عدالتی اصلاحات، وقت کی اہم ضرورت۔۔۔۔ارشد علی

پاکستانی عوام میں غالب اکثریت بڑھک بازوں کی ہے یا ایسے لوگوں کی جو تربیت کے عمل سے نہ گزرنے کے باعث خود کو بااختیار سمجھنے کے زعم میں مبتلا کوئی توپ قسم کی شے ہونے کا گمان اور خبط رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سماج تحمل اور برداشت سے مکمل عاری دکھائی دیا۔ اس میں کسی مذہبی، غیر مذہبی سیاسی یا نیم سیاسی جماعت کی تخصیص نہیں۔ ہمارے سامنے کی صورتحال ہے جب بھی کسی پارٹی نے احتجاج کا فیصلہ کیا تو اس نے سماج میں رائج طریقہ کار کو اپنایا۔ کراچی کی ایک پارٹی سیکٹروں بار شہر کو محصور کرنے کے باعث آج بھی بدنام ہے، پی ٹی آئی نے دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی تو سڑکوں پر آئی۔ جماعت اسلامی بھی دھرنا سیاست میں شریک رہی۔ پیپلز پارٹی نے بھی روڈ بلاک کیے اور ن لیگ نے بھی کمی نہیں چھوڑی۔ سکول کالجز یا یونیورسٹی کے طلباء ہوں یا ینگ ڑاکٹرز، ٹرانسپورٹرز ہوں یا ٹریڈ یونیسنٹ سب نے ہمیشہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے روڈز بند کرنا توڑ پھوڑ ہنگامہ آرائی کا راستہ ہی اختیار کیا۔ بجلی گیس کے بلوں پر تو کبھی کوئی نہ بولا ہاں البتہ اگر کبھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر گلی محلوں کے لونڈوں نے بزرگوں کی آشیر واد سے کوئی قدم اٹھایا تو اتنا کہ باہر نکل کر روڈ بند کر دی۔ اب یہ اقدامات اٹھانے کی ہدایت براہ راست کسی جماعت کی جانب سے اپنے کارکنوں کو دی گئی یا انہوں نے قیادت کی ہدایت سے روگردانی کرتے ہوئے ازخود اس نوعیت کے احتجاجی اقدامات اٹھائے اس بحث سے قطع نظر یہ بہت واضح دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے سماج میں احتجاج کا یہ رائج اور مقبول طریقہ ہے۔ اور یہ امر ذہن میں رہے کہ ٹی ایل پی بھی اسی سماج کا حصہ ہے اور سو یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے وہی طریقہ اپنائی گی جو ہمیشہ سے سب کا پسندیدہ رہا ہے۔ اصل مسئلہ اس مائنڈ سیٹ کو توڑنے کا ہے جو تربیت کے عمل سے گزرے بغیر ممکن نہیں اور یہاں پر سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں کہ نہ سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت کو تیار ہیں اور نہ ہی ہمارے سکول کالج و یونیورسٹیز اس طرح کے اقدامات کو ضروری خیال کرتے ہیں سو ہمارے یونیورسٹیز کے روشن خیال ہوں یا مدارس کے قدامت پسند اس متشدد روئیے میں وہ قریب قریب ایک جیسے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری اور اہم بات جو اس احتجاج اور اس پر ہو رہے تبصروں سے بھی کئی درجہ زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ ہے ہمارا جوڈیشل سسٹم جس پر بات کرنا ازحد ضروری ہے۔ اس وقت دو آوازیں موجود ہیں ایک جو مذہبی انتہا پسندی ، قدامت پرستی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے اور دوسری جو مذہب کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو گم کر دینے کے لیے پر عزم ہے۔ لیکن اس وقت اس سارے ہنگامہ کا کھڑا ہونا آسیہ بی بی کے کیس سے جڑا ہے۔ اور بد قسمتی سے یہ کیس، اس سے جڑے تمام پہلو اور ہمارے عدالتی سسٹم پر بات کرنے کو دونوں گروہ تیار نہیں۔ آسیہ بی بی کے کیس میں سپریم کورٹ کی دی گئی ججمنٹ میں اٹھائے گئے تمام پوائنٹس دل کو لگتے ہیں اب وہ ایف آئی آر کا دیر سے اندراج ہو یا پچیس ، تیس میں سے دو تین گواہان کا عدالت میں پیش ہونا۔ گواہان کے بیانات میں موجود تضادات ہوں یا شواہد کو تبدیل کرنے کی کوشش یہ تمام وہ پوائنٹس ہیں جو واقعتا شک کو جنم دیتے ہیں اور اس شک کا فائدہ ملزمہ کو دیا جانا بھی درست دکھائی دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کا کردار کیا رہا؟
سپریم کورٹ کے دئیے گئے فیصلے میں کوئی ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جو ٹرائل کورٹ کی جانب سے دئیے گئے فیصلے کے بعد ثبوت بنا ہوں یا ہائیکورٹ میں فیصلہ آنے کے بعد ایسا ایوڈنس اچانک سے سامنے آیا ہوں جس نے تمام صورت ہی بدل ڈالی ہو۔ (ایسی کوئی صورت اگر ہے تو کم از کم میں دیکھنے سے قاصر ہوں) سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے تمام نکات اتنے حقیقی معلوم ہوتے ہیں کہ مجھ جیسا قانون سے نابلد انسان بھی  ذرا سی کامن سینس کو استعمال کرتے ہوئے ان کے وزن کو محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ گیپس ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کو کیوں نظر نہیں آئے؟ اور فیصلہ دیتے ہوئے انہوں نے انہیں نظر انداز کیوں کیا؟ اور ان گیپس سے اس درجہ روگردانی کی کیا وجہ رہی کہ ملزمہ کے لیے سزا کی آخری حد تجویز کی گئی؟ اور اگر اس کیس سے ہٹ کر سوال کروں تو کیا وجہ ہے کہ تقریبا ہر مقدمے میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں منسوخ قرار پاتی ہے اور اگر منسوخ نہ بھی قرار پائے تو کم از کم ریلیف ضرور مل جاتا ہے۔
جن گیپس کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ نے آسیہ بی بی کو سزا سنائی اب اس سزا کے سپریم کورٹ سے منسوخ قرار پانے پر کیا ٹرائل کورٹ کا جج براہ راست ذمہ دار نہیں ٹھہرتا شواہد (ٹرائل کورٹ تا سپریم کورٹ، پیش کیے جانے والے ثبوتوں میں کوئی تبدیلی اگر واقعی نہیں ہوئی تو) سے روگردانی کرنے کا؟ اور کیا وہ ملزمہ کے نو سال تک جیل میں بے گناہ (سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت شدہ) ہونے کے باوجود رہنے کا ذمہ دار قرار نہیں پائے گا؟
میں آپ اور ہم سب اس امر سے بخوبی آگاہ نہ بھی ہوں تو کم از کم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ایسے کیسز(مراد توہین کے مقدمات نہیں بلکہ کوئی بھی فوجداری مقدمہ جیسے قتل، اقدام قتل، ریپ یا اغواء وغیرہ) میں ٹرائل کورٹس کا رویہ کیا ہے اول تو جج ملزم کی گرفتاری کے کئی ماہ تک خود کو تیار ہی نہیں کر پاتا سنوائی کے لیے اور ہر پیشی پر ملزم کی صرف حاضری لگوا کر نئی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ پھر اس دوران دوسرا جج آ جاتا ہے اور فائل نئے سرے سے اس کے سامنے کھولی جاتی ہے وہ بھی (اکثریت) ایسے ہی رویے کے ساتھ کیس کو سر سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے (دیوانی مقدمات میں صورتحال اس سے بھی کئی زیادہ تکلیف دہ ہے) حاضریوں تاریخوں کے طویل سفر کے بعد سزا سنائی جاتی ہے جو ہر حال میں ہائیکورٹ میں چیلنج ہوتی ہے اور وہاں سے اس سزا کے متضاد فیصلہ آ جاتا ہے۔ جو ٹرائل کورٹ کی دو تین سال کی محنت کو اکارت قرار دے رہا ہوتا ہے۔ اب اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹرائل کورٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں میں اتنا فرق آنے کی کیا وجہ ہے؟ ایک ملزم جو سزا کی آخری حد کا حقدار قرار پائے اور وہی ملزم بے گناہ بھی قرار پائے؟ ایسا ہونا کیسے ممکن ہے کیا یہ اتنا بڑا فرق عدالتی نظام پر سوالیہ نشان نہیں؟ کیا یہ ججز اور ان کی اہلیت پر سوالیہ نشان قائم نہیں کرتا؟ کیا اس سے ججز کی بھرتیوں کا عمل (جس میں ہونی والی مداخلتوں سے ہر کوئی آگاہ ہے) مزید شفاف کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا؟
میرے خیال میں ملک میں جاری احتجاج، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی، انتہا پسندی، قدامت پرستی، مذہبیت پر سوال کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت اس وجہ پر بھی سوال قائم کرنا ضروری ہے جس سے یہ سارا معاملہ وجود میں آیا، آسیہ بی بی کیس نے دوبارہ پہلے سے متعدد بار ثابت شدہ اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ ٹرائل کورٹس اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں اور فرائض کی انجام دہی میں اسی ناکامی کے باعث عدالتی اصلاحات اور سسٹم میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے اور میں سمجھتا ہوں اس تبدیلی کے لیے آواز اٹھانا ٹی ایل پی پر لعن طعن کرنے سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے اور یہ آواز اٹھانے کے لیے یہ موڑ بہرحال ایک اچھا موقع ضرور ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply