“چٹکی ” (لتا جی کی یاد میں)۔۔محمد وقاص رشید

ایک چھوٹا سا ریلوے کوارٹر ہے، اس کوارٹر میں سویر آسمان پر سورج طلوع ہونے سے پہلے نمودار ہو جاتی ہے،کیونکہ اس کوارٹر میں بسنے والے ایک سنجیدہ مزاج اور خاموش طبع اسٹیشن ماسٹر اور اس خاندان کے سربراہ کو فطرت سے عشق ہے۔انہیں صبح کی سیر کرنے پو پھوٹنے سے قبل ہی ملکوال کی نہر پر جانا ہوتا ہے۔انکی صبح کی سیر بھی انکے ساتھ یونہی عمر بھر پیوستہ رہی جیسے وہ سکوت وہ خاموشی وہ سنجیدگی بلکہ رنجیدگی۔۔۔ کوارٹر کے صحن میں کچھ چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں۔ اس پر چار بچے سو رہے ہیں،کونے میں لکڑیوں کا ایک چولہا ہے۔ گیلی لکڑیوں پر ایک خاتون ویسے ہی پھونکیں مار رہی ہے جیسے آج بوڑھی ہو کر اپنے بچوں کو پڑھ پڑھ کر پھونکتی ہیں۔یہ خاتون سا لہا سال سے اسٹیشن ماسٹر صاحب کی حیات کی روٹین کے مطابق ڈھل کر ہر وقت ایک سرعت میں نظر آتی ہیں اور صبح صبح تو یہ سورج کی کرنوں سے بھی زیادہ مستعد نظر آتی ہیں۔ سب سے پہلی چارپائی کے ساتھ ایک پرانی سی لکڑی کی میز پڑی ہے۔اس میز پر شیونگ کا سامان پڑا ہے۔۔اس شیونگ کے سامان کے ساتھ ایک ریڈیو ہے۔ یہ ریڈیو اسٹیشن ماسٹر صاحب کی کُل کائنات ہے۔۔دو وجوہات کی بنا پر ۔۔۔ ایک اسٹیشن ماسٹر صاحبِ علم آدمی ہیں۔ فکر کو معلومات سے تحریک ملتی ہے۔ بی بی سی سنتے ہیں۔۔دوسری وجہ تھی ایک “چٹکی” ۔۔ یہ چٹکی یوں سمجھ میں نہیں آئے گی کیونکہ راقم کو بھی دہائیاں لگیں، اس دوسری وجہ تلک پہنچتے،بہت سفر کرنا پڑا، انگریزی والا بھی اردو والا بھی۔۔

یہ ایک گاؤں بدو ملی ہے۔یہاں ایک فارسی کے استاد کا گھر ہے۔ انکے نو بچے ہیں، جیسا کہ کثرتِ اولاد والے گھرانوں میں ہوتا ہے۔بخت کو غیر ضروری طور پر عقل کا نعم البدل ثابت کر کے اسکی بنیادوں پر ایک گھر کھڑا کرنے کا انجام۔اس پورے گھرانے کے تمام لوگوں کی زندگی حالات کی ستم ظریفی کا ایک جھٹکا بھی نہیں برداشت کر پاتی اور دھڑام سے نیچے۔ فارسی کے استاد فالج کے حملے کا شکار ہوئے۔اور اپنے بڑے بیٹے کے کاندھوں پر سوار ہوئے۔یہ نوجوان بہت شوخ و چنچل اور ہنس مکھ سا تھا،پندرہ سال کا یہ لڑکا باپ کے بھاری جسم کا بوجھ ہنستے ہوئے تو نہیں اٹھا سکتا تھا،سو اس بوجھ تلے اسکی نوجوانی کی شوخی اور شرارتی پن دب گیا۔ کئی سال اپنے باپ کو کاندھے پر اٹھائے سکول آتا جاتا تھکنے لگا، اندر ہی اندر سسکنے لگا،اسکی زندگی کی نغمگی تھمنے لگی، ایک پژمردگی کی تہہ سی اس پر جمنے لگی اور پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔۔ فارسی کے استاد داغِ مفارقت دے گئے۔

اسٹیشن ماسٹر صاحب کی حیات اب ریل کا وہ انجن تھی جسے آٹھ بہن بھائیوں اور ایک والدہ کی زندگی کی بوگیوں کو وقت کی پٹڑی پر دھکیلنا تھا۔جفا کے پلیٹ فارمز سے گزارتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچانا تھا، اسے چلنا تھا  ورنہ اسکے ساتھ جڑی زندگیاں تھم جاتیں۔احتیاج کے پلیٹ فارم پر رُک جاتیں  اور گاڑی ہمیشہ چلتی کا نام ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے اسے کبھی رکا ہوا دیکھا ہی نہیں۔ ہمیشہ کے لیے رک جانے تک۔اپنی شوخیوں ،قہقہوں اور شرارتوں کو کھو کر دوسروں کے لئے مسکراہٹ کما کر لانے والے ایسے کاسب ہوتے ہیں جو زیادہ حبیب اللہ ہوتے ہیں  اور دوسرے بھی کون۔۔ خود اپنے ماں باپ کی اولاد۔ یہ اور بات کہ بندہ ایسے میں اپنے والدین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے ہمیں دنیا پر لاتے ہوئے کہا تھا کہ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ جب بچے آمدنی سے زیادہ ہو جائیں تو ہر بچہ اپنے ساتھ شام کو اپنے ماں باپ کا رزق بھی لاتا ہے ۔ یہ ہے اصل میں خدا کے رازق ہونے کی آپ والی تفہیم کا کامل پیرایہ۔۔ ۔

رومانویت زندگی ہے، یہ انسان کو انسانیت عطا کرتی ہے،یہ طالب علم کی نگاہ میں انسانیت ہی کا دوسرا نام ہے، انسان فطرتِ سلیم پر پیدا ہوا۔  پھر انسان نے اپنی فطرت کو جان لینے کے بعد اسکی نمو کے لیے فنونِ لطیفہ دریافت کیے ۔ ایجاد اس لیے نہیں لکھ رہا کہ تمام فنون لطیفہ ہمیں قدرت و فطرت میں ملتے ہیں۔ قدرتی نظارے اعلی ٰ ترین ذوق رکھنے والے تخلیق کار کی پینٹنگز ہی تو ہیں۔ پرندوں کی آوازوں میں موسیقیت کا ذوق کسی کو سنائی نہ دینا بہرہ پن ہے، زندگی کی سٹیج پر الگ الگ کہانیوں کے اربوں کرداروں کی کردار نویسی ،ہدایت کاری اور پروڈکشن ، خدا کے پروڈکشن ہاؤس کی سب سے بڑی پیشکش ہے ۔ زندگی کسی ڈرامے اور فلم سے کم ہے کیا ۔سو انسان نے ان فنونِ لطیفہ کو فطرت سے اخذ کیا ۔ قدرت ہی سے کشید کیا ۔ یہ فنونِ لطیفہ انسان کو اپنی فطرت کے قریب رکھتے ہیں فطرت سلامتی میں ہے ۔ سلامتی انسانیت کی معراج۔۔انسانیت رومانویت کا دوجا نام۔  جسکا ایک ہی مطلب زندگی رومانویت کے بغیر زندگی نہیں روزو شب کی غیر فطری گردش ہے۔

اسٹیشن ماسٹر صاحب کو کیونکہ فطرت سے محبت تھی سو رومان پرور آدمی تھے۔ کتابوں سے وہ عشق تھا کہ صبح کی سیر اور ایک ساکت سنجیدگی کے ساتھ تیسری چیز جو ان سے نتھی تھی وہ کتاب تھی۔ خدا کی ہو یا خدا کی مخلوق کی۔۔  انکا سر ہمیشہ اٹھا ہوا دیکھا ،ایک مصلح پر جھکاتے دوسرا کتاب پر ۔۔ حالات کی ستم ظریفی اور حق دار کو حق نہ ملنے والے نظام کی چکی میں پستے ہوئے۔  اپنے ہاتھ میں پکڑے قلم اور با کمال فنِ تحریر کو محکمانہ قلم و کتابت سے آگے نہ بڑھا سکے۔  شاعری کا اعلیٰ  ترین ذوق رکھنے والے اور اپنی ڈائری میں بڑے شعرا کے بہترین اشعار لکھنے والے خود اشعار نہ کہتے۔ کاش کہ کہتے۔ ۔اچھا فلم اور ڈرامے کا ذوق تھا لیکن اپنے آنگن میں انہیں بطورِ ہدایت کار دیکھنے کی حسرت رہی ۔۔مگر پھر یہ تمام فنونِ لطیفہ کے ذوق ایک مدھر آواز نے زندہ کر دئیے۔  ایک حسین صدا جفاؤں کے ملبے تلے دب جانے والی زندگانی کو جاوداں کر گئی۔  ایک سریلا ترنم اور رسیلی نغمگی انکے اندر کی تمام رومانویت کو ایک چٹکی میں سمیٹ لائی۔  لتا جی آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ کا سنگیت اسٹیشن ماسٹر صاحب کے لیے چھوٹے چھوٹے بے آب و گیاہ ۔

بے آب و گیاہ اسٹیشنوں پر بخت کی دقتوں میں اپنے اندر کے انسان کی بقا کی ایک پناہ گاہ تھی ۔آپکی بڑی عنایت آپکی نغمگی انکے لیے جفا کے زخموں پر علاج کا مرہم تھا۔  آپکی بہت مہربانی کہ آپکی آواز نے انکی اوائل عمر کی ساری شوخی ،جاودانی اور شرارت کو ایک چٹکی ہی میں سہی ، لیکن سمیٹ کر اس ریلوے کوارٹر کی طلسمی فضاؤں اور میرے بچپن کی حسین یادوں میں گونجنے کے لیے چھوڑ دیا۔۔۔۔۔ وہ چٹکی جس سے طالب علم اور اسٹیشن ماسٹر صاحب کے اس فرزند کی حیات میں رومانویت بھرے فنونِ لطیفہ کے چشمے پھوٹتے ہیں ۔ لتا جی یہ آپکا ہم پر احسان ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ نے ایک جگہ کہا کہ دوسرا جنم ملے تو آپ لتا منگیشکر نہیں بننا چاہیں گی ۔ یہ کہتے ہوئے آپ کے چہرے پر جو کرب تھا جسے آپ نے اپنی مہربان دیوی جیسی مسکراہٹ میں چھپا لیا اور کہا کہ لتا منگیشکر کی جو مشکلات ہیں وہ وہی جانتی ہے۔ کوئی شک نہیں ہر کسی کی مشکلات وہ ہی جانتا ہے لیکن۔۔  اے مادرِ موسیقیت۔۔  اے نغمگی کی ماں۔ ۔ عظیم ہیں آپ دونوں جیسے لوگ۔۔ ۔ایک آپ جیسے کہ اپنی مشکلوں کو ان گیتوں میں ڈھال لیا جو اسٹیشن ماسٹر صاحب جیسے عظیم لوگوں کے دکھوں کی ڈھال بن کر ایک چٹکی کی گونج بن گئے ۔ آج آپ دنیا سے جا چکیں،اسٹیشن ماسٹر صاحب مرحوم پہلے ہی وہاں موجود ہیں،ہو سکتا ہے ایک روح وہاں آپ کا بڑے عقیدت و احترام سے استقبال کرے،اگر دائیں ہاتھ کی چٹکی بج رہی ہو تو سمجھیے گا وہ اسٹیشن ماسٹر صاحب میرے والد صاحب ہی ہیں۔
میں آپ دونوں نیک روحوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply