• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ /ٹیکس کہاں سے آئیں گے ؟ (18)-حامد عتیق سرور

جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ /ٹیکس کہاں سے آئیں گے ؟ (18)-حامد عتیق سرور

کہتے ہیں کہ ایک صاحب روز ایک بزرگ کے مزار پر جاتے اور گھنٹوں دعا کرتے کہ ان کا انعامی بانڈ نکل آئے ۔ چہل روزہ دعاؤں کے بعد ایک رات وہ بزرگ ان کے خواب میں آئے اور ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے کہ کمبخت انعامی بانڈ خرید تو لے  ۔ مشکل اردو میں بولیں تو ہر معلول کو علت کی ضرورت ہے اور آسان انگریزی میں کہیں تو cause-effect relationship۔ جو موجود ہے اس کا کچھ سبب ہے اور جو نہیں ہے تو اس لئے نہیں کے اس کے اسباب میسر نہیں ۔ سو ہمارے معاشی حالات کی پچاس سالہ ابتری کا سبب ہمارے بہت سے کردہ اور ناکردہ اقدامات ہیں اور اس کے سدھار کے لئے بھی کچھ معمول سے ہٹ کر نیا کئے جانے کی ضرورت ہے ورنہ وہی پرانی ڈگر کا نصیب پرانی منزل ہی ہو سکتی ہے ۔

حکومت ، اپوزیشن، نوکرشاہی ، صحافیوں اور عام عوام کو یہ تو معلوم ہے کہ بگڑی ہوئی معیشت کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ کیا اور کیسے کرنا ہے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے نکلیں تو جتنے منہ ، اتنی باتوں والی صورتحال ہوتی ہے ۔ ہر حکیم کا الگ نسخہ اور ہر طبیب کا الگ شربت۔ اختیار والوں کو وہ بوتل اور نسخہ پسند آتا ہے جو کڑوا بھی کم ہو اور لیبل پر ہر مرض کی اکسیر کا دعوٰی بھی کرتا ہو ۔ اور نتیجہ وہی ہوتا ہے کہ ہر تین سال بعد ہماری معاشی حالت پہلے سے دگر گوں ہوئی جاتی ہے۔

طبی منطق سے دیکھیں تو ہم بآسانی تین نتائج تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اول یہ کہ ہمارے معاشی امراض فوری ( Acute) نہیں دائمی (chronic) ہیں۔ دوم ان امراض کا علاج طویل اور صبر آزما ہوگا اور سوم یہ کہ شفا کی صورت وہی ہوگی جس سے اس طرح کے دوسرے مریض جانبر اور صحتیاب ہوئے نہ کہ تعویذ ، دیسی علاج اور ٹوٹکے۔

اب آجائیں اس بڑے مسئلے کی طرف کہ اس ملک کو اپنے شہریوں کو غربت سے نکالنے اور تعلیم ، صحت اور انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے لئے قومی پیداوار( GDP) کے مزید سات سے نو فیصد کے وسائل چاہئے ہیں اور ہمارے موجودہ وسائل کو 11 فیصد( ایف بی آر 9 فیصد ، صوبے 1 فیصد اور پیٹرولیم لیوی 1 فیصد ) سے کم از کم 18 فیصد پر لے کر جانا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ چونکہ یہ رقم ایک چلتی ہوئی معیشت میں سے نکالنی ہے سو خون کے عطیے کی طرحGDP سے ڈیڑھ فیصد سالانہ سے زیادہ کی reallocation معیشت کو recession میں لے جاتی ہے سو یہ کام اگلے پانچ سال میں ہونا ہے جس کے لئے حکومت کی ایک درجہ مستقل مزاجی اور سفر کی سمت سے چھیڑ چھاڑ سے گریز درکار ہے ۔

اب سوال آتا ہے کہ اس دورانیے میں کیا ہونا ہے ؟ جیسے پہلے عرض کیا ہے کہ حل وہی ادویات ہیں جو دوسرے مریضوں پر کارگر ہوئی ہیں اور پرہیز وہی کرنی ہے جو توانا معیشت والے ممالک نے کی ہیں ۔ کم وسائل والے ملکوں کے لئے سب سے سہل اور کم خرچ کام ، بہتر ممالک کی تقالی سے ہوتا ہے ۔ کینیڈا کی وزارت خزانہ بہت عرصہ امریکہ کی معاشی اصلاحات کی نقالی کرتی رہی سو بڑی حد تک کامیاب رہی ۔ میکسیکو والوں نے ہماری طرح اپنی مرضی کی اور آج ہماری طرح اپنے کئے کا پھل بھگت رہے ہیں ۔ ہم بھی ٹیکس کے کاموں میں 1990 تک بھارت کی تقالی کرتے رہے اور اس زمانے کے لحاظ سے ٹھیک ہی رہے مگر پھر ہمارے سر میں کچھ نیا کرنے کا سودا سمایا جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں ۔

ہمارے ٹیکسوں کے نظام میں ، مناسب ترقی والے ملکوں کی نسبت تین بڑی خرابیاں ہیں ۔ اول ہمارے جمع کئے گئے ٹیکس ہماری ملکی ضروریات کے لئے شدید ناکافی ہیں ۔ دوسرے ہمارے نافذ کئے گئے بہت سے ٹیکس اپنی ہئیت میں خاصے غیر منصفانہ ہونے کی وجہ سے معاشی ترقی کے رستے میں رکاوٹ ہیں اور تیسرے ٹیکس کی عملداری کے نظام میں موجودہ ٹیکس گزاروں سے ” یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی ” والا رویہ ہے( جس میں چراغوں کو بجھائے بغیر جلانے کا ہنر بھی عنقا)۔

بہت سے گزشتہ مضامین میں خامیوں کی نشاندہی ہو چکی ۔ اب ضرور ہے کہ ان مسائل کے ممکنہ حل پر بھی بات کی جائے ۔ واضح رہے کہ یہ حل دوسرے کامیاب ملکوں سے اخذ شدہ محض میری ذاتی رائے ہیں اور ممکن ہے کہ اس سے بہتر تجاویز موجود ہوں ۔ اپنی دانست اور محدود تجربے کی رو سے ایسا کہہ سکتا ہوں کہ ٹیکسوں کو پانچ سال میں قومی پیداوار کے 11 فی صد سے 18 فیصد تک لانا ممکن ہے جس میں انکم ٹیکس کو موجودہ ساڑھے تین فیصد سے چھے فیصد پر ، سیلز ٹیکس/ ایکسائز کو ساڑھے تین سے چھ فیصد، اور کسٹم کو ایک فیصد(موجودہ شرح پر ہی )کرنا ہے ۔ پٹرولیم لیوی کو دو فیصد،پر جانا ہے اور صوبائی ٹیکسوں کو بھی دو فیصد پر۔

پانچ سال کا سوچیں تو انکم ٹیکس / سیلز ٹیکس اور ایکسائز کو قریب آدھا فیصد سالانہ کی real growth دکھانی ہے اور صوبائی ٹیکسوں / pdl کو اعشاریہ چار فیصد کے حساب سے بڑھنا ہے ۔ کسٹم ڈیوٹی کو البتہ rearrange کر کے اس کی مقدار بڑھائے بغیر خام مال ، مشینری، نیم تیار مال سے ہٹا کر غیر ضروری finished goods پر لے کر جانا ہے۔ اس کام کو کرنے کے لئے کسٹم کے ڈنگ ٹپاو پانچویں شیڈول کو ختم ہونا ہے اور اس سے ملتے جلتے ایس آر او بھی رخصت ہونے ہیں ۔ بندرگاہوں پر containersکو سکین کرنے کا انتظام بھی کرنا ہے ، اشیا کی قیمت کے تعین کے لئے بین الاقوامی ایکسچینج سے مصنوعی ذہانت پر مبنی معلومات کا تبادلہ بھی کرنا ہے اور ملک کے اندر کنٹینر اور سامان کی نقل وحرکت کی remote monitoring بھی کرنا ہے ۔ اور یہ سب کاروباری برادری کو اعتماد میں لے کر بتدریج اور سہل انداز میں کرنا ہے ۔

انکم ٹیکس میں پچھلے دو سال میں کارپوریٹ سیکٹر پر لگائے گئے سپر ٹیکس وغیرہ کا خاتمہ اور پارٹنرشپ اور بڑے انفرادی کاروبار پر کمپنیوں کے برابر یا اس سے زائد ٹیکس ۔ ود ہولڈنگ ٹیکسوں کو موجودہ پچپن ٹرانزیکشنز سے ہٹا کر پندرہ تک محدود کرنا ہے ۔ زمین/ مکان / دکان کے بیچنے پر ہوئے منافع پر بھارت کی طرح کا ٹیکس ( تخمینہ :500 ارب ) ، بیس لاکھ سے زائد پینشن پر ٹیکس (اگر پچاس ہزار مہینے والے تنخواہ دار پر ٹیکس ہے مگر دو لاکھ مہینہ کمانے والے پینشر پر نہیں ) ، فلاحی اداروں کی کاروباری آمدن پر ٹیکس ( دنیا بھر میں فلاحی اداروں کی چندے ، سود اور پراپرٹی آمدن پر چھوٹ ہوتی ہے کاروباری آمدن پر نہیں ۔ کاروباری آمدن پر چھوٹ سے پاکستان میں دو بڑی ڈائیگناسٹک لیبارٹریوں کے مقابلے میں کوئی پرائیویٹ سیکٹر کی 35% ٹیکس دینے والی لیب کام ہی نہیں کر سکتی ۔ یہی حال تعلیمی اداروں کا ہے ۔ بھلا لمز میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیم کو ٹیکس کی چھوٹ سے کیوں سبسڈی دی جاتی ہے ) ۔ اور سب سے بڑھ کر تاجروں پر مناسب ٹیکس۔ جن میں گلیوں اور چھوٹی سڑکوں کے ریٹیلر پر فکسڈ ٹیکس ۔ بڑے ریٹیلر اور ہول سیل والوں پر ٹرن اوور ٹیکس کی شرح کم کرکے باقاعدہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے نظام کا حصہ بنانا ہے ۔

سیلز ٹیکس میں امپورٹڈ، زرعی اور معدنی اشیا سے درمیانے اور امیر طبقے کی ویلیو چین کو قانونی اور انتظامی سقم دور کر کے جدید ٹیکس کی شکل میں لاگو کرنا ہے ۔

پانچویں سال کے آخر تک کمپنی پر ٹیکس کا ریٹ 25 فی صد رہ جانا چاہئیے اور افراد اور ساجھے داریوں پر زیادہ سے زیادہ 30 فیصد۔ تنخواہ دار طبقے کو الاونسز کی مد میں ٹیکس کی چھوٹ دینا ہوگی اور سیلز ٹیکس کی شرح کو بتدریج کم کرکے 15 فیصد پر لانا ہوگا۔

صوبائی ٹیکسوں میں زرعی آمدنی کے ٹیکس کو عام آمدنی کے شیڈول پر لانا ہے اور فکسڈ ٹیکس کی شق کو ختم کرنا ہے ۔ پوش علاقوں کے گھروں اور دکانوں پر بتدریج پراپرٹی ٹیکس بڑھانا ہے ۔ پٹرولیم لیوی کو قیمت کے 25 فیصد تک رکھنے سے آب و ہوا بھی بہتر ہوگی اور پٹرول بل میں کمی بھی ۔

ٹیکسوں کا ایک بڑا حصہ انتظامی امور میں سرمایہ کاری سے آنا ہے ۔ ایک مصنوعی ذہانت سے governed نیشنل ڈیٹابیس آف ٹرانزیکشن بننا ہے جو نہ صرف غلط ریٹرن کی حوصلہ شکنی کرے گا بلکہ آہستہ آہستہ تمام لوگوں کے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے گوشوارے بھی بنا کر دے گا جو معمولی کاٹ چھانٹ کے بعد سسٹم میں ڈالی جا سکے گی ۔ ٹیکس کے دفاتر آنے جانے کی ضرورت ختم ہوتی جائے گی اور لوگوں کو ٹیکس اداروں کے وجود کا احساس تب ہوگا جب وہ کسی بڑے فراڈ کا حصہ بنیں گے۔

یہ سب کچھ پڑھنے میں بہت دیومالائی اور غیر ممکن لگتا ہے مگر آپ حیران ہوں گے کہ ان میں سے بہت کچھ ایتھوپیا تک میں ہو چکا ہے ۔ کام ایسا مشکل بھی نہیں مگر بیچ رستے میں راہ بدلنے سے سب کچھ بیکار بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ ایک دفعہ ہمت کرکے پانچ سال کے بلیو پرنٹ پر تاجروں ، صنعت کاروں ، سیاست دانوں اور باقی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر چلنا پڑے گا۔ جیسے منو بھائی اپنی مشہور پنجابی نظم میں کہہ گئے ہیں ۔

کیہہ ہویا اے؟
کجھ نئیں ہویا
کیہہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا
کیہہ ہوسکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا
عشق سمندر ترنا پیندا
سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا
حق دی خاطر لڑنا پیندا
جیون دے لئی مرنا پیندا

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply