عرب میں مولود النبی ﷺ /منصور ندیم(1)

شاید کم لوگ جانتے ہونگے کہ مغربی سعودی عرب میں اہل حجاز کے بہت سے لوگ ربیع الاول کو جشن کا مہینہ سمجھتے ہیں، اور یہ پورا مہینہ یہاں کے مقامی لوگ مختلف فلاحی ایونٹس کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلانا، مٹھائیاں تقسیم کرنا اور مختلف خاندانوں کی مدد کرنا بلکہ خواتین کی بھی اسی طرح کی کئی مخصوص سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اہل حجاز میں میلاد منانا، بلکہ خصوصاً  حجاز کے کچھ معروف خاندان اسے ہمیشہ سے مناتے آرہے ہیں اور ہر سال تقریبات بھی منعقد کرتے ہیں، مکہ مکرمہ میں عالم محمد علوی المالکی کے گھر پر زمانوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے، اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں بھی کئی خاندانوں میں یہ روایت موجود ہے، جہاں “لیل مولود” بطور روایت جشن کے طور پر منائی جاتی ہے، جس میں اجتماعی طور پر قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ لیل مولود کے لئے زمانوں سے روایتی طور پر السخاوی، البرزانجی اور القوقجی قصائد معروف ہیں, جو رسول اللہ کی خصوصیات اور زندگی کو بیان کرتے ہیں۔ حتی کہ مخصوص پکوان بھی اس موقع پر بنائے جاتے ہیں۔

مکہ و مدینہ کی مختلف مساجد میں بھی ایسی محافل ہوتی ہیں، جہاں مختلف ممالک کے رہنے والے جو سعودی عرب میں نوکریاں کرتے ہیں وہ بھی ان سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ کئی عرب ممالک میں بھی میلاد النبی منایا جاتا ہے، خصوصا ً مصر، مراکش، بحرین، عرب امارات، لبنان، فلسطین اور شام کے لوگ بھی اپنے اپنے انداز میں میلاد مناتے ہیں، مزے کی بات ہے کہ کئی ممالک جیسے شام بحرین اور سعودی عرب کے کچھ علاقوں میں اہل تشیع بھی ہیں، اہل تشیع کے ہاں میلاد النبی 17 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے کہ اہل سنت کے ہاں 12 ربیع الاول معروف ہے۔ بس اس فرق کے علاوہ ان ممالک میں میلاد منانے کے لیے کوئی جھگڑا نہیں ہے، عرب ممالک میں میلاد النبی منانا مذہبی عبادت کے طور پر نہیں بلکہ مسلمانوں کی ایک خوبصورت روایت کے طور پر ہے، نہ ہی اسے عبادت کا درجہ دے کر کسی دوسرے کے لیے تکذیب کا پہلو نکالا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی مذمت میں سختی سے رد کر کے منانے والوں پر کوئی سخت نقطہ چینی کی جاتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سعودی عرب ضلع شرقی اور مدینہ کے کچھ علاقے میں 17 ربیع الاول کو اہل تشیع بہت اہتمام سے ربیع الاول بناتے ہیں، ضلع شرقی کے تمام شہروں میں تقریبا دکانیں بند ہوتی ہیں کھانے پینے کا اہتمام ہوتا ہے لنگر کا اہتمام ہوتا ہے ان کی مجلسیں سجتی ہیں ان کی مساجد میں رش ہوتا ہے۔

ایک اور انتہائی مزے کی بات یہ ہے کہ عرب کی سماجی تقریبات میں آداب کے درجے کے لئے کچھ اشاراتی آداب بھی موجود ہیں، جیسے مثلا ًجب رسول اللہﷺ کا نام لیا جائے تو کوئی کھڑا ہوجائے  گا، جب نام لیا جائے تو وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہیں یا نظریں جھکا لیتے ہیں یا پھر اپنے سر کو جھکا لیتے ہیں، لیکن یہ انتہائی ضروری امر جان لیں کہ یہ صرف ہر فرد کا ذاتی عمل ہے جس کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں ہے، بلکہ صرف اسے عزت اور محبت کی علامت سمجھا جا سکتا ہے اور یہ بھی ایک فرد کا ذاتی عمل ہے، اس کی بنیاد پر ایسے عمل کو کرنے والا کسی دوسرے کو جو ایسا نہ کرے کمتر نہیں سمجھتا، اور اگر کوئی عقیدتاً  یا آداب کے ان روایتی پہلوؤں کو فالو نہیں کرتا تو ایسا کرنے والے نہ اس کے بارے میں کوئی بری سوچ رکھتے ہیں، اور نہ ہی اس کو بے ادبی گردانتے ہیں، یہ صرف اور صرف کلچر کی ایک علامتی محبت ہے، جو نہ ہی لازمی کے زمرے میں آتی ہے اور نہ ہی کسی کے لیے برتری اور کمتری کے فیصلے کے لیے جانچی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات جو میں نے بدقسمتی سے ابھی چند دنوں میں نوٹ کی ہے کئی لوگ ہمارے ہاں یا تو یکسر منانے والوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں یا پھر جو روایتی طور پر میلاد النبی کو منانا پسند کرتے ہیں وہ نہ منانے والوں پر کڑھتے ہیں، گھٹیا القابات دیتے ہیں اور مناظرے کی کیفیت میں پوسٹ لکھتے ہیں، افسوس یہ ہے کہ میں نے اچھے خاصے سمجھدار لوگوں کو اس رویے میں مبتلا دیکھا ہے، اور جو لوگ اس روایت کو مناتے ہیں ان میں بھی کئی مولود النبی کے نام پر بہت ہی قبیح حرکات بھی کرتے ہوئے دکھائی  دیتے ہیں، رسول اللہﷺ کا مولود اسلام میں ایک علامتی محبت کے اظہار کی روایت ہے۔ اس کے منانے والے اور کسی بھی طور پر نہ منانے والوں کے درمیان میں کسی بھی قسم کے کسی جھگڑے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ کاش ہم یہ ایک اہم روایتی ایونٹ تو بغیر جھگڑے کے منائیں یا خاموش رہ لیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply