بازیچہء اطفال/اقتدار جاوید

خشیت ِالہٰی فی الاصل مشیت ِالہٰی ہے۔
زندگی عناصر کا ظہور ِترتیب ہے شاعری الفاظ کا شعور ِترتیب ہے۔منیر نیازی کا پنجابی کلام کل کلام کے نام شائع ہوا تھا اقبال ساجد کا کلیات مل کلام کے نام سے شائع ہونا چاہیے تھا۔کائنات بنانا بہت مشکل ہے مگر موسیقار دھن سے کائنات بنا لیتا ہے۔شاعر کائنات کو بازیچہ ِاطفال اور گھر کو باغیچہ ِاطفال سمجھتا ہے۔
نقاد کے ہاتھوں یا شعر کھل جاتا ہے یا رُل جاتا ہے یقین نہ آئے تو فتح محمد ملک کی تنقید پڑھ لیں۔سلیم احمد جینوئن عمدہ شاعر تھے مگر انہوں نے کسی جینوئن شاعر کی تعریف نہیں کی۔تاریخ ِانسانی میں اسرائیل اور بنو اسرائیل ہمیشہ پریشانی کا موجب ہی بنے ہیں۔سیاسی باوا آخری عمر میں سنیاسی باوا ہو جاتا ہے۔جیتے جی ایک کلینیکل موت ہوتی ہے اور ایک ادبی موت دونوں کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔افتخار جالب لسانی تشکیلات کے بعد ادیب سے صرف بینکار ہو گئے مشتاق یوسفی زر گزشت لکھنے کے بعد بینکار سے زیادہ ادیب ہو گئے۔ہم احمد ندیم قاسمی کو ملنے گئے تو اس وقت قتیل شفائی بھی آ گئے۔ قاسمی صاحب فرمانے لگے ان سے ملیے یہ اپنے قتیل ہیں۔غزل اتنی شادیوں کے بعد بھی تروتازہ ہے ستم ظریف نے کہا اس کو خاوند بھی تو ناصر کاظمی سے زیادہ ناصر زیدی جیسے ملے ہیں۔نیازیوں کی جو عزت شاعری میں منیر نیازی نے بنائی اجمل نیازی نے کالم لکھ لکھ کر خاک میں ملا دی۔ظفر اقبال نے غزل بیگم کی صحبت سے لطف بھی اٹھایا ہے اور اسے مطمئن بھی خوب کیا ہے۔غالب نظر نیاز کے قائل تھے اور ذوق نذر نیاز کے۔شعرا تعریف کرنے کے معاملے میں پورے یہودی ہیں شاعر کی تعریف کرتے ہوئے الفاظ کا کم سے کم استعمال کرتے ہیں۔مرزا حامد بیگ تحقیق کے آدمی ہیں ستم ظریف کا کہنا ہے توفیق کے نہیں۔الزام ہے کہ نواز شریف نے عدلیہ بحال کروائی تھی بندیال کے زمانے میں بدحال بھی خوب کروائی ہے۔پاکستان کے چار نہیں لاچار صوبے ہیں۔لاہور کے پائے اور چوپائے سب پر بازی لے گئے ہیں کہیں گدھا نظر ہی نہیں آتا۔یورپ ایک شہزادی روپا کا نام جس کا مطلب ہے بڑی آنکھ۔صحافت آج کل ترقی نہیں کرتی صحافی ترقی کرتا ہے۔تکلف برطرف جس غصے کے عالم میں مجیب الرحمان شامی بحث کرتے ہیں بس خون آشامی سے لگتے ہیں۔اداریہ نویسی وہ گناہ ہے جو ہر روز سرزد ہوتا ہے۔کچھ کالم نویس ہوتے ہیں کچھ ظالم نویس۔کبھی وزیر آباد مولانا ظفر علی خان کی وجہ سے مشہور تھا اب چھریوں ٹوکوں کی وجہ سے مشہور ہے۔اخبار بینی ایک مرض ہے۔اخبار بین کے اندر ایک بے چین روح نہیں بے چین بد روح ہوتی ہے۔آج کل کا اینکر صحافی کفن کو احرام ثابت کرنے پر مامور ہے۔اینکر کے ساتھ پرسن اس لیے لگایا جاتا ہے کہ لوگ یقین کر لیں وہ بھی پرسن ہی ہوتا ہے۔اعلٰی کالم کا ذائقہ روح افزا کی طرح کا ہوتا ہے ہلکا پھلکا اور خوشبودار۔ہمارے ایک صحافی دوست کا کہنا ہے صحافت ایک معزز پیشہ ہے اس لیے اسے بھی معزز سمجھا جائے۔ہمارا ایک پسندیدہ کالم ظفر اقبال کا دال دلیا ہے جس سے ہم شاعروں کا بھی دال دلیا چل رہا ہے۔
جس طرح شاعروں میں متشاعر ہوتے ہیں ادبی مدیروں میں بھی صدیقہ بیگم ہوتی ہیں۔جس طرح تھانے میں بالاخر ایف آئی آر درج ہو ہی جاتی ہے مدیر بھی آخر کار پرچہ نکالنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔جس طرح انسان پر خدا کی تعریف لازم ہے لکھاریوں پر مدیر کی تعریف فرض ہے۔پہلے ادبی مدیر الطاف حسین جیسے ہوا کرتے تھے آج کل فاروق ستار جیسے ملتے ہیں۔جو تھانے میں پرچہ ہوتا ہے وہ بھی پرچہ ہی ہوتا ہے مگر بہت غیر ادبی قسم کا ہوتا ہے۔ادبی پرچہ نکالنا وہ شادی ہے جس کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ اولاد نے عاق ہی ہونا ہے۔مدیر وہ باپ ہے جس کو اولاد طعنے دے دے کر مار دیتی ہے کہ ابا جی کبھی کوئی ڈھنگ کا کام بھی کر لیا کریں۔علی محمد فرشی اور نصیر احمد ناصر مقابلے میں پرچہ نکالتے ہیں اور مقابلے میں بند کر دیتے ہیں۔صدیوں پہلے درانی کوہ نور ہیرے پر بھی قانع نہیں ہوتے تھے آج کل نسیم درانی سیپ پر گزارا کر رہے ہیں۔راولپنڈی سے اور کچھ نکلے یا نہ نکلے چار پانچ پرچے ضرور نکلتے ہیں۔ہمارے دو مہربان دوست محمود واجد اور اے جی جوش تھے محمود واجد اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے تھے اور اے جی جوش پرچے کی صحت کا۔کہتے ہیں پاکستان میں دو ہی لیڈر پیدا ہوئے ہیں ایک بھٹو اور دوسرا مجیب۔بھٹو نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا تھا۔ اصلی تے وڈے ادبی مدیر دو ہی ہوئے ہیں ایک احمد ندیم قاسمی اور دوسرے وزیر آغا۔ان کی اتنی بڑی انا تھی انہوں نے اک دوسرے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔زمانے کی نیرنگی دیکھیے پہلے صوفی رسالہ نکلتا تھا اب صوفی گھی نکلتا ہے۔
اوراق اور فنون ادبی رسالے تھے ایک رسالہ فوج بھی ہوتی ہے۔اوراق کے کمانڈر انچیف انور سدید اور فنون کی جرنیل ڈاکٹر سلیم اختر ہوتے تھے۔اب ساری توپیں خاموش ہیں۔دنیا کا سب سے مشکل کام پرچہ نکالنا اور سب سے آسان کام پرچہ بند کرنا ہوتا ہے۔بعض پرچوں کا ایک ہی شمارہ نکلتا ہے اور وہی اول اور وہی آخر ہوتا ہے۔مدیر کو شکایت ہے کہ اچھی تحریریں مشکل سے ملتی ہیں اور اقبال کے شعر کی تحریف کرتے رہتے ہیں
رسالوں میں تو کام آتی ہیں تقدیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق ِیقیں پیدا تو آ جاتی ہیں تحریریں
ہمارے دوست احمد ہمیش تشکیل نکالتے تھے البتہ خود وہ رد ِ تشکیل کے حامی تھے۔حیرت ہے اغلاط ٹھیک کرنے کو اغلاط لگانا کہا جاتا ہے۔ادبی جرائد کے آخر میں ایک حصہ خطوط کا ہوتا ہے اس میں ادیب بات کا بتنگڑ بناتے ہیں۔
محکمہ صحت پنجاب کی توجہ کے لیے : جناح ہسپتال میں جوڑوں کے درد کی الیکٹرک فزیو تھراپی عرصہ تین ماہ سے کمرے کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہے جس کی وجہ سے فزیو تھراپی کے مریض مشکلات کا شکار ہیں۔جناح ہسپتال کی انتظامیہ کا فرض ہے کہ کمرے کی فراہمی کا انتظام کیا جائے تا کہ نادار اور معذور مریضوں کی فزیو تھراپی کا سلسلہ بحال ہو سکے۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply