کیا بیورو کریٹ قانون سے مبرا ہیں ؟۔۔۔اے وسیم خٹک

کچھ دنوں پہلے سوشل میڈیا پر ایک  تصویر چرچے میں رہی ۔ جس میں پشاور کی اسسٹنٹ کمشنر سارہ تواب پشاور کے بازاروں میں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے جس میں وہ اپنے ننھے بچے کے ساتھ مہم کی قیادت کررہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر تصویر پر لوگوں نے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا ۔ جس پر کہا گیا کہ وہ ممتا کے ساتھ ایک فرض شناس آفیسر ہے ۔ کچھ نے کہا کہ یہ سستی شہرت کی چال ہے ۔ میڈیا کی نظر میں آنے کے لئے اس قسم کے حربے استعمال ہوتے ہیں۔ میڈیا کے دوستوں نے بھی سارہ تواب کو اچھا کہا کہ وہ دونوں ڈیوٹیاں فرض شناسی کے ساتھ نبھا رہی ہے ۔ ہم نے بھی اسے خوش آئند قدم قرار دیا کہ یہ تو بہت بہترین اسسٹنٹ کمشنر پشاور کو ملی ہے اس سے پہلے مس وزیر نے اپنی دھاک بٹھائی تھی جو ایک دبنگ سٹائل میں تجاوزات کے خلاف بازار میں آتی اور سب کچھ تہس نہس کردیتی ۔ اسسٹنٹ کمشنر سارہ تواب نے بھی اسی کے نقش قدم پر چل کر اقدامات اٹھائے اور ننھے فرشتے کے ساتھ بازار چلی آئی ۔ ایک تصویر کے سامنے آنے کے بعد جب دوسری تصویر وائرل ہوئی تو اس تصویر نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ فرض شناسی وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے یہ صرف بپلسٹی سٹنٹ ہے کیونکہ موصوفہ اس دفعہ بچے کو دفتر میں فیڈر پلارہی ہے ۔ جس کی ویڈیوبھی میڈیا پر چلی ۔ جس سے پتہ نہیں کیا تاثر دیا جار ہا تھا۔ کچھ وقت کے لئے میں سوچنے لگا کہ یہ تو ایک بیوروکریٹ ہے ۔ اور بیوروکریٹوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوتی ۔ باقی شعبہ جات میں بھی بہت سی خواتین کام کررہی ہیں ، جن کے   بچے بھی  ہیں ۔ ان کی بھی ممتا ہے ۔ وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ اتنی ہی محبت کرتی ہیں جتنی سارہ تواب کرتی ہے ۔ مگر وہ میڈیا پر نہیں آسکتی ۔ اگر یہ اسسٹنٹ کمشنر نرس ،لیڈی پولیس یا سکول ٹیچر ہوتی تو کیا وہ اس طرح اپنے بچے کے ساتھ ڈیوٹی دے سکتی ؟ بالکل نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو اجازت نہیں ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ ڈیوٹیاں کریںْ اداروں کی جانب سے شوکاز نوٹس ایشو ہوجاتے۔ کہ ہسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کون کرے گا جب نرس بچے کو گود میں لے کر گھومے پھرے گی ۔ لیڈی پولیس بچے کو لے کر ڈیوٹی دے تو کرائم کیسے کنٹرول ہوگا، ٹیچر سکول میں کیسے پڑھائے گی جب بچہ ساتھ ہو۔ کئی جگہوں پر تو سکولوں میں بچے لانے کی اجازت ہی نہیں ہے ۔ ماں باپ ملازمتیں کرتے ہیں تو بچے اور لوگوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں جس سے بچوں کو والدین کا وہ پیار نہیں ملتا۔ مگر دوسری جانب ایک بیوروکریٹ ،ڈاکٹر ایسا کرسکتی ہے کیونکہ وہ بڑی پوزیشن پر موجود ہے ، وہ میڈیا پر بھی آئے گی ۔ لوگ بھی واہ واہ کریں گے جبکہ باقی اداروں کی خواتین کو آڑے ہاتھوں لیا جائے گا کہ یہ ڈیوٹی کے خلاف ہے حالانکہ  آرٹیکل 25سب کو ایک جیسے حقوق کی بات کرتا ہے ۔ اگر کسی نرس کی اس طرح تصویر وائرل ہوجاتی کسی خاتون ٹیچر کی اس طرح تصویر آجاتی تو آج وہ گھر میں بیٹھی ہوتی ۔ کیونکہ اسے ڈسپلن کی خلاف وزری گردانا جاتا ۔ کیونکہ ایسا واقعہ  پیش آیا ہے جب ایک خاتون کو اس جرم پر شوکاز جاری کیا گیا تھا کہ وہ بچے کو گود میں لے کر کلاس لے رہی تھی ۔ اسی طرح کئی خواتین ڈاکٹروں کو بھی اس اذیت سے گزرنا پڑا تھا ۔مگر اسسٹنٹ کمشنر رینک کے لوگ فوٹو شوٹ کرکے داد سمیٹ رہی ہیں ۔ پتہ نہیں ہمارے ملک میں یہ دوغلا معیار کیوں ہے ۔ سکول ٹیچر ز کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے ۔ سینئیر ٹیچر ز کی مانیٹرنگ بھی آج کے نواجوان کر رہے ہیں ۔ حالانکہ نرس اور سکول ٹیچر عوام کی خدمت میں پاک آرمی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں ۔ پولیو ڈیوٹی ہوں ،الیکشن ہوں یا کوئی قدرتی آفت ہو یہ لوگ پیش پیش ہوتے ہیں مگر پھر بھی سبب سے زیادہ زیر عتا ب یہی لوگ آتے ہیں ۔ پاکستان بھر میں کروڑوں مائیں ممتا کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنے فرائض کو بہ احسن طریقے سے نبھا بھی رہی ہیں ۔ اُن کے بچے غیروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں ، اور یہ بیوروکریٹ تو مراعات بھی زیادہ لیتے ہیں ۔ ان کے پاس ملازمین کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ وہ آسانی کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال آیا رکھ کر کرسکتی ہیں۔ مگر نہیں کیونکہ آیا جب بچے پالے گی تو کمشنر صاحبہ کیسے فوٹو شوٹ کرکے میڈیا میں آئے گی ۔ اس پر اگر حکومت کوئی ایکشن نہیں لے سکتی تو پھر باقی محکموں میں بھی خواتین کو اجازت دی جائے کہ وہ اپنے ساتھ ننھے فرشتوں کو اپنے ساتھ دفاتر لے جایا کریں اور اپنی ممتا  نچھاور کریں ۔ کیونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ خواہ وہ سارہ تواب ہے خواہ کوئی نرس کو ئی سکول ٹیچر ۔ اگر برابر نہیں تو بتایا جائے کس قانون کے تحت بیوروکریٹ مبرا ہیں ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply