حدیث اور سنت کا فرق-قسط5/ڈاکٹر طفیل ہاشمی

 عہد صحابہ میں احادیث رسول مدون نہیں کی گئیں کیونکہ شروع میں آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا تا کہ کتاب اللہ اور احادیث باہم   نہ ہو جائیں. عصر تابعین کے آخر میں جب علماء کرام مختلف شہروں میں پھیل گئے، خوارج، روافض اور قدریہ کے افکار رونما ہوئے تو احادیث و آثار کی تدوین شروع ہوئی.

سب سے پہلے ربیع بن صبیح اور سعید بن عروبہ نے ہر باب الگ الگ تالیف کیا پھر طبقہ ثالثہ نے احادیث احکام مدون کیں جن میں اہل حجاز کی صحیح روایات کو اقوال صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے فتاوی کے ساتھ ملا کر امام مالک نے موطا تالیف کی. مکہ میں ابو محمد عبدالملک بن جریج نے، ابو عمرو عبدالرحمن بن عمر اوزاعی نے شام میں، سفیان ثوری نے کوفہ میں، حماد بن سلمہ نے بصرہ میں فقہ السنہ سے متعلق کتب تالیف کیں.

اس کے بعد علماء نے سوچا کہ احادیث رسول کو الگ سے تحریر کیا جائے، یہ سن 200ہجری کے آغاز کی بات ہے. اس دور میں عبیداللہ بن موسی کوفی، مسدد بن مسرھد، اسد بن موسی اموی اور نعیم بن حماد خزاعی مصری نے اپنی اپنی مسانید مدون کیں. اس کے بعد شاید ہی کوئی حافظ یا امام حدیث ایسا ہو جس نے اپنی مسند نہ لکھی ہو جیسے احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور عثمان بن ابی شیبہ وغیرہ چونکہ دینی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک آسان اور یقینی عزت و توقیر کا میدان تھا اس لیے تمام تر توجہ جمع و تدوین پر مرکوز ہوگئی  اور کوئی بھی نووارد اپنے چند ایک اساتذہ کے مجموعوں کو یک جا کر کے بآسانی ایک نئی تالیف مارکیٹ میں لا سکتا تھا اس لیے زیادہ توجہ کثرت روایات پر مبذول رہی. ان محدثین میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ابواب کی بنیاد پر مسانید مرتب کیں مثلا ابوبکر بن ابی شیبہ.

امام بخاری نے جب اس سارے موجود لٹریچر کا علم حاصل کیا، تالیفات دیکھیں، انہیں روایت کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ ان تالیفات میں اعلی درجے کی مستند ترین احادیث سے لے کر ضعیف اور موضوع تک سبھی کچھ موجود ہے. انہوں نے یہ سوچا کہ ایک ایسی کتاب مرتب کی جائے جس کی صحت پر اعتماد ہو. ان کے استاذ اسحاق بن راہویہ کے کمنٹس نے ان کے رہوار شوق کے لیے مہمیز کا کام دیا اور انہوں نے چھ لاکھ اسناد سے منتخب کر کے یہ مجموعہ تیار کیا جس میں لگ بھگ 2500 احادیث ہیں (صحيح بخاری پر ان شاء اللہ الگ سے گفتگو کی جائے گی) امام بخاری کا اصل مقصد صحیح احادیث جمع کرنا تھا اس لیے انہوں نے اس کا نام “الجامع الصحيح المسند من حدیث رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم و سننہ و ایامہ” رکھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف سنن یعنی تشریعی روایات کی حامل ہی نہیں بلکہ اس میں عہد نبوی کی تاریخ بھی مذکور ہے اور الجامع ہونے کے باعث دیگر کئی علوم بھی اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں.

اسی دور میں دیگر کئی ایک مولفین نے اپنے اپنے مجموعہ احادیث مدون کیے جن میں سے چھ مجموعے ایسے ہیں جنہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے جو اہل السنہ کے ہاں احادیث کے مستند ترین مجموعے ہیں.

ان مولفین کو اصل چیلنج واضعین حدیث کی طرف سے تھا، اس لیے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ سلسلہ اسناد اور ان میں آنے والے رواۃ کی جرح و تعدیل پر مرتکز رکھی کیونکہ اسی طرح وہ صحیح اور موضوع روایات کو الگ الگ کر سکتے تھے. مولفین صحاح ستہ نے قبول روایت کے لیے اپنی اپنی تالیفات میں راویوں کی اہلیت کے اپنے اپنے معیار مقرر کیے جن میں سب سے کڑا معیار امام بخاری نے مقرر کیا کہ صرف اس راوی کی روایت قبول کی جائے گی جس کی اپنے سے اوپر کے راوی سے ملاقات ثابت ہو لیکن امام بخاری ملاقات کے ثبوت کے لیے خارجی شواہد کی تلاش نہیں کرتے بلکہ خود راوی کے الفاظ “حدثنا یا أخبرنا” کو ملاقات کی تصدیق کے لیے کافی سمجھتے ہیں. ارباب منطق اس استدلال کو مصادرہ علی المطلوب کہتے ہیں اور اسے دلیل نہیں مانتے. امام مسلم نے بھی بخاری کی اس شرط پر دوسری وجوہ کی بنا پر تنقید کی ہے.

ان مؤلفات میں سنن متداولہ یعنی تشریعی روایات اور غیر تشریعی روایات کو جمع کر دیا گیا. ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ جہاں تک سنت کا تعلق ہے تو وہ فقہاء مجتہدین اور ان کے تلامذہ نے پہلے سے مدون کردی تھی اور تشریعی روایات کے اخذ و قبول کا عمل مکمل ہو گیا تھا.

Advertisements
julia rana solicitors

تشریعی روایات کا اختلاف (مثلا وضو، نماز، روزے، زکوۃ، حج اور دیگر شرعی مسائل میں فقہی اختلافات) صحت اور وضع کا اختلاف نہیں تھا بلکہ اپنے اپنے سماجی اور علاقائی مکاتب فقہ کی ترجیح کا اختلاف تھا کیونکہ سنت کے اختلافات کے بارے میں یہ طے شدہ امر تھا کہ ان میں اختلاف تضاد نہیں بلکہ اختلاف تنوع ہے، یہی وجہ ہے کہ عباسی خلفاء کے اصرار کے باوجود امام مالک نے اپنی فقہ سارے ملک میں رائج کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہ کہا کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقے میں آباد ہونے والے صحابہ کرام اور تابعین کے طرز عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بجا طور پر سنت ہے.
جاری ہے!

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply