سپائنل مسکولر اٹرافی/منصور ندیم

دنیا بھر میں کئی امراض ایسے بھی ہیں جن کا نام بھی ہمارے ہاں لوگ نہیں جانتے، اس کی تشخیص و علاج تو شائد پھر بہت دور کی بات ہے۔ ایسی ہی ایک موروثی بیماری Spinal Muscular Atrophy جسے میڈیکل ٹرم میں (SMA) بھی کہا جاتا ہے، اس بیماری کی تشخیص پوری دنیا میں بچے کی پیدائش کے وقت ہی ہوجاتی ہے، بالاصل عضلات کے موروثی مرض، موروثی خرابی سے پیدا ہونے والا یہ مہلک مرض انسانی عضلات کو اس حد تک کمزور کردیتا ہے کہ وہ بچہ چند ابتدائی سالوں میں ہی چلنے پھرنے تک کے قابل نہیں رہتا- کچھ صورت میں بولنے، حرکت کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
یہ مرض جسے SMA کہتے ہیں۔ جو لازما تشخیص سے لے کر علاج کے لئے دو سال سے کم عمر بچوں Paediatric Patients کے عضلات کے موروثی مرض Spinal Muscular Atrophy کی ٹریٹمنٹ کے لئے تشخیص کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کی تشخیص دو سے تین سال کی عمر سے پہلے ہی ہوتی ہےاور علاج بھی اسی عمر میں ہوتا ہے ورنہ عمر بڑھنے کے بعد آج کے موجود طبی ماہرین کے مطابق اس کا علاج موجود نہیں ہے، اور اس عمر میں جو علاج موجود ہے، اسے امریکی فارما سیوٹیکل کمپنی Novartis نے سنہء 2018 میں بنایا ہے، یہ انجیکشن Zolgensma کے نام سے ہے، جس کا فارمولہ (onasemnogene abeparvovec-xioi) ہے، یہ دوا بنیادی طور پر مئی سنہء 2018 میں Invent ہوئی تھی، اس دوا کی قیمت 2.1 ملین ڈالر پانچ سال تک مختص کی گئی ہے۔ جو دنیا کی مہنگی ترین ادویات میں سے ایک ہے، یعنی آج کی پاکستانی روپے میں یہ تقریبا 43 کروڑ روپے بنتے ہے۔
اس بیماری میں مبتلا بچوں کی Replacement Therapy کے لئے Zolgensma انجیکشن کی تھراپی ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے، یہ Zolgensma انجکشن آج کی جدید سائنسی ترقی کی بدولت موروثی خرابی سے پیدا ہونے والے اس مہلک مرض کی واحد اور موثر دوا ہے۔ جو Spinal Muscular Atrophy کی تھراپی میں صرف زندگی میں ایک بار ایک انجیکشن One-time-only dose کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ انجیکشن Zolgensma جس کا فارمولہ (onasemnogene abeparvovec-xioi) ہے، یہ دوا بنیادی طور پر مئی سنہء 2018 میں Invent ہوئی تھی جسے Avexis امریکی کمپنی نے بنایا جو Novartis Gene Therapies کے تحت ایک Biotechnology Company ہے، جو Neurological Genetic Disorders کی ٹریٹمنٹ کی ادویات پر کام کرتی ہے۔ اسے Novartis نے ستمبر سنہء 2018 میں بائیو لوجیکل لائسنس کے لئے امریکی فوڈ اور ڈرگ میں اپلائی کیا تھا، جسے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے بہت سارے پراسیس کے بعد مئی سنہء 2019 میں اپروول ملا تھا۔ اس وقت اس کی مینوفیکچرنگ سوئٹزرلینڈ میں ہوتی ہے، اس دوا کی قیمت 2.1 ملین ڈالر پانچ سال تک مختص کی گئی ہے۔ جو دنیا کی مہنگی ترین ادوایات میں سے ایک ہے، ویسے دنیا میں نوزائدہ بچوں میں عضلاتی موروثی بیماری کا مرض بھی بہت کم ہے، مگر یہ دوا خریدنے والوں کو Avexis’ OneGene Program team ذاتی طور پر مریض کو اور اس کے متعلقہ افراد کو ہر طرح کی مدد جیسے علاج میں معاونت کی انفارنیشن اور ٹریٹمنٹ کے دوران Assistance بھی فراہم کرتی ہے ۔
اس وقت مجموعی طور پر پوری دنیا میں ہر دس ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں سے ایک بچے میں تشخیص آرہی ہے، اور انڈیا میں اس وقت یہ مرض 6 ہزار سے سات ہزار میں سے ایک بچے کو یہ مرض لاحق ہے، اور تقریبا انڈیا کی ہر ریاست میں ہر سال 200 سے زائد کیس رجسٹر ہورہے ہیں، خطے کی مناسبت سے اس مرض کے مبتلا اوسط پاکستان میں بھی یہی ہوگی، مگر بدقسمتی سے یہاں یہ مرض کوئی نہیں جانتا، اگر ہمارے پڑوسی ملک میں اس مرض کے اتنے مریض آرہے ہیں تو پاکستان میں اس کا نام لوگوں نے کیوں نہیں سن رکھا؟ سب سے مزے کی بات یہ ہےکہ میں نے آغا خان کے کئی ریسرچ آرٹیکل اس بابت پڑھے ہیں، ہمارے ملک میں بھی یہ مرض اچھا خاصا موجود ہے، باوجود کئی ہسپتالوں میں اس مرض کی تشخیص ہونے کے بعد بھی پاکستان میں آفیشلی SMA کا ایک بھی کیس رجسٹر نہیں ہوا ہے۔ ماسوائے سنہء 2021 کے دسمبر کے مہینے میں چنیوٹ کے ایک بچے شاویز کا علاج ہوا ہے، وہ بھی اس وجہ سے ممکن ہوسکا ہے کہ Novartis نے ہمیں امدادی طور پر اس بچے کو وہ انجیکشن مہیا کیا تھا، جبکہ اس کے والدین نے 43 کروڑ کے اس انجیکشن کی امداد کے بعد بھی ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے ادا کئے ہیں۔ اس کے علاوہ پورے پاکستان میں اس بیماری کا کوئی کیس رجسٹر نہیں ہے، کیونکہ یہاں اس کی اسکیریننگ سے لے کر اس کے علاج کے بارے میں نہ آگاہی ہے نہ ہی ہمارے پاس اس مرض کی سکریننگ کا کوئی اچھا نظام موجود ہے۔ نہ ہی یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ ہم ایک نوعمر بچے کے لئے تینتالیس سے چوالیس کروڑ کسی صورت نہیں خرچ کرسکتے۔ ہماری تو بدقسمتی ہے ہم انڈیا سے ہر چیز میں مقابلہ کرتے ہیں مگر میں اس وقت اس موروثی مرض Spinal Muscular Atrophy
کے علاج کے لئے انڈیا میں بچوں کے لئے بڑے پیمانے پر فنڈ ریزنگ کی مدد سے ان بچوں کی جان بچانے کے لئے استعمال ہورہی ہے۔ انڈین روپے کی قدر میں یہ انجیکشن کی قیمت اٹھارہ کروڑ ہے، اور وہاں وہ اس مرض میں مبتلا کسی بچے کو موت کے پاس نہیں جانے دے رہے۔
شاویز کی خوش قسمتی ہے کہ وہ Novartis کے امدادی پروگرام کے تحت یہ انجیکشن لگواسکا، ورنہ شاویز بھی اپنی بڑی بہن کی طرح اسی موروثی بیماری میں اپاہج ہوجاتا، صرف آغا خان وہ واحد پاکستانی ہسپتال ہے جہاں صرف اس کی اسکریننگ موجود ہے مگر علاج نہیں، ورنہ تو یہاں اس مرض کی تشخیص بھی ممکن نہیں ہے ، مگر یہ ضرور ہے کہ کچھ دوست آپ کو بتائیں گے کہ صحت کارڈ اس کی ایڈوانس ٹریٹمنٹ بنوں سے کر لنڈی کوتل تک مفت دے رہا ہے بلکہ گھر آنے جانے کا کرایہ بھی ایسے مریضوں کو دے رہا ہے،، یا پھر کوئی دوست فیصل آباد کی کسی ڈسٹرکٹ کے ڈاکٹر کا بتائے گا کہ اس مرض کی ایڈوانس ٹریٹمنٹ وہ پچھلے بیس برس سے دیسی ٹوٹکوں سے کررہے ہیں۔ ویسے اس ایک انجیکشن کی قیمت سے کم میں ہمارے ملک کے سارے میڈیکل ریسرچ سینٹر چل رہے ہیں، اب شائد کوئی یہ بھی بتائے گا کہ یہ سارے میڈیکل ریسرچ سینٹرز ایڈوانس ترین طبی ماہرین، محققین کے ساتھ دنیا کی بہترین طبی خدمات پاکستان میں ادا کررہے ہیں ۔
نوٹ : یہ تصویر شاویز کی والدین کے ساتھ ہے، جو پاکستان میں پہلی بار Spinal Muscular Atrophy کی Gene Therapy صرف اس لئے کرواسکا کہ اس کا نام Novartis کی امدادی قرعہ اندازی میں آگیا، جس ایڈوانس ٹریٹمنٹ تھراپی کے انجیکشن کی قیمت 43 کروڑ روپے ہے، اور اس کے باوجود صرف ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے ساڑھے آٹھ لاکھ پھر بھی انہیں ادا کرنے پڑے، ، دوسری تصویر انجیکشن کی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply