرتا ہے، اس میتھڈ کا اطلاق کرکے شے، حقیقت، وجود ،خیال کی ماہیت کو بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ایسے فلسفے دنیا کو دیکھنے کا زاویہ نظر تبدیل کردیتے ہیں۔ ایسے ہی فلسفیوں پر ہی سب سے زیادہ تنقید لکھی جاتی ہے۔
جدید فلسفے میں عمانوئیل کانٹ کا شمار ایسے ہی اہم اور عظیم فلسفیوں میں ہوتا ہے،جنہوں نے مغربی دنیا میں فلسفیانہ تفکر کے دھاروں اور دنیا کے بارے میں نقطہ نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ اٹھارویں صدی میں جب برطانوی تجربیت اور جرمن عقلیت اپنے حتمی نتائج کی بنا پر بند گلی میں پہنچ چکی تھیں، تو یہ کانٹ ہی تھا جس نے ان دو مختلف فلسفیانہ روایات کی تنقید پیش کی اور اپنے فلسفے کو ’’تنقیدی فلسفے‘‘ کا نام دیا۔کانٹ کی کتاب ’’تنقید عقل محض‘‘ کا شمار فلسفے کی تاریخ کی چند گنتی کی عظیم کتابوں میں ہوتا ہے۔ یہ کتاب 1781 میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے خیالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس عظیم فلسفی کے اندر مستقبل میں جھانکنے کی قوت کس قدر زیادہ تھی۔ کانٹ نے 1781 میں خدا کو تخت سے اتارا اور انسان کو مرکز میں لا کھڑا کیا۔ بادشاہت جو یورپ میں خدا کا نعمل البدل سمجھی جاتی تھی، اسے ٹھیک آٹھ برس بعد فرانسیسی انقلابیوں نے 1789 کو تہس نہس کیا۔یورپ میں جاگیرداری اور مسیحی الٰہیات کے انہدام کے تمام تصورات ’’تنقید عقل محض‘‘ میں موجود ہیں۔کانٹ کے فلسفے کا ماحصل یہ ہے کہ یہ خدا طے نہیں کرتا کہ انسان کو کیسا ہونا چاہیے، بلکہ انسان تعقلی، منطقی، جدلیاتی تجزیے
سے خود طے کرتا ہے کہ خدا کی ماہیت کیا ہے؟ انسان کو مرکز میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ خدا کو لامرکز کردیا جائے، دونوں کا مرکز میں رہنا ناممکن ہے۔ انسان خدا کا انہدام نہیں کرتا، بلکہ اسے اپنے معاملات میں دخل دینے، اپنے لیے علمی، اخلاقی اور سماجی اقدار کے تعین کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔’’تنقید عقل محض‘‘ میں تعقلی، منطقی، جدلیاتی انکوائری کے بعد’آزادی‘ کا تصور ایک لازمی نتیجے کے طور پر سامنے آتا ہے۔’آزادی‘ ایک یونیورسل تصور ہے، اس کے بغیر اخلاقیات کا تعین ہی نہیں کیا جاسکتا۔آزادی کے آفاقی تصور ہی میں نوعِ انسانی کی مساوات کا تصور مضمر ہے۔ہیگل ’’منطق کی سائنس‘‘ میں لکھتا ہے کہ وہ عظیم فلسفی جس نے جدید فلسفے میں جدلیاتی میتھڈ کی بنیاد رکھی، اس کا نام عمانوئیل کانٹ ہے۔ ہمیں یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ کانٹ ہی تھا جو تعقل کی بالادستی کا فلسفیانہ جواز ہی نہیں، انسان کی مرکزیت کا تعقلی، منطقی جواز بھی فراہم کرتا ہے۔ ریاستی نظام میں مذہب کے کردار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیتا ہے۔ نپولین نے ایک بار حکم دیا کہ اس کے سامنے کانٹ کے فلسفے کا خلاصہ پیش کیا جائے۔ خلاصہ سننے کے بعد اس نے کانٹ کو ’’شاطر‘‘ کہہ کر اس کا نام اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست سے خارج کردیا تھا۔وجہ یہ کہ اس عہد میں کانٹ کے فلسفے میں انقلابیت کے عناصر نمایاں طور پر موجود تھے۔ عہد حاضر کے یورپ کو آج بھی کانٹ کی تنقید عقل محض میں بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
کانٹ ایک ایسا فلسفی ہے ساری دنیا میں جس کی تفہیم کا عمل آج تک جاری ہے۔ بیسویں صدی جہاں مارٹن ہائیڈیگر، تھیوڈور اڈورنو، سارتر، وٹگنسٹائن اور ژاک دریدا جیسے عظیم فلسفیوں نے کانٹ کے فلسفے پر کئی کتابیں لکھی ہیں،انہوں نے فختے، شیلنگ ، ہیگل، اور مارکس سمیت کئی اہم فلسفیوں کی کانٹ کے بارے میں تشریحات کو چیلنج کیا ہے۔مغربی دنیا میں ہی کیمپ سمتھ، پال گائر، رابرٹ پپن، سبیٹین گارڈنر، ہنری ایلیسن جیسے کئی اہم شارحین بھی پیدا ہوئے ہیں، جن کی ساری زندگی کانٹ کی تشریحات میں گزر گئی ہے۔ انہوں نے کانٹ پر ایک یا دو نہیں بلکہ بیسیوں کتابیں لکھی ہیں۔ کانٹین فلسفے پر تحقیق کا یہ سلسلہ کہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں کانٹ کا کوئی سکالر موجود نہیں ہے، مگر ہر دوسرا شخص ماہرِ اقبالیات ہے۔ صرف کانٹ ہی نہیں سارے مغربی فلسفے کو اقبال کے چشموں سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاںیہ تصور کرلیا گیا ہے کہ اقبال نے مغربی فلسفے کے بارے میں جو کچھ کہہ دیا ہے وہ اگر وحی نہیں تو کم از کم حدیث کے درجے پر تو ضرور ہے۔ نتیجہ اس عمل کا یہ نکلا ہے کہ ہمارے معاشروں میں جہالت اور قدامت پسندی اپنی جڑیں مزید گہری کرتی جارہی ہے۔جن لوگوں نے براہِ راست فلسفہ پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اقبال فلسفی نہیں تھے، ’’فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل‘‘فلسفے کی کتاب نہیں ہے، محض فلسفے پر اقبال کے تبصروں پر مشتمل ہے۔ انہی تبصروں میں کئی ایسے خیالات پیش کیے گئے ہیں جنہیں چیلنج کرکے ان کا رد پیش کیا جاسکتا ہے۔
اقبال پہلے ہی خطبے میں کانٹ کی اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ ’’مطلق حقیقت تک رسائی عقلِ محض کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘ ساتویں خطبے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ سب سے پہلے کانٹ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا مابعد الطبیعات ممکن ہے؟ اس نے اس کا جواب نفی میں دیا تھا۔‘‘ گہرائی سے دیکھنے سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کے ان دونوں اقتباسات کا تعلق کانٹ سے متعلق حقیقت سے کم اور کانٹ سے متعلق اقبال کی خواہش سے زیادہ ہے۔ کانٹ صرف اس مابعد الطبیعات کو چیلنج کرتا ہے جو متصوفانہ فکر اور کانٹ سے پہلے کی تعقل پسند فلسفیانہ روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ان کے برعکس وہ مابعد الطبیعات کو تجربے میں ممکن دکھاتا ہے۔ اقبال نے علمیات، مابعد الطبیعات اور اخلاقیات میں تعقل کے تفریقی اور ممیز کردار کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی کانٹین میتھڈ میں نفی کے جدلیاتی کردار کو ہی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ ’’نظری عقلِ محض کی تنقید اس سعی پر مشتمل ہے کہ مابعد الطبیعات میں جو طریقہ کار اب تک رائج تھا اسے تبدیل کردیاجائے۔‘‘ یعنی مابعد الطبیعات کو’’ تعقل نظری‘‘ کی بجائے ’’تعقل عملی‘‘ یا اخلاقیات میں محسوس کرایا جائے۔کانٹ محض اس طریقہ کار کی نفی کرتا ہے، مابعد الطبیعات کو ختم نہیں کرتا، اور نہ ہی اس بات کا قائل ہے کہ ’’مابعد الطبیعات ممکن نہیں ہے۔‘‘ کانٹ کی شہرہ آفاق تصنیف ’’تنقید عقل محض‘‘ تعقل کے تجربی اور فوق تجربی تفاعل کی انکوائری کرتی ہے۔ کتاب جہاں پر ختم ہوتی ہے، وہیں سے دوسری کتاب ’’تنقید عملِ محض‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ انتقاد کی تیسری کتاب میں کانٹ کے فلسفیانہ پروجیکٹ کی تکمیل عمل میں آتی ہے۔دوسری کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کانٹ کے فلسفیانہ میتھڈ میں ’نفی‘ کے مقولے کا حقیقی کردار جدلیاتی نوعیت کا ہے۔ کانٹین’ نفی‘ کو مابعد الطبیعاتی مفہوم میں کبھی نہیں سمجھا جاسکتا، جس کے تحت ایک شے یا تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ کانٹین فلسفے میں تعقل عملی کا اثباتی کردار نفی کے بعد ہی شروع ہوتا ہے اور اس کی تصدیق تعقل نظری کرتی ہے۔کانٹ جس مابعد الطبیعات کی نفی کرتا ہے، اسے ہی محفوظ بھی کرتا ہے۔ اس طرح تعقل نظری کے اثباتی کردار ہی سے کانٹ کے الفاظ میں ’’عملی-اذعانی- مابعد الطبیعات‘‘ کی تشکیل ہوتی ہے ۔
کسی بھی فلسفی کے فلسفے کو بحیثیت کل سمجھنے کے لیے اس کے فلسفیانہ میتھڈ کی تفہیم ناگزیر ہوجاتی ہے۔ اقبال تعقل کے عملی اور نظری استعمال کو محض اس لیے نہ دیکھ سکے کہ انہیں فقط اپنے الٰہیاتی نقطہ نظر کی توثیق درکار تھی،اس الٰہیات کی جس کا انہوں نے کبھی فلسفیانہ تجزیہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خواہش دلیل پر سبقت لے جاتی اوراقبال علمیات اور اخلاقیات میں تعقل کے مختلف اور امتیازی کردار کو شناخت نہیں کرپاتے اور نہ ہی مابعد الطبیعات کی ایک اگلے مرحلے میں تشکیل کے عمل کو ہی دیکھ پائے ہیں ۔
تعقل کے نظری استعمال کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ تجربیت اور عقلیت کا مختصر ذکر کردیا جائے جن کی تنقید کانٹ نے پیش کی تھی۔ تجربیت کی روح یہ ہے کہ اس میں عقلیت کے فعال کردار کو تسلیم نہ کرتے ہوئے علم کو محض حسی ادراک تک محدود کردیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس عقلیت کی روایت میں حسیات کے فعال کردار کو معدوم تصور کرتے ہوئے عقل کو براہِ راست ’’شے فی الذات‘‘ کو جان لینے کا فریضہ سونپ دیا جاتا ہے۔ کانٹ انسانی صلاحیتوں یعنی حسیات، فہم اورتعقل میں تفریق و تضاد کو دکھاتا ہے۔ حسیات ’شے فی الذات‘‘ تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں ، نہ ہی وہ شے فی الذات میں مضمر’ مطلق‘ وجود کو جان سکتی ہیں۔ جو مواد حسیات ، فہم کو پہنچاتی ہیں اس کا تعلق شے فی الذات میں شامل مطلق جوہر سے نہیں بلکہ محض مظاہر سے ہوتا ہے۔ اس طرح کانٹ مظہر اور جوہر کے درمیان حد فاصل کھینچتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فہمِ محض بھی شے فی الذات میں موجود مطلق وجود تک پہنچنے کی بجائے محض حسیاتی معروض تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔ فہم کے اندر مقولات بدیہی طور پر موجود ہوتے ہیں اور وہ صرف حسیات سے حاصل شدہ معروض کا جوڑ تلاش کرتے ہیں اور خیال کے ذریعے تعقلات کا اطلاق حسیاتی معروض پر کردیا جاتا ہے۔ اس طرح عقل کا کوئی نظری استعمال باقی بچتا ہی نہیں ہے۔کانٹ اس حقیقت سے آگاہ تھا، اس کا ایک اہم کام یہ بھی تھا کہ اس نے تعقل کی حدود کو متعین کرنے کے لیے کسی غیر تعقلی یا نام نہاد وجدانی پہلو کو عیاں نہیں کیا تھا۔تعقل کی تعقل کے ذریعے تحدید کانٹ کو تعقل پسند بناتی ہوئی اسے جرمن تعقل پسند روایت سے جوڑ دیتی ہے۔اور فہمِ محض کے مقولات اور تصورات کو حسیات سے جوڑ نا اسے تجربیت کے قریب لے آتا ہے۔

(جاری ہے )

Advertisements
julia rana solicitors

 عمران شاھد بھنڈر، برطانیہ میں مقیم دانشور، استاد اور بائیں بازو کے نمائندہ اردو لکھاری ہیں۔ آپ کی دانش قاری کے ذہن کی تاریکیوں میں دئیے ٹمٹماتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اقبال اور جرمن فلسفہ ۔ عمران شاہد بھنڈر

  1. بھنڈر صاحب نے حسب معمول ایک اہم لیکن خشک معاملہ پر دلچسپ مضمون رقم کیا ہے۔

Leave a Reply