پاک دامن اور بہادر طوائف/آغا نیاز مگسی

قصے اور کہانیاں  

اردو شاعری میں سب سے پہلی صاحب دیوان خاتون شاعرہ کا اعزاز جس عورت نے حاصل کیا وہ اپنے دور کی حسین و جمیل طوائف چندا بائی ماہ لقا تھی جس کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا جس طرح کی وہ خوب صورت تھی ایسی ہی اس کی خوب صورت شاعری تھی ۔ اس کا ایک شعر ہے

کبھی صیاد کا کھٹکا کبھی خوف خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لئے بیٹھی ہے

اس خاتون شاعرہ اور مشہور طوائف کے پرستاروں میں بڑے بڑے راجے مہاراجے، نواب، رئیس، امیر کبیر، وزیر مشیر اور سیٹھ وغیرہ شامل تھے اور اس کی دوستی پر فخر کرتے تھے ۔ تعجب اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنی تمام عمر تجرد میں گزار دی یعنی شادی نہیں کی ۔ اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی جو اب تک کسی کو معلوم نہیں ہو سکی ۔ میرے اس مضمون کا عنوان چندا بی بی نہیں بلکہ دیپالی بتول ہے لیکن اس کی کہانی بیان کرنے سے پہلے کسی طوائف کا ایک قول ملاحظہ فرمائیں کہ کسی حضرت نے طوائف سے پوچھا تمہیں کوٹھا چلاتے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے تو طوائف نے کہا کہ یہ کوٹھا نہیں بلکہ بڑے بڑے شریفوں کا قبرستان ہے جبکہ سعادت حسن منٹو کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ معاشرہ کسی عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر اسے ٹانگہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا ۔

قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں کے دور میں ہندوستان میں 5 بڑے بازار حسن تھے کلکتہ کا ” سونا گاچی ” اور لاہور کا بازار حسن ” ہیرا منڈی ” جبکہ کراچی میں لی مارکیٹ اور نیپیئر روڈ کے بازار حسن، ملتان کا بازار حسن اور میاں چنوں اور عبدالحکیم کے درمیان تلمبہ کا نہایت خوبصورت بازار حسن شامل تھے ۔ تلمبہ میں اس وقت کے حکمران مہا راجہ رنجیت سنگھ نے 1818 میں بازار حسن قائم کیا تھا ۔ تلمبہ کے تاریخی بازار حسن کو تبلیغ کے ذریعے بند کرنے میں مولانا طارق جمیل کا اہم کردار ہے اور اس بازار حسن کی جگہ پر مولانا طارق جمیل نے ایک خوبصورت مدرسہ حسنین قائم کیا ہے ۔ اس سے پہلے یہ مقام پنجاب کے لوگوں میں” تلمبہ دی کنجری ” کے حوالے سے مشہور تھا ۔ کلکتہ کا بازار حسن سونا گاچی سب سے زیادہ مشہور تھا اور اس میں پدمنی کو ٹھا سب سے زیادہ مہنگا اور بہت اہم تھا ۔ یہاں ہندوستان بھر سے بڑے بڑے راجے مہاراجے، شرفاء اور اعلی سرکاری افسران اپنی ” چھٹیاں ” منانے آتے تھے واپسی پر اپنے گھروں میں اپنی بیگمات سے کسی خاص مصروفیت کا بہانہ گھڑ لیا کرتے تھے ۔ 14 سال کی عمر کی ایک یتیم لیکن خوب صورت دوشیزہ دیپالی کو سلہٹ کے پہاڑوں کے درمیان میں موجود ایک محل نما مندر کی انتظامیہ نے سونا گاچی کے دلالوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا ۔ 1898 میں ہندوستان میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی تھی جس سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے اور ہزاروں بچے یتیم ہو گئے تھے ۔ دیپالی بھی ایک یتیم اور بے سہارا بچی تھی۔ طاعون کی وباء میں اس کے والدین فوت ہو گئے تھے اور اس کے رشتہ داروں نے دیپالی کو مندر کے پروہتوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا ۔ بعدازاں مندر کی انتظامیہ نے کلکتہ کے بازار حسن سونا گاچی میں اس کی بولیاں لگائیں خوب صورتی کے باعث اس کی بڑی قیمت لگائی گئی اور اس کو سب سے مہنگے کوٹھے پدمنی میں پہنچایا گیا ۔ کوٹھے کی مالکہ نے اسے سنگھار کر کے ” معزز ” گاہکوں کا دل بہلانے کا حکم جاری کردیا لیکن دیپالی نے انکار کر دیا ۔ اس کو ” راہ راست ” پر لانے کے لئے 2 ماہ تک سمجھایا گیا لیکن دیپالی اپنے انکار پر قائم رہی ۔ ایک روز ایک مشہور شخصیت اور سابق رکن انڈین لے جلسٹو اسمبلی سیٹھ تیج بھان کو خوش کرنے کے لئیے اسے زبردستی کمرے میں دھکیل دیا گیا اور ساتھ میں دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے سیٹھ کو ناراض کیا تو اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جائے گی ۔ آدھی رات کو سیٹھ تیج بھان نے کوٹھے کے بالائی کمرے میں دیپالی سے دست درازی شروع کر دی تو دیپالی نے سیٹھ کی منت سماجت کی مگر وہ باز نہ آیا ۔تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق دیپالی نے پوری قوت کے ساتھ سیٹھ کو کسی بوری کی طرح اٹھا کر کھڑکی سے باہر نیچے روڈ پر پھینک دیا جس سے ایک دھماکہ سا ہوا اور سیٹھ کے پرخچے اڑ گئے ۔ پولیس آئی اور دیپالی کو قتل کے مقدمے میں گرفتار کر کے لے گئی۔ اگلی صبح ہندوستان بھر میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ ایک کوٹھے میں نئی آنے والی طوائف نے سیٹھ تیج بھان کو کوٹھے سے گرا کر قتل کر دیا ہے ۔ سونا گاچی سے کے بازار میں جب بھی کسی معصوم طوائف کے ہاتھوں کوئی قتل ہو جاتا تو متعلقہ پولیس تھانے خوشی کی لہر دوڑ جاتی ۔ تفتیش کے نام پر ایس ایچ او مجبور طوائف کو زبردستی اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیتا اگر طوائف خوب صورتی میں پری پیکر لگتی تو ضلع کا ایس پی صاحب بنفس نفیس تفتیش کے لیے پہنچ جاتا یہاں بھی معاملہ ایسا ہی تھا ۔ ایس پی صاحب رات کے اندھیرے میں پولیس تھانے پہنچ گیا ۔ دیپالی کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ایک بڑے ہوٹل میں کھانا کھلانے کے بعد کلکتہ کے وہاڑہ بریج کی سیر کرانے لے گیا اور وہاں گاڑی سے اتر کر دیپالی کو بریج کے کنارے گھمانے کے بہانے باتیں کرتے کرتے اپنے مطلب کی بات کر ڈالی دیپالی نے جواب میں ایس پی صاحب کو ایک زور دار دھکہ دیا اور ایس پی نہر میں ڈوب گیا ۔ اب دیپالی پر سیٹھ کے بعد ایس پی کے قتل کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ۔ دیپالی کی بہادری اور پاک دامنی کے چرچے پورے ہندوستان میں ہونے لگے ۔ کلکتہ کے سینٹ جوزف گرلز کالج کی خواتین پروفیسرز اور طالبات نے دیپالی سے جا کر حوالات میں ملاقات کی اور قتل کی وجہ معلوم کی تو دیپالی نے ایک تاریخی جملہ کہا ” کہ میں کوٹھے سے گرفتار ضرور ہوئی ہوں مگر میں کوٹھے والی نہیں ہوں” ۔ یہ لوگ مجھ سے زبردستی میری عزت لوٹنا چاہتے تھے میں نے اپنی عزت بچانے کی خاطر ایسا قدم اٹھایا ۔ کالج کی طالبات نے سونا گاچی بازار اور پولیس کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دیپالی کو رہا کیا جائے ۔ خواتین وکلاء کی تنظیم ناری سنستھا نے دیپالی کا مقدمہ مفت میں لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ ایک طرف سیٹھ اور ایس پی کے قتل کیس پر دیپالی کو سزائے موت دلانا چاہتے تھے تو دوسری جانب خواتین وکلاء کی تنظیم ناری سنستھا دیپالی کی باعزت رہائی کے لیے میدان میں اتری تھی ۔

حکومت اور اپر کلاس کے دباؤ کے نتیجے میں عدالت کمزور پڑ گئی تھی قتل کے عدم ثبوت کے باوجود سیشن کورٹ کے جج نے دیپالی کو 2 بار سزائے موت دینے کا فیصلہ سنا دیا ۔ اس کی عمر کے لحاظ سے بھی کوئی رعایت نہیں دی گئی اس کی عمر 14 سال سے کچھ ماہ اوپر تھی ۔ سزائے موت کے فیصلے کے بعد اس کو جیل بھیج دیا گیا ۔ جیل کے وارڈن کی بھی نیت خراب ہو گئی ۔ جیل کی پہلی رات ہی وارڈن نے اس کے ساتھ ہمدردی جتاتے ہوئے دعوت کے بہانے دیپالی کو اپنے بنگلے چلنے پر مجبور کیا ۔ رات کو جیل وارڈن نے دیپالی سے دل لگی کی باتیں شروع کر دیں ۔ جوں ہی دیپالی کے قریب آنے کی کوشش کی تو دیپالی نے وارڈن کو گرن سے پکڑ کر دبوچ لیا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو گئی ۔ دیپالی کے خلاف قتل کا ایک اور مقدمہ بھی درج کیا گیا ۔ پورے ہندوستان میں دیپالی کی بہادری اور پاک دامنی کی شہرت ہو گئی ۔ اس نئے قتل کی تفتیش کے دوران جیلر نے دیپالی کو زیر کرنے کا پختہ ارداہ کر لیا ۔ ایک رات دیر سے جیلر نے آ کر دیپالی کو بارہ دری چلنے کا حکم دیا یہ اس جیل کے ایک مخصوص ٹارچر سیل کا نام تھا جس کا نام سن کر قیدی تھر تھر کانپنے لگتے تھے مگر دیپالی کے چہرے پر کسی بھی قسم کی پریشانی کے تاثرات نظر نہیں آئے ۔ جیلر دیپالی کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ٹارچر سیل کی بجائے اپنے بنگلے پر لے گیا ۔ دیپالی کو اپنے سامنے بٹھا کر وہی خباثت کی باتیں کرنے لگا ۔ دیپالی نے بھی مشتعل ہونے میں دیر نہیں کی پوری قوت کے ساتھ جیلر کی گردن دبا کر موت کی وادی میں دھکیل دیا ۔ 3 قتل کے بعد اب چوتھے قتل کا مقدمہ بھی دیپالی کے خلاف درج کیا گیا ۔ ہندوستان کے عوام دیپالی کی بہادری اور پولیس کی بے شرمی پر حیران ہو رہے تھے ۔ جیلر کے قتل کے بعد دیپالی نے جیل انتظامیہ کو انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں قید خواتین کو اگر کسی نے بھی بری نظر سے دیکھا تو وہ جیلر کے انجام کو اپنے ذہن میں ضرور رکھے ۔ اس وارننگ کے بعد وہ کلکتہ کی جیل کے اندر آزادنہ گھوم رہی تھی اور خواتین قیدیوں کی ہر ممکن مدد اور خدمت کر رہی تھی ۔ نئے تعینات ہونے والے جیلر کا رویہ دیپالی کےساتھ مشفقانہ تھا اور اس نے اس سے کہا کہ بیٹی میری دعا ہے تم جلد رہا ہو جائے گی ۔ دیپالی نے کہا کہ بابا ایسی دعا مت کریں جیل کے باہر میرا کون ہے جس کے پاس میں جاوں گی ۔ خواتین وکلاء کی تنظیم ناری سنستھا دیپالی کا مقدمہ مفت میں بڑی محنت کے ساتھ لڑ رہی تھی باالآخر ایک روز ناری سنستھا تنظیم کی نمائندہ وکیل مریم بی بی جو ایک مسلمان تھی دیپالی کو آ کر رہائی کی خوشخبری دی اور اپنے ساتھ گھر چلنے کا کہا ۔ دیپالی کے پاس کوئی سامان اور کپڑے وغیرہ تو تھے نہیں ۔ ایک لیڈی کینسٹیبل نے اس کو اپنے کپڑوں کا ایک جوڑا دیا ۔ قیدیوں کا لباس اتار کر لیڈی کینسٹیبل کے کپڑے پہن کر مریم بی بی کے ساتھ اس کے گھر گئی ۔ مریم کے گھر میں مذہبی ماحول تھا دیپالی کے ساتھ سب کا بہت اچھا رویہ تھا ۔ جس سے متاثر ہو کر اس نے مریم کی ماں کے ہاتھوں مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ مسلمان ہونے کے بعد دیپالی کا نام دیپالی بتول رکھا گیا ۔ مریم کے گھر میں قرآن مجید پڑھنے اور نماز سیکھنے کے بعد مریم کی ماں نے دیپالی کی رضامندی سے اس کی شادی آسام کے گولا گائوں کے ایک حافظ قرآن سے نکاح کرا دیا شادی کے بعد وہ اپنے سسرال منتقل ہو گئی ۔ دیپالی کی کہانی سے ہمیں ایک بار پھر یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی بھی عورت یا لڑکی اپنی رضا خوشی سے نہ طوائف بنتی ہے اور نہ ہی بازار حسن میں کوٹھے والی بننا پسند کرتی ہے یہ معاشرہ ان کو مجبور کرتا ہے ۔ بہت سی خواتین اور لڑکیاں خود کو کمزور اور مجبور پا کر حالات سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور بہت ہی ایسی کم لڑکیاں اور خواتین دیپالی بتول کی طرح اپنی عزت و عصمت بچانے کے لیے مرنے اور مارنے پر تیار ہوتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ باغی

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply