خیال سے خیال (9)۔۔وہاراامباکر

ملڈینو نے پی ایچ ڈی میں نیوٹرون سٹارز کے قریب مقناطیسی فیلڈ میں ہائیڈروجن ایٹم کا behaviour جاننے کے لئے کوانٹم مساوات حل کرنے کا انتخاب کیا۔ یہ مساوات ناقابلِ حل ہیں اور ان کا اپروکسمیٹ حل نکالا جا سکتا ہے۔ بہت کوشش کے باوجود وہ کہیں نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ ایک روز کسی اور ریسرچر سے بات ہو رہی تھی جس نے بتایا کہ وہ کوارک کے behaviour نکالنے کے ایک نئے طریقے پر کام کر رہا ہے۔ کوارک کے تین رنگ ہوتے ہیں۔(کوارک کے رنگ کی تعریف کا روزمرہ کے رنگ کی تعریف کوئی تعلق نہیں)۔ اس ریسرچر کی تکنیک یہ تھی کہ ریاضیاتی طور پر یہ فرض کر لیا جائے کہ کوارک کے لامحدود رنگ ہیں۔ اس گفتگو کا ملڈینو کے کام سے تعلق نہیں تھا لیکن انہیں اس سے ایک خیال کوندا۔ کیوں نہ وہ اپنے کام میں تین کے بجائے لامحدود ڈائمنشن تصور کر لیں؟

یہ عجیب خیال تھا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جو مسئلہ تین ڈائمنشن سے حل نہیں ہو پا رہا تھا، وہ اس طریقے سے حل ہو گیا۔ اس کے بعد اسے تین ڈائمنشن کے کیس میں فٹ کرنا تھا۔ یہ طاقتور طریقہ ثابت ہوا۔ ایک سال سے بے کار ٹکریں مارنے کے بعد اگلے چند ہفتوں میں یہ معاملہ حل ہو گیا۔ یہ طریقہ large N expansion کہلاتا ہے۔ اور اس کے اطلاق سے دوسرے ایٹموں اور دوسری صورتحال کو حل کرنے میں بھی مدد مل گئی۔

ڈڈلے ہرشباک (جو نوبل انعام یافتہ کیمسٹ ہیں) نے “فزکس ٹوڈے” میں یہ آرٹیکل پڑھا۔ اس کو اپنے شعبے میں اس کو اپلائی کیا اور کا نام ڈائمنشن سکیلنگ رکھا۔ اسی طرح اس کے کئی دوسرے استعمال ملتے گئے۔ دس سال بعد ایک کانفرنس ہوئی جو صرف اس طریقے کے بارے میں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کہانی کئی چیزیں بتاتی ہے۔ نیوٹرون سٹارز کے قریب ہائیڈروجن کی کیفیت؟؟ آخر کیوں ہم ان سوالات کے جوابات کی کوشش کرتے ہیں؟ ناقابلِ حل مساوات کے لئے بھی کچھ بظاہر بے تکی چیز کو فرض کر کے کچھ ڈھونڈ لینا کہ آگے بڑھا جا سکے۔ خیال سے تخلیق کر لینا ۔۔۔۔ تجسس، تخیل اور انوکھے حل نکالنا انسانی سرشت ہے۔ لیکن سب سے بڑی چیز جو اس سے پتا لگتی ہے، وہ یہ کہ انسانی علم کی کہانی کسی ایک شخص کی تنہا جدوجہد نہیں ہوتی بلکہ یہ اشتراک سے کیا گیا کام ہے۔ یہ سوشل ایکٹویٹی ہے۔ اور یہ اس کی کامیابی اس وقت ہوتی ہے جہاں پر ایسی آبادیاں ہوں جہاں ذہنوں کا ذہنوں کے ساتھ ملنے کا وقت ہو تا کہ خیالات کے خیالات سے ملنے سے نئے خیالات جنم لے سکیں۔

اور یہ وہ چیز ہے جو آج کے اچھے innovative ادارے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اتفاقی ملاقاتیں جہاں خیالات کا تبادلہ ہو سکے، خاص طور پر ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔ جدید دنیا کی بڑی ایجادات کرنے والا ادارہ بیل لیبز، دنیا کی صفِ اول کی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کی کامیابی کی ایک وجہ ایسے بلڈنگ پلان بھی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے گوگل نے اپنے کیمپس کے کیفے ٹیریا کو ڈیزائن ایسے کیا گیا ہے کہ لنچ کے وقت قطار میں تین سے چار منٹ کا انتظار ہو۔ نہ اتنا زیادہ ہو کہ لوگ اکتا جائیں گے لیکن یہ اتنا وقت ہو کہ اس دوران خیالات کا تبادلہ ہو سکتا ہو۔ لنچ کے ٹیبل لمبے ہیں جہاں پر ایک شخص کے اپنے گروپ کے علاوہ لوگوں سے اتفاقیہ گفتگو چھڑ جانے کا امکان زیادہ ہے۔

جن دوسرے ذہنوں سے ملاپ ہونا ہے، وہ حال کے بھی ہو سکتے ہیں اور ماضی کے بھی۔ اکیلے بیٹھے نابغے جو فکری انقلاب برپا کر دیتے ہیں یا ایجادات اور ٹیکنالوجی کے معجزاتی کارنامے دکھا سکتے ہیں، فکشن میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ایسے کبھی نہیں ہوتا۔

جیمز واٹ نے کیتلی سے بھاپ نکلتے دیکھی اور سٹیم انجن بنا لیا۔ نیوٹن پر سیب گرا اور گریویٹی کا پتا لگا لیا۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے دوسرے سنائے جانے والے دلچسپ قصے ہیں لیکن بس یہی ہیں۔ کسی بھی مفکر کا کام فکری خلا میں نہیں ہو سکتا۔ ہر ایک دوسرے انسانوں پر اور خیالات کے تبادلے پر منحصر ہے۔ شاندار ذہنوں کا اپنا کردار ہے لیکن فکر فرد کی نہیں، انسانی کلچر کی پراڈکٹ ہے۔

ہم اپنے بچپن سے نالج، رویہ، خیالات اور اقدار سیکھتے ہیں اور یہ اپنے آس پاس کے لوگوں سے سیکھتے ہیں۔ یہ مختلف علاقوں میں مختلف ہوتیں ہیں۔ ہم جس جگہ پر پلے بڑھے ہیں، اس کا تعلق اس کلچر سے ہے۔ اور ہم اپنا علم بھی اسی سے حاصل کرتے ہیں۔ اور حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ دوسروں کو سکھانا بھی ہماری جبلت اور ایڈاپٹیشن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply