سید الطائفہ-سلطان العارفین ۔۔سعید چیمہ

شخصیت پرستی اور اس قدر شخصیت پرستی۔ ایک شخص کو برِصغیر کا سلطان العارفین کہہ دینا۔ سید الطائفہ کی دستار پہنا دینا۔ فقط اس بنیاد پر کہ وہ صوفی ازم کا پرچار کرتے ہیں اور انسانوں کی نسبت مافوق الفطرت واقعات پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بزرگوار کالم نگار ہارون الرشید کے مطابق پروفیسر احمد رفیق اختر برِصغیر کے سیدالطائفہ اور سلطان العارفین ہیں۔ موصوف اگر برِصغیر کے سلطان العارفین ہیں تو پھر شاہ ولی اللہ کیا ہوئے؟ حجتہ البالغہ ایسا شاہکار جنہوں نے تخلیق کر کے مسلمانانِ برِصغیر کا شاکلہ تبدیل کر دیا۔ شاہ صاحب کے بعد سر سید احمد خان کی خدمات کہاں جائیں گی؟

سرسید کو ملحد کہیے یا کچھ اور۔ مگر سر سید نے مسلمانوں کے مرجھائے ہوئے پودے کی اس قدر آبیاری کی کہ وہ چھتنار درخت بن گیا۔ سر سید سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ روایت کا دامن چھوڑ دیا۔ اور پھر روایت کا دامن چھوڑنے والے کو اس امت میں کہاں پناہ ملی ہے جو سر سید کو ملتی۔ سب سے مخلص ساتھی الطاف حسین حالی کو کہنا پڑا کہ “سید احمد کو کافر جاننا اسلام ہے” یعنی جب تک علماء سر سید کی تکفیر نہ کر لیتے ان کا اسلام مکمل نہ ہوتا۔ سر سید کے بعد شیخ شبلی نے مسلمانوں کے گرتے ہوئے عَلم کو ندوہ ۃ العلماء سے سہارا دیا۔

اسی ندوہ سے پھر سید سلیمان ندوی پیدا ہوئے۔ جن کے متعلق شبلی نے کہا تھا کہ لوگ اگر پوچھیں گے کہ ندوہ نے کونسی بڑی شخصیت پیدا کی ہے تو بلا تردد سلیمان کا نام لوں گا۔ سلیمان ندوی نے ہی شیخ شبلی کی نامکمل “سیرت النبیﷺ” مکمل کی ۔ موت کی ہچکی آئی اور شیخ نے عالمِ بالا کی راہ لی جس کی وجہ سے سیرت النبی مکمل نہ ہو سکی۔ سلیمان ندوی نے جب اپنے استاد کا ادھورا کام ختم کرنے کے لیے قلم اٹھایا تو ایسے سرخرور ہوئے کہ یہ جاننا مشکل ہو گیا کہ کون سا حصہ شبلی نے لکھا ہے اور کون سا ندوی نے۔ ندوی صاحب کے بعد مولانا ابولاکلام آزاد نے ایک نسل پر ان گنت اثرات ثبت کیے۔

آزاد کے متعلق سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا کہ اگر “الہلال” اور “آزاد” نہ ہوتے تو آج عطاء اللہ بھی خطیب نہ ہوتا۔ مولانا نے مسلمانوں پر وہ احسان کیے کہ تفصیل پڑھتے ہوئے آنسو روکے نہیں رکتے۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکنے کے مولانا نے کئی سفر کیے۔ کمزروی اور بڑھاپے کے باوجود مسلمانوں کا درد اس قدر تھا کہ مختلف ریاستوں میں قتلِ عام رکوانے کے لیے عازمِ سفر رہتے۔ مزید تفصیل کے لیے آغا شورش کی کتاب”ابو الکلام آزاد” پڑھی جا سکتی ہے۔ مولانا آزاد نے کبھی اپنے مخالفین کو جواب نہ دیا۔ جب بھی مخالفین کا نام آیا، عزت و تکریم سے ذکر کیا۔

جب کہ برصغیر کے سلطان العارفین جب اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہیں تو ایسی حقارت سے نام لیتے ہیں کہ ایک حیرانگی کا عالم ہوتا ہے۔ سلطان العارفین کی دو ویڈیوز دیکھیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ “وہ غامدی ایسے کہتا ہے، غامدی اس حدیث کو نہیں مانتا”۔ اختلاف ہر کسی کا حق ہے، سو غامدی صاحب سے بھی کرنا چاہیئے۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف کہ  ایسے لہجے میں کسی کا نام لیا جائے، کسی کو مخاطب کیا جائے۔ اس برعکس غامدی صاحب کا لہجہ کس قدر دل نشیں ہوتا ہے۔ پھر بھی غامدی صاحب مطعون ٹھہرے۔ غامدی صاحب کے لہجے کی یہ مٹھاس شاید اسی لیے ہے کہ وہ مولانا آزاد کی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔

مولانا آزاد کے بعد سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نے ایک جہان کی تربیت کی۔ تفہیم القرآن ایسا شہ پارہ لکھا، خلافت و ملوکیت ایسی تاریخی دستاویز فراہم کی۔ مگر سید صاحب کی قسمت میں بھی سلطان العارفین کا تاج نہیں تھا۔ سید صاحب کے پرانے ساتھی مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی دن رات “تدبر القرآن” لکھنے میں صرف کیے۔ تدبر القرآن ایسی تفسیر ہے کہ سبحان اللہ۔ ہر آیت میں آنے والے لفظ کی تفصیل کی یہ لفظ اس آیت میں کیوں آیا ہے۔ چوں کہ ایسی خدمات پر سلطان العارفین کا خطاب کسی کو نہیں دیا جاتا اس لیے مولانا اصلاحی بھی سلطان العارفین نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

استفسار یہ کرنا تھا کہ بزرگوار کالم نگار کے نزدیک پروفیسر صاحب ایسی کون سی خصوصیات کے حامل ہیں جن کی بنا پر علما کی ایک کثیر جماعت کو پچھاڑ کر وہ سلطان العارفین بن گئے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنی کتب میں اس قدر مشکل الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ عام انسان کے لیے سمجھنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ ایک محدود پڑھے لکھے طبقے تک پروفیسر صاحب کی رسائی ہے۔ اور پھر بھی وہ سبھی کے لیے سلطان العارفین ہیں۔ بزرگوار کالم نگار اکثر لکھتے ہیں کہ سلطان العارفین انہیں منع کرتے ہیں کہ اپنے کالم میں میری مدح سرائی نہ کیا کرو، لیکن بزرگوار پھر بھی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں۔ پروفیسر صاحب بزرگوار کالم نگار سے کہتے ہوں گے کہ
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ میرے بیان میں کیا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply