• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔۔ خاک و خون میں لُتھڑی کہانی:فارس مہدی کی زبانی/سلمیٰ اعوان-قسط12

سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔۔ خاک و خون میں لُتھڑی کہانی:فارس مہدی کی زبانی/سلمیٰ اعوان-قسط12

آہ ہمارا شامی انقلاب ناکام ہوگیا۔ جن حسین خوابوں کے حصول کے لیے جس جان لیوا جدوجہد کا آغاز ہوا تھا وہ ہمارے دامن میں ناکامیوں اور نامرادیوں کی راکھ ڈالتے ہوئے ختم ہوگیا۔  35سالہ فارس فری سیرین آرمی آفیسر کی شدت غم سے بوجھل سُرخ آنکھوں کی گھنی پلکوں سے دو آنسو نکلے تھے۔دھیرے دھیرے اس کے رخساروں پر سے پھسلتے اس کی سیاہ داڑھی کے بالوں میں گم ہوگئے۔
ایک سسکی،دکھ اور شکستگی کی انتہاؤں میں لپٹی اس کے لبوں سے نکلی اورفضا میں بکھر گئی۔
”میرے اندر سے درد کے گولے اٹھتے ہیں۔ میرے شام کی آنکھ کا ہر آنسو خون کا آنسو بن گیا ہے۔“
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا۔اگر کچھ بچا ہے تو وہ کہانیاں جو ہم اپنے بچوں کو سنایا کریں گے۔ اُن ہزاروں،لاکھوں شامیوں کی جنہوں نے اسد حکومت کی آمریت،ظالمانہ جبر،تشدد اور قہر کے خلاف بے بہا قربانیاں دیں۔خود اپنی جانوں،اپنے جگر کے ٹکڑوں،اپنے گوشت پوست کے رشتوں،اپنے مادی وسائل کی۔کچھ نہیں ملا انہیں۔
ہم نے اس انقلاب سے وابستہ بہت سارے خواب خود دیکھے تھے اور اپنے لوگوں کو بھی دکھائے تھے۔وہ سب چکنا چور ہوگئے۔کیا یہ کھیل تھا جو ہم نے کھیلا؟ نہیں ہرگز نہیں۔

کچھ لوگ یہ کہنے لگے ہیں۔شاید وہ بھی سچے ہوں مگر بخدا ہم نے تو زندگی اورموت کی جنگ لڑی۔اور دیکھو تو سہی ظالم دنیا نے کیا کیا؟وہ تو اپنے کھیل تماشے میں لگ گئے۔وہ تو بن بلائے اپنے پیسوں،اپنے اسلحے کے بوروں اور اپنی ساری توانائیوں کے ساتھ غداروں سے مل گئے اور انقلاب کی روح میں زہر گھول دیا۔
نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا میں فارس مہدی دمشق کے مغربی مضافاتی قصبے قطانہQatana میں آنکھ کھولنے،بڑا ہونے،یونیورسٹی میں پڑھنے اور ملازمت کے حصول میں بہت سارے دکھوں کو دیکھتا،انہیں سہتا ہوابڑا ہوا تھا۔کہیں اندر محرومیوں اور ناانصافیوں کی سلگن تھی جو مضطرب رکھتی تھی۔سیرین آرمی میں بطور آفیسر کمیشن کے ملنے میں میرے مقدر اور میرے بخت کا کمال تھا۔

درعا میں احتجاجیوں پر گولیاں چلانے سے انکار کرنے والے فوجی دستے میں،میں شامل تھا۔ اُن سرکاری فوجی افسروں نے جو جیپیں دوڑاتے اور ایک نئی صبح کے طلوع میں اپنا حصّہ ڈالنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔جنہوں نے فری سیرین آرمی تشکیل دی تھی میں اُنہی میں سے تو ایک تھا۔یہ شامی فوج کے ہی باغی آفسر تھے۔میں جانتا ہوں۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ اسے شامی فوج کے انہی نے کِسی غرض،کسی لالچ، کسی طمع کے لیے  نہیں بنایا تھا۔وہ لوگ اپنے جذبوں میں سچے اور سُچے تھے۔عام شہریوں کے دکھوں اور مسائل کو سمجھنے والے کہ وہ انہی لوگوں میں سے ہی تو تھے۔عام لوگوں کی محبتیں اور ہمدردیاں بلا تخصیص مذہب و نسل انہیں حاصل تھیں۔
ایک نہیں سینکڑوں واقعات ہیں۔ایک کا تو میں خود عینی شاہد ہوں۔احتجاجیوں پر کریک ڈاؤن ہوا۔ہم پرانے دمشق کے گلی کوچوں میں پناہ کے لئیے بھاگے کہ سرکاری فوجیں تعاقب میں تھیں۔یہ پیچ در پیچ گلیاں، یہ راستے ہمارے لئیے اجنبی نہیں تھے کہ ہم دمشق یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران ویک اینڈ کی راتیں ٹولیوں کی صورت انہی گلیوں میں مٹرگشت کرنے میں گزارا کرتے تھے۔دائیں بائیں مڑتے مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ کب میں مدحت پاشا کی بغلی گلیوں کے موڑ کاٹتا دائیں بائیں گھومتااُس محرابی گلیارے سے ہوتا ہوا ایک کھلے دروازے کی ڈیوڑھی سے ایک گھر میں داخل ہوگیا۔فوراً میں نے دروازے کے پٹ بند کرتے ہوئے کنڈی لگادی۔چوبی کندہ کاری کے کام والے پست قامت کے دروازے کے پٹوں سے پشت ٹکاتے ہوئے میں نے اپنی تیز رفتار دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ڈیوڑھی سے آگے مجھے کشادہ صحن دکھائی دے رہا تھا۔ جس کی کیاریوں میں چنبیلی اور گلاب کے بوٹے نظر آتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد میں ڈیوڑھی سے گزرتا صحن میں آکھڑا ہوا۔دو منزلہ گھر کی کھڑکیاں صحن میں کھلتی تھیں۔انگور کی بیلیں آہنی راڈوں پرچڑھی آنگن میں دھوپ کو روکنے میں کافی معاون ثابت ہوئی تھیں۔ابھی میں ہراساں ساگومگو کی حالت میں کھڑا تھا۔تبھی انگنائی سے آگے برآمدے میں ایک نوجوان چاند چہرے جیسی لڑکی کو حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتے دیکھا جو ملحقہ کمرے سے نکل کر آنگن میں کھڑی مجھے حیرت و تعجب سے دیکھتی تھی۔

چند لمحے میں بھی اُسے دیکھتا رہا۔پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے بالمقابل جاکھڑاہوا۔
ملتجی لہجے میں میں نے کہاتھا۔”شامی فوج میرے تعاقب میں ہیں  مجھے پناہ چاہیے۔“لڑکی نے فوراً سوال کیا۔
”فیری سیرئین آرمی سے ہو۔“ اثبات میں میرا سر ہلنے پر اس نے انگلی سے بائیں جانب کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”فوراً اندر چلے جاؤ۔اور ہاں تم نے دروازہ بند کردیا ہے۔“میرے سر ہلانے پر وہ بولی۔ میرے بھائی کے کپڑے الگنی پر ٹنگے ہیں۔انہیں پہن لو۔اپنی وردی کو پلنگ کے نیچے چھپا دو۔ساتھ والے کمرے میں میرا بیمار باپ لیٹا ہوا ہے۔اُس کے پاس بیٹھ جانا۔اگر کچھ لوگ تمہاری تلاش میں اندر آجائیں تو تم نے انہیں میرے والد ایڈورڈ قاسم کا رشتہ دار بتانا ہے۔ تم مالولہ سے اُس کی عیادت کے لیے آئے ہو۔تمہارا نام ڈیوڈ رستان ہے۔مجھے مِرنا کہتے ہیں۔جلدی کرو۔میں تمہارے لیے قہوہ بناتی ہوں۔

یہ تھی وہ محبت جس کا اظہار شام کے لوگوں نے قدم قدم پر کیا۔اور اب شامیوں نے ہمیں پیار کرنا چھوڑ دیاہے کیونکہ ہم نے انہیں تباہ کردیا۔ہمارے اندر غلط لوگ آگئے جنہوں نے ہماری جدوجہد کو کھوٹا  کردیا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اسد حکومت کے تشدد ہتھکنڈے احتجاجیوں کو کچلنے کا باعث بھی ہیں۔

میں اپنے گہرے دوست کے نوجوان بھتیجے شکیب کو جانتا ہوں کہ جب احتجاجی مظاہروں پر گولیاں چلنے لگیں۔میرے دوست کا وہ بھتیجا جو دو چھوٹے بچوں کا باپ تھا۔اُس نے اپنی الماری کے اُس سیف کو کھولا جہاں اُس نے سونے کے دو ٹکڑے سنبھالے ہوئے تھے۔انہیں بیچا اور بندوق خرید لی۔لیکن بندوق ہاتھ میں پکڑ کر اس نے پہلا سوال خود سے کیا تھا۔
میں کن پر گولی چلاؤں گا۔ اپنے چچا اور ماموں کے دوستوں اور بیچ میٹس   پر۔شامی سپاہیوں پر جو ملک کی فوج ہے۔ جو میری اور میرے بچوں کی محافظ ہے۔جو ہمارے ہی وجود کا حصّہ ہے۔ وہ ہمیں کیوں مار رہی ہے؟
”نہ ختم ہونے والا انقلاب“ یہاں دنیائے شام کی انقلابی شاعرہ جوشیلی ایکٹویسٹ خاولہ جس نے اسد حکومت کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کو پوری دنیا میں بے نقاب کیا۔یہ اِس کی روز مرہ یادوں کا مجموعہ ہے۔ “Sniper” خفیہ گولی چلانے والا ایک گہری اور دل میں طوفان اٹھانے والی اُس کی نظم جسے موجہ نے ترجمہ کیا، فیس بک پر چڑھایا اور پوری دنیا میں یہ نشر ہوئی۔
“Sniper” کو ذرا دیکھیے۔

انگلی جو رکتی نہیں

عضو جو تقدیر کے آگے جھکتا ہے
وہ تقدیر جیسے خاموش رائفل لکھتی ہے
اور تم
کیا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟
کس نے تمہیں یہ سکھایا؟
جو تم میرے ساتھ کر رہے ہو
کس نے تمہیں اس سنگین لمحے میں منجمد کیا
یہ لمحہ جو
مجھے،تمہاری آنکھ اور گولی
کو اکٹھا کر دیتا ہے
اور یہی وہ لمحہ ہے جو
مجھ سے میرا خواب چھینتا ہے
اور تمہیں ناموری دیتا ہے
سنائپر۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply