آج مادری زبانوں کا عالمی دن ہے۔۔۔۔عاطف رحمان

مادری زبان کا تحفظ مادری زبان بولنے والا ہی کر سکتا ہے مگر جہاں ماحول یہ ہو کہ ذرا سا بھی صاحبِ حیثیت شخص یہ فرق کرکے اپنے بچوں سے اردو اور انگریزی میں بات کرنے کوترجیح دیتا ہوکہ مادری زبان بولنا پسماندہ اور آؤٹ آف فیشن ہونے کی نشانی ہے۔وہاں مادری زبان اگر لسانی درجے سے گر کر مخصوص بولی کے درجے پر آ جائے تو یہ باعث حیرت نہیں۔
ہر سال 21فروری کو دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی طرف سے مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 17نومبر 1999ء میں یونیسکو نے یہ دن منانے کا اعلان کیا اور 2000ء سے یہ پوری دنیا میں منایا جارہا ہے۔ 2008ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس حوالے سے قرارداد منظور کی اور 2008ء کو عالمی زبانوں کے سال کے طور پر منایا گیا۔یہ دن 1952ء کے شہیدوں کی یادتازہ کرتا ہے جو اپنی مادری زبان کا حق حاصل کرنے کے لیے شہید کر دیئے گئے۔بنگالی مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی مادری زبان کو بھی قومی زبان تسلیم کیا جائے۔ چنانچہ 21 فروری 1952ء میں بنگالی کے حق میں مظاہرے ہوئے جن پر تشدد کی وجہ سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے چار طلبا شہید ہو گئے۔ ان کی یاد میں ڈھاکہ کا مشہور شہید مینار تعمیر کیا گیااور بنگلہ دیش حکومت اس دن کو سرکاری سطح پر مناتی ہے ، بعد میں اقوام متحدہ نے بھی اسی دن 21فروری کو مادری زبانوں کا دن قرار دے دیا۔
بین الاقوامی سطح پر مادیر زبانوں کو تکریم ملنے کے باوجود لاتعداد ممالک میں تاحال مادری زبانوں کو اپنا اصل مقام و مرتبہ نہیں ملتا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ 3ہزار زبانوں کو یہ خطرہ درپیش ہے کہ کہیں وہ ختم نہ ہو جائیں۔ پاکستان میں 1956ء اور 1962ء کے آئین میں اردو اور بنگالی کو قومی زبانین قرار دیا گیا اور 1973ء کے آئین میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا اور 1973ء کا آئین وہ پہلی دستاویز تھی جس نے پاکستانی مادری زبانوں کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کو آئین کے تحت پنجابی ،سندھی، پشتو، بلوچی اور براہوی ، ادبی بورڈوں کو سرکاری معاونت دینے کے عمل کا آغاز ہوا۔کیونکہ جو اپنی مادری زبان بھول جاتا ہے وہ اپنی پہچان بھول جاتا ہے۔تاہم مادری زبانوں کو بطور ذریعہ تعلیم لاگو کرنے کی بصیرت موجود نہیں تھی۔ دنیا بھر کے تعلیمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بنیادی تعلیم اسی زبان میں دینی چاہیے جو ان کی مادری زبان ہے ۔ اگر اس اصول کو بروقت اپنا لیا جاتا تو آج سری لنکا کی طرح 98فیصد لوگ پڑھے لکھے ہوتے۔
2008ء کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جو 44.15فیصد بولی جاتی ہے ۔ دوسرا نمبرپشتو زبان کا آتا ہے جو 15.44 فیصد بولی جاتی ہے ۔تیسرا نمبر سندھی زبان کا ہے جو 14.12 فیصد بولی جاتی ہے جب کہ سرائیکی کا چوتھا نمبر ہے جو 10.42فیصد بولی جاتی ہے۔ پانچواں نمبر پر اردو ہے جو صرف اور صرف 7.59فیصد بولی جاتی ہے۔بلوچی 3.59فیصد بولی جاتی ہے۔پاکستان میں صوبہ سندھ میں سندھی ،خیبرپختونخواہ میں پشتواور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں ضرور پڑھائی جاتی ہے جبکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب میں پنجاب زبان کی ترویج و اشاعت کی سرکاری سطح پر کبھی بھی سنجیدگی سے ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ عوامی سطح پر پنجابی زبان اپنائیں اور اس کے سٹیٹس کی بات بھی مخصوص چند دانشوروں تک محدود رہ گئی ہے۔
بدقسمتی سے پنجاب کے حکمرانوں نے پنجابی زبان کی ترقی کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے۔ اگر پنجاب میں پنجابی زبان تعلیمی اداروں میں لازمی طور پر پڑھائی جاتی تو آج نئی نسل پنجاب کے تہذیب اور ثقافت سے آگاہ ہوتی کیونکہ پنجاب کا ورثہ ادبی حوالے سے بہت زرخیز ہے ۔ پنجاب صوفیا کرام کی دھرتی ہے جس میں پنجابی کے عظیم صوفی شعراء بابا فرید، شاہ حسین، سلطان باہو، بلھے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش، خواجہ غلام فریدنے اپنے کلام سے محبت ،رواداری ،بھائی چارہ ، امن اور انسانیت کا درس دیا۔پنجابیوں کو پنجابی سے دور رکھ کر دراصل صوفیا کرام کے پیغام سے دور کر دیا گیا جس کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں برداشت ،رواداری کا خاتمہ ہو گیا ہے اور نفرت، فرقہ واریت ،تعصب پروان چڑھا ہے ۔ جس نے لوگوں کو گرہوں میں تقسیم کر دیا ۔
مادری زبانوں کا دن پاکستان میں کئی سالوں سے جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے ۔ مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر صوبہ پنجاب کے عوام حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجابیوں کی مادری زبان پنجابی کو پرائمری سے بی اے تک تعلیمی اداروں میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔تمام تعلیمی اداروں میں پنجابی مضمون کے اساتذہ بھرتی کیے جائیں ، پنجاب میں اہم دفاتراور سرکاری عمارتوں کے نام انگریزی کے ساتھ پنجابی میں بھی لکھے جائیں ۔ پنجاب میں عدالتی زبان پنجابی کو قرار دیا جائے اور پنجاب اسمبلی کی کارروائی بھی پنجابی میں ہو۔تمام پنجابی اخبار و جرائد کے لیے سرکاری اشتہارات کا کوٹہ مقرر کیا جائے ۔اور یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت پاکستان نے اب علاقائی زبانوں کو پاکستانی زبانیں قرار دے دیا ہے اور نصاب میں بھی علاقائی زبانوں کو پاکستانی زبانیں لکھا جانا چاہیے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply