اوقات بدلیں یا اوقات میں رہیں/سیّد بدر سعید

آپ مڈل کلاس طبقہ سے ہیں تو یقین مانیں پاکستان میں سب سے زیادہ مسائل اور مہنگائی کا شکار بھی آپ ہی ہیں۔ ہمیں مہنگائی سے زیادہ منافقت نے مارا ہے۔ یہ منافقت مڈل کلاس طبقے کو دوہری زندگی گزارنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ایک ایسی زندگی جس کا انجام ڈپریشن اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کپڑے، جوتے، کھانے، مہمان نوازی اور شادیوں پر لین دین سے لے کر زندگی کے ہر معاملہ میں جتنا حساس مڈل کلاس طبقہ ہے اتنا کوئی نہیں ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملہ میں اپنی ناک سلامت رکھنا چاہتے ہیں، چاہے اس ناک کو بچاتے بچاتے گردن کٹ جائے۔ ایلیٹ اور غریب دونوں طبقات کو کپڑوں کی پروا نہ ہو تو بھی گزارہ ہو جاتا ہے لیکن مڈل کلاس طبقہ اپنی اوقات اور کلاس سے بڑھ کر نظر آنے کے چکر میں مارا جاتا ہے۔ ہم نے ایسا امیر وزیر اعظم بھی دیکھا جو گھر آئے مہمانوں کے درمیان بیٹھ کر خود کھانا کھاتا تھا اور مہمانوں کو چائے بھی نہیں پوچھتا تھا۔ ہمارے مڈل کلاس لوگ اس امیر وزیراعظم سے زیادہ بڑے مہمان نواز ہیں۔ مہمان نواز ی اچھی روایت ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مہمان کے سامنے عزت رکھنے کے لیے ادھار پکڑ لیں اور پھر ادھار دینے والے کے سامنے ذلیل ہوں، مہمان کے سامنے کھانے کے لیے گھر کی پکی دال سبزی کیوں نہیں رکھی جا سکتی؟

سچ تو یہ ہے کہ آپ کے گھر آنے والے کو آپ کی مالی حیثیت کا بخوبی علم ہے اس سے بڑھ کر کیا گیا دکھاوا اس کے لیے بے معنی ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر گلیمر کے چکر میں دوسروں کی گاڑیوں کے ساتھ بنائی گئی سیلفیاں اورمہنگی لوکیشن پر تصاویر بنا کر لائف سٹائل دکھانے کی کوشش بھی منافقت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جو آپ کو جانتے ہیں انہیں آپ کی مالی حیثیت کا بخوبی علم ہے جو آپ کو نہیں جانتے انہیں یہ سب دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم لوگ ایلیٹ نظر آنے کے چکر میں ایسی ایسی حرکتیں اور اخراجات کر جاتے ہیں کہ نہ صرف دوسروں میں مذاق بنتا ہے بلکہ مالی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

میرا تعلق جس شعبے سے ہے اس میں شوبزنس، گلیمر، میڈیا اور مشہور شخصیات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کچھ اینکرز، اداکارائیں، ٹک ٹاک سٹارز اور سیاسی شخصیات میرے دوستوں میں بھی شامل ہیں۔ سچ بتاؤں تو چند ایک کے سوا ہماری زیادہ تر ٹک ٹاک سٹارز اور اینکرز کی رہائش تنگ گلیوں، محلوں اور پرانے مکانوں میں ہے۔ زیادہ تر کسی محلے میں کرایہ کے مکان میں رہتی ہیں۔ کچھ نے درمیانے درجے کی سوسائٹی میں کرایہ پر گھر لیا ہوا ہے تاکہ کوئی آ جائے تو اسے بیک گراؤنڈ نہ پتا چل سکے۔ آپ کبھی ان کے ”ماڈرن“ ڈریس دیکھیں اور پھر ایک چکر لنڈے بازار کا لگا لیں۔ آپ کو بیلٹ سے لے کر ڈریسز تک کی پوری کولیکشن وہاں نظر آ جائے گی۔ میں لنڈے بازار کو برا نہیں کہہ رہا۔ ہمارے بیوروکریٹ دوست حافظ مظفر محسن تو یہ بھی کہتے ہیں کہ “گورے نے کبھی غیر معیاری لباس پہنا ہی نہیں ہے؟“، لنڈے کے کپڑے کا عموماً سٹف اچھا ہوتا ہے۔ میں اس منافقت کو برا کہہ رہا ہوں جو اپنا اصل چہرہ چھپا کر شخصی ملمع سازی پر ابھارتا ہے۔

میں نے کیفے لائف کو بھی قریب سے دیکھا ہے۔ یہاں بظاہر ماڈرن نظر آنے کی کوشش کرنے والی مڈل کلاس لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے ان میں کئی ہاسٹلز میں رہتی ہیں اور جب گاؤں واپس جائیں تو ایک ہفتے کے لیے ”پاتھیاں“ بھی لگا لیتی ہیں۔ ایسی لڑکیاں کیفے لائف انجوائے کرتی ہیں، کلبوں  میں شامیں گزارتی ہیں، سیلفیاں بناتی ہیں لیکن کسی بھی جگہ بل خود ادا نہیں کرتیں۔ یہ فریضہ وہ لڑکے سر انجام دیتے ہیں جو ان کے ساتھ کیفے لائف انجوائے کرنے آتے ہیں۔ اکثر ان کے موبائل میں بیلنس نہیں ہوتا اور نیٹ پیکج کرا کے واٹس ایپ استعمال کرتی ہیں۔ ان کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہوتی لیکن بڑی گاڑیوں کے ساتھ تصاویر ہوتی ہیں۔ چند ایک ایسی ہیں جنہیں امیر باپ کی بگڑی اولاد مل جاتی ہے تو ان کا لائف سٹائل واقعی تھوڑا تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر کی باتوں میں غیر ضروری خود نمائی، غرور، شیخی ملے گی۔ آپ کسی پوش علاقہ میں کیفے کے باہر کھڑے ہو جائیں، آپ کو زیادہ تر پاپا کی پرنسز یا تو کسی لڑکے کی گاڑی میں جاتی نظر آئیں گی یا اوبر پر جائیں گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے حلقہ احباب کو بھی علم ہوتا ہے کہ ان کا اصل لائف سٹائل کیا ہے۔ میں نے انہی کیفے میں لڑکوں کو بھی بل ادا کرتے وقت اپنا اپنا حصہ ڈالتے دیکھا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جو چائے کا کپ آپ کو ڈھابے پر پچاس سے ساٹھ روپے میں مل جاتا ہے اور آپ باآسانی اپنے دو تین دوستوں کی چائے کا بل بھی ادا کر سکتے ہیں وہی چائے کا کپ کیفے میں ڈیڑھ سے دو سو کا پیتے وقت دوستوں سے شیئرنگ لینے میں کیسی عزت ہے؟آپ اور آپ کے تمام دوست ایک دوسرے کی حیثیت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ ایسے نوجوان جب عملی زندگی میں آتے ہیں تو ان کے لیے ملازمت مشکل ہو جاتی ہے، گھر مینج کرنا مشکل میں ڈال دیتا ہے اور ایسی لڑکیوں کے لیے بھی اکثر سسرال کی محدود لائف میں گزارہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مڈل کلاس بیک گراؤنڈ کے ساتھ چند ہفتے بھی لگژری لائف گزارنے کے بعد ان کا مڈل کلاس لائف سٹائل میں گزارا نہیں ہوتا۔ پھر شکار پھانسنے کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ ایک کے بعد ایک شکار اور بیک وقت کئی شکار پھانس کر لگژری لائف انجوائے کی جاتی ہے۔ آپ مڈل کلاس ہیں تو کبھی ان ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیائی ماڈرن لڑکیوں کے والدین سے مل لیں۔ آپ کو ان کے والدین ایسے ہی سادہ ملیں گے جیسے آپ کے اپنے ہیں۔

میں کئی ایسی لڑکیوں کو جانتا ہوں جو دوہری زندگی گزارتے گزارتے اب ذہنی مریض بنتی جا رہی ہیں، کئی ایسی ہیں جو خودکشی کی کوشش کر چکی ہیں یا سوچتی رہتی ہیں۔ میک اپ کرنے سے پہلے اور میک اپ اترنے کے بعد انہیں جس گھر، ماحول، مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ انہیں ڈپریشن میں لیجا رہا ہے۔ ان میں سے جو ملازمت کر رہی ہیں ان میں سے اکثریت انتہائی معمولی تنخواہ پر کام کرتی ہیں اور کیریئر سٹارٹنگ عہدوں پر ہیں لیکن وہ اسے بھی چھپاتی ہیں یا پھر بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں۔ ہمارے نوجوان اینکرز 50، 60 ہزار تنخواہ سے کیریئر سٹارٹ کرتے ہیں تو دوسروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے۔آپ کا مشہور ہونا ایک الگ معاملہ ہے، آپ کا امیر ہونا بالکل مختلف معاملہ ہے۔ امیر ہونے میں وقت لگتا ہے۔ کیریئر کے سٹارٹ میں محنت کرنا پڑتی ہے، کوئی بھی پہلے ہی دن کمپنی کا ایم ڈی نہیں لگ جاتا۔ ہم سب کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی۔ شارٹ کٹ میں آپ کو عزت کا سودا کرنا پڑتا ہے اور بدقسمتی سے اب زیادہ تر یہی ہو رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ نئی بات

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply