گوہر جان،ایک گوہرِ نایاب۔۔۔۔۔اسلم ملک

آج گوہر جان کا یوم ولادت ہے جو گراموفون کیلئے گانا ریکارڈ کروانے والی پہلی ہندوستانی گلوکارہ تھی. اسے “کلکتہ کی پہلی رقاصہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے.

گوہر جان نے بنگالی،ہندی،گجراتی، تامل، مراٹھی، عربی، فارسی، پشتو، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں گائیکی ریکارڈ کروائی۔ وہ نواب واجد علی شاہ اور والئ میسور سمیت متعدد درباروں سے وابستہ رہی۔

گوہر جان 26 جون 1873 کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئی. اس کا پیدائشی نام انجلینا ییوارڈ تھا، والد ولیم رابرٹ ییوارڈ آرمینی نسل کا ڈرائی آئس فیکٹری انجنیئر اور والدہ وکٹوریہ ہیمنگز کلاسیکی رقاصہ اور گلوکارہ تھی۔ 1879ء میں وکٹوریہ کی شوہر سے علیحدگی ہوگئی تو وہ بنارس کے ایک متمول شخص خورشید کے ساتھہ رہنے لگی۔ خورشید فنون لطیفہ کا دلدادہ تھا، اس دوران دونوں ماں بیٹی نے اسلام قبول کر لیا. وکٹوریہ نے اپنا نام ملکہ جان رکھا، اور بیٹی انجلینا کو گوہر جان کا نام دیا۔ بنارس ان دنوں فنون لطیفہ کا ایک اہم مرکز تھا، ملکہ جان نے گائیکی اور رقص کا پیشہ اختیار کیا ۔ بہت سی ہم نام فنکاراؤں (مثلا” ملکہ جان آگرے والی، ملکہ جان پکھراج والی اور ملکہ جان آف چلبلی) کی وجہ سے بڑی ملکہ جان کہلانے لگی۔

1883ء میں گوہر جان اپنی ماں اور خورشید کے ہمراہ کلکتہ چلی آئی۔ تین برس میں بڑی ملکہ جان نے کلکتہ میں ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا اور 40,000 روپے میں ایک بہت بڑی عمارت خریدلی. اس نے نوعمر گوہر جان کی تربیت کے لیے اساتذۂ فن کی خدمات حاصل کیں۔ جن میں استاد کالے خاں آف پٹیالہ(کالو استاد)، استاد وزیر خاں آف رامپور اور استاد علی بخش (پٹیالہ گھرانہ کے بانی) بریندادین مہاراج (برجو مہاراج کے چچا دادا) سریجن بائی اور چرن داس شامل تھے ۔
گوہر جان شاعری بھی کرتی تھی، ہمدم تخلص تھا۔اس نے ٹیگور کے گیت بھی گائے، جو بعد ازاں بنگالی گائیکی میں ’’ رابندر سنگیت‘‘ کے اصطلاحی نام سے معروف ہوئے ہیں۔

گوہر جان نے اپنے فن کا پہلا مظاہرہ ریاست دربھنگا میں پندرہ سال کی عمر میں کیا۔ 1896ء میں وہ کلکتے کے امراء کی محفلوں سے باقاعدہ متعارف ہوئی اور عوام میں بھی مقبول ہونے لگی۔

گوہر جان نے پورے ہندوستان کا سفر کیا اور مؤقر موسیقی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ جارج پنجم کی تاجپوشی کے موقع پر اسےدہلی دربار مدعو کیا گیا جہاں اس نے جانکی بائی الہ آباد والی کے ساتھ  مل کر تاجپوشی کا مجرا گایا
یہ ہے تاجپوشی کا جلسہ، مبارک ہو، مبارک ہو

بیسویں صدی کے اوائل تک انگلستان، امریکہ، فرانس اور جرمنی کی متعدد گراموفون کمپنیاں ایشیائی ملکوں اور خاص طور پر ہندوستان میں گراموفون ریکارڈ کی ممکنہ صنعت کی طرف متوجہ ہو رہی تھیں۔ 1898ء میں گراموفون کمپنی لندن نے ہندوستان میں اپنی پہلی ریکارڈنگ مہم کے آغاز پر ایک مقامی ایجنٹ کو مامور کیا لیکن اس نے صرف چند اینگلو ہندوستانی آوازوں کی ریکارڈنگ کی. کسی ہندوستانی فن کار کو اس قابل نہیں سمجھا یا پھر سمجھ ہی نہیں آئی کہ کس کی ریکارڈنگ کرے۔
لیکن اس مہم کے آغاز سے تین ہفتے پہلے ہی گراموفون کمپنی لندن کے فریڈرک ولیم گیسبرگ کلکتے پہنچ چکےتھے۔ گیسبرگ گراموفون ریکارڈنگ کے باوا آدم ایمیلے برلینر کے معاون تھے۔ گیسبرگ نے موسیقی کی مقامی محافل اور تھیٹروں تک رسائی کے لیے پولیس سپرنٹنڈنٹس کی مدد حاصل کی۔ بالآخر وہ ایک ایسی فنکارہ کو منتخب کرنے میں کامیاب ہو گئے جو پہلے ہی ہر خاص و عام کی پسند تھی ۔
گوہر جان نے 3000 روپے کے معاوضے پر راگ جوگیا میں ایک خیال سے ریکارڈنگ کا آغاز کیا۔ 14 نومبر 1902ء کو کلکتے کے ایک ہوٹل میں صبح 9 بجے 30 سالہ گوہر جان قیمتی زیورات میں لدی پھندی، اپنے سازندوں کے ٹولے کے ساتھہ پہلی ریکارڈنگ کروانے آئی۔ بھیروی میں گائے گئے تین منٹ دورانیےکے اس ریکارڈ کے آخر پر وہ انگریزی میں کہتی ہے… ’’مائی نیم از گوہر جان‘‘
ریکارڈ پر لیبل لگانے میں آسانی کے لیے یہ طریقہ کافی عرصہ رائج رہا. اسی دوران کلکتے میں ریکارڈ فیکٹری بھی قائم ہوگئی تھی.

گوہر جان نے ایک شاہانہ زندگی بسر کی، وہ چار گھوڑوں والی بگھی میں سفر کرتی تھی. گھڑ سواری کی رسیا تھی، اس کے دن کا بیشتر حصہ مہالکشمی ریس کورس میں گھڑ سواری میں گزرتا اور راتیں فن کا مظاہرہ کرنے میں ۔ وہ اپنی شاہ خرچی کے حوالے سے بھی شہرت رکتھی تھی، مثلا” ایک بار جب اس کی بلی نے بچے جنے تو اس خوشی میں اس نے بہت بڑی دعوت پر 20,000 روپے خرچ کرڈالے۔ اس نے گاندھی جی کے ’’سوراج فنڈ ‘‘ کے لیے بھاری چندہ دینے کی ہامی بھری، لیکن جب گاندھی جی وعدے کے باوجود اس کے چندہ کنسرٹ میں نہ آئے تو اس نے طے شدہ رقم کا نصف چندے کے لیےدیا۔

گوہر جان نے معروف گائکہ ہیرا بائی اور اس کی بہن سندر بائی کو بھی موسیقی کی تربیت دی اور گراموفون ریکارڈز کے ذریعے متعارف کیا۔ وہ دونوں اپنے والدین میں علیحدگی کی وجہ سے پریشان حال تھیں. گوہر نے انہیں پالا.

گوہر جان کی شادی پشاور کے سید غلام عباس کے ساتھ ہوئی، جو اس کا سیکرٹری اور عمر میں اس سے دس برس چھوٹا تھا۔ لیکن یہ شادی کامیاب نہیں ہو سکی. علیحدگی کے بعد وہ بمبئی میں گجراتی تھیٹر اداکار امرت کیشو نائک کے ساتھہ رہنے لگی ۔ تین چار سالہ رفاقت کا انجام امرت کی موت پر ہوا، جو گوہر جان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا.
کچھہ عرصہ وہ ریاست دربھنگہ رہی اور اس کے بعد میسور چلی گئی، جہاں وہ مہاراجہ کرشناراجہ واڈیار کے دربار سے وابستہ رہی۔ یہیں میسور میں مکمل تنہائی اور اداسی کے عالم 17 جنوری 1930 کو اس کی موت واقع ہوئی۔

گوہر جان نے 150 کے قریب ریکارڈ چھوڑے ہیں۔ ان تاریخی اہمیت کے حامل ریکارڈز کی بحالی اور دوبارہ اجرا کے لیے سارے گاما انڈیا (سابقہ گراموفون کمپنی آف انڈیا، یا’ہز ماسٹر وائس’ ایچ ایم وی) نے گراموفون کمپنی لندن کے تعاون سے منصوبہ تیار کیا ۔ 1994 میں گراموفون کمپنی نے گوہر جان کے 18 ریکارڈز ’’چیئرمین وائس‘‘ کے نام سے آڈیو کیسٹ اور آڈیو سی ڈی میں جاری کیے۔ 2006ء میں جاری ہونے والے البم ’’ونٹیج میوزک آف انڈیا‘‘ میں بھی ان ریکارڈز کو شامل کیا گیا ۔ کئی شائقین کے پاس اس کے پرانے ریکارڈ بھی موجود ہیں.

اکبر الہ آبادی سے ملاقات

ﮔﻮﮨﺮ ﺟﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﻟٰﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﮑﯽ ﺑﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﭘﺮ ﭨﮭﮩﺮﯼ-
ﺟﺐ ﮔﻮﮨﺮ ﺟﺎﻥ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺧﺎﻥ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺳﯿﺪ ﺍﮐﺒﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ-
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﮧ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ- ﺟﺎﻧﮑﯽ ﺑﺎﺋﯽ ﻧﮯ ﺗﻌﺎﺭﻑ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻠﮑﺘﮧ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻭ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﻣﻐﻨﯿﮧ ﮔﻮﮨﺮ ﺟﺎﻥ ﮨﯿﮟ-
ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﺷﺘﯿﺎﻕ ﺗﮭﺎ.
ﺍﮐﺒﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’ ﺯﮨﮯ ﻧﺼﯿﺐ، ﻭﺭﻧﮧ ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﮞ ، ﻧﮧ ﺍﻣﺎﻡ ، ﻧﮧ ﻏﻮﺙ ، ﻧﮧ ﻗﻄﺐ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﻟﯽ ﺟﻮ ﻗﺎﺑﻞِ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺅﮞ، ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺞ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﮐﺒﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ، ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻭﮞ‘‘

ﮔﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ” ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﻌﺮ ﮨﯽ ﻟﮑھہ ﺩﯾﺠﺌﮯ‘‘

ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﮧ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﻧﮯ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﯾﮧ ﻟﮑھہ ﮐﮯ حوالے کیا

Advertisements
julia rana solicitors

کون خوش بخت ہے اس دنیا میں گوھر کے سوا
سب تو دے رکھا ہے اللہ نے شوہر کے سوا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply