چوزے کا بابااور کتّا۔۔قمر رحیم خان

10 اگست 2021ء کی اسلام آباد شارجہ فلائٹ میں ایک کشمیری باپ فون پر اپنے ناراض بیٹے سے مخاطب ہوا۔”مہا ڑیا پیاریا پترا، تو بل دیں؟۔۔۔۔مہاڑیا چندا بل دیں؟مہاڑی پُتری بل دی“؟ دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا۔باپ پھر مخاطب ہوتا ہے۔ ”میں اپنے پُترے کیا بہوں ساریاں چیزاں بھیج ساں“۔ جواب ندارد۔ ”میں اپنے پُترے کیا بہوں ساریاں چیزاں بھیج ساں“۔ باپ تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر اپنی بیٹی سے بات کرنے لگا۔میں نے چور نگاہوں سے باپ کی طرف دیکھامگر اس کی نم آنکھوں اور مغموم چہرے کا سامنا نہ کرتے ہوئے کھڑکی سے باہر اڑتے ہوئے بادلوں میں کھو گیا۔وہاں مجھے روتا ہوا چوزہ نظر آیا۔

چوزہ میرے کزن کا بیٹا ہے۔ جس کا باپ دبئی سے تین سال بعد گھر گیا تھا اور وہ باپ کے پروں سے نکلتا ہی نہیں تھا۔سکول آنے جانے کے علاوہ کم و بیش تین مرتبہ وہ باپ کے ساتھ میرے صحن سے گزرتا۔کبھی آئس کریم کھا رہا ہے، کبھی کچھ توکبھی کچھ۔ایک دن میں نے اسے خوبانی کھاتے ہوئے پکڑ لیا اور مطالبہ بھی کر دیا۔ وہ برابر کھلکھلا کر ہنستا اور کھاتا رہا۔ ختم کرنے پر خوبانی کا بیج مجھے دیا اور کہا ”تایا جی یہ کھایا کرو، یہ بہت میٹھی ہو تی ہے“۔ وہ ستاروں سے زیادہ خوش، چاند سے زیادہ روشن اور رات سے زیادہ پرسکون ہوتا تھا۔اس کی ہنسی میں پوری کائنات مسکراتی تھی اور اس کی مسرت میں درخت جھومتے تھے۔ ساون اس کے ساتھ برس رہا تھا، ندیاں نالے بہہ رہے تھے، فصلیں لہلہا رہی تھیں، سورج بادلوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہا تھا، پھول کھلکھلا رہے تھے……۔ غرضیکہ ساری دنیا اس کی خوشی میں شریک تھی۔ ایک میں تھا جو اسے دیکھ کر افسردہ ہو جاتا تھا۔

عرب امارات نے پاکستان سمیت کئی ممالک کی فلائٹس پر کووڈ کی وجہ سے پابندی لگا رکھی تھی۔ اس کی وجہ سے چوزے کی بہار کے دن پھیلتے جارہے تھے۔ جبکہ اس کے باپ کی خوشی اور پریشانی، دونوں کا گراف برابر بڑھ رہا تھا۔جولائی میں اس نے کوشش شروع کر دی کہ کسی دوسرے ملک سے ہو کر واپس نوکری تک پہنچا جائے قبل اس سے کہ وہ ہاتھ سے نکل جائے۔ میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔مگر ہر بار یہ خبر سدًِراہ بن جاتی کہ اگلے ہفتے ڈائریکٹ فلائٹس کھلنے والی ہیں۔ حتیٰ کہ عید آگئی۔ چوزے نے بھاگ بھاگ کر گوشت تقسیم کیا۔عید ختم ہوئی تو ہر طرف سے اس کے باپ کوایک ہی سوال کا سامنا تھا کہ کب جا رہے ہو؟ اکثر لوگ ہمدردی میں، کچھ اس نیت سے پوچھ رہے تھے کہ اب کے رک ہی جائیں تو اچھا ہے۔ مگر کسی کے رک جانے سے خدا کا مرتب نظام تو نہیں رک سکتا۔ہمارے دوٹکٹ کینسل ہوئے، تیسرے پر سفر کرنے کے لیے حکومت امارات کی اجازت ضرور ی تھی۔ آخری دن بھی گزر گیا، اجازت نامہ موصول نہ ہوا۔ چوزے کے بابا کا فشار خون بڑھ گیا۔ کہا فکر نہیں کرو جب جانا مقدر میں ہوا چلیں جائیں گے۔ حتیٰ کہ رات ہوگئی۔ دل ذرا مطمئن ہوا کہ کچھ دن اور مل گئے۔ مگر مہلت ختم ہوگئی تھی۔ رات بارہ بجے اس نے فون کیا، اجازت ناموں کا بندوبست ہو گیا ہے۔ تیار ہو جاؤ۔ بیرون ملک سفر کی ایسی تیاری کا یہ انوکھا تجربہ تھا۔تیار ہوئے اور رات ایک بجے نکل گئے۔ائیر لائن والوں نے ہدایت کر رکھی تھی سات گھنٹے پہلے ائر پورٹ پہنچو۔ ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچ بھی گئے۔ پر جواب ملا،صبر کرو ائر پورٹ پہ ہونے والے ریپڈ کووڈ ٹیسٹ سات بجے شروع ہوں گے۔ائر بلو کا کاؤنٹر خالی تھا۔ سول ایوی ایشن کی ایک افسر نے کاؤنٹر بجایا مگر بے سود۔ کچھ دیر بعد ایک ماڈرن اور خوبرو لڑکی برآمد ہوئی اور مجھ پر چڑھ دوڑی۔ اسے غصہ تھا کہ کاؤنٹر پہ ٹھک ٹھک کیوں کی گئی۔ میں نے اس کا باؤنسرپہلی سلِپ میں کھیلا جہاں سول ایوی ایشن کی افسر کھڑی تھی۔اس نے بال کے ساتھ جوتابھی اٹھایا اور ماڈرن لڑکی کا منہ ”چنڈ“ کر رکھ دیا۔ میں ”فائن لیگ“کی پوزیشن پر فیلڈنگ کے لیے چلا گیا۔ جو بھی نیا مسافر کچھ پوچھتا بندہ ناچیز اسے کاؤنٹر والی لڑکی کی طرف بھیج دیتا۔ کچھ کا تو میک اپ پرپاؤں ہی نہ جمتاجبکہ اکثر چوزے کے ابّاؤں نے اسے خوب اچھی طرح کھیلا۔میں نے فیلڈ کا جائزہ لیا۔یہ کافی بڑاائر پورٹ ہے۔ مگر اس میں مسافروں کے لیے ایک بھی کرسی نہیں۔ چوزوں کے کئی سو باپ فرش پہ بھکاریوں کی مانندجابجا بیٹھے اور لیٹے ہوئے تھے۔ سالانہ اربوں ڈالر بھیجنے والوں کی وہ حالت تھی جو شہر کے آوارہ و لاچار کتوں کی ہوتی ہے۔ کوئی تھڑے پر پڑا ہوا ہے تو کوئی نالی کے کنارے۔ کوئی گاڑی کے نیچے دُبکا ہے توکوئی خالی بوری میں محو خواب ہے۔میں خواب و خیال کی ایسی ہی ایک کتا گلی میں کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھاکہ ایک آواز اُبھری ”مہاڑیا پیاریا پُترا تو بل دیں“۔پتہ نہیں چوزے کا یہ بابا کتنے سالوں بعد چھٹی گیا ہو گا۔ اس نے چوزے کو اور چوزے نے اس کو پہلی بار دیکھا ہو گا۔ پھر جب فلائٹیں رک گئیں تو یہ اس سوال سے چھپ کر گھر بیٹھ گیا ہو گا کہ ”کب واپس جا رہے ہو“؟اور اگلی بار نجانے یہ کب چھٹی جائے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم شارجہ ائر پورٹ پر اتر چکے تھے۔ چوزے کا بابا میرے انتظار میں تھا۔ وہ اسلام آباد ائر پورٹ پر بھی اپنے چوزوں سے بات کرتا رہا۔ اب بھی ان سے بات کرنے کو بے تاب تھا۔وہ مجھ سے دس سال چھوٹا ہے مگر بلڈ پریشر اور شوگر کا مریض بن گیا ہے۔ اس کی خواہش ہے، اپنے شہر کی کسی کتا گلی میں کوئی چھوٹا موٹا کام ہو کہ پردیس سے جان چھوٹے۔ اس خواہشِ نامراد میں وہ اکیلا نہیں ہے۔ لاکھوں چوزوں کے بابا یہی خواہش لیے دنیا سے چلے گئے۔ شارجہ ائر پورٹ پر کووڈ ٹیسٹ لینے والی نرس جب بہت خوش اخلاقی سے پیش آئی تو میری جان میں جان آئی اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میں کتا نہیں ایک انسان ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply