مرتا ہوا ہاتھی ۔۔ اظہر سید

پیپلز پارٹی کے ذریعے اگر فراڈ حکومت سے نجات مل جاتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ملک پر چار فوجی حکومتوں کے ذریعے قابض مائند سیٹ کو چند سال بعد دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل جائے گا ۔ کھیل “میرے عزیز ہم وطنو” کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں آ چکا ہے ۔
طاقت کے زور پر ریاستی اداروں پر قابض مائنڈ سیٹ نجات چاہتا ہے اور اپنی غلطیاں کسی کو سونپ کر بھاگنے کے چکر میں ہے ۔سیاستدانوں نے سوغات نامی خدائی تحفہ کو بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے اور تاحال استعمال کر رہے ہیں ۔آصف علی زرداری نے فقط سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ لیا ہے حکومت نہیں لی ۔موسم گرما میں جب بجلی کے بلوں کے قہر اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان سے عاجز عوام سینہ کوبی کر کے گالیاں دیں گے ،بددعائیں دیں گے تو وہ پیپلز پارٹی ،مولانا فضل الرحمن یا میاں نواز شریف کو نہیں ملیں گی انہیں ہی ملیں گی جو اس کے حقدار ہیں ۔
آصف علی زرداری کو کوسنے دینے کی بجائے ملک کے نظام انصاف پر چار حرف بھیجنے چاہیئں جس میں بینچ کے ججوں کو دیکھ کر فیصلوں کا اندازہ کر لیا جاتا ہے ۔جو شخص گیارہ سال جیل میں رہ کر مقدمات سے بری ہوتا ہو اس ملک کی عدلیہ پر لعنت بھیجنا چاہیئے کسی سیاستدان پر نہیں ۔
جس ملک میں سابق منتخب وزیراعظم کو جیل سے نکال کر ایک اور مقدمہ میں نیب گرفتار کر لے اور اسکی زندگی خطرہ میں آجائے وہاں سیاستدانوں پر الزام تراشی کا کوئی جواز نہیں ۔آصف علی زرداری کو اپنی بے بسی کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ حکومت میں ہونے کے باوجود بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی نشاندہی نہیں کر پائے ۔مسٹر ٹن پرسنٹ سے ہنڈرڈ پرسنٹ تک بدنامی کا طوق گلے میں ڈالا ۔
لعنت بھیجنی ہے تو ان کتے کے بچوں پر بھیجیں جو کل تک دنیا جہان کی کرپشن کی کہانیاں نجی چینلز پر بیٹھ کر آصف علی زرداری سے منسوب کرتے تھے اور آج جب زرداری نے طاقت کے مقام محمود پر بیٹھے شاطروں کو سانس لینے کا موقع دیا ہے ان تمام اینکرز کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں مالکوں کا حکم نہیں اس لئے میڈیا ٹرائل بھی ختم ۔
کل جب میاں نواز شریف نے سانس لینے کا موقع فراہم کر دیا تو یہی  اینکرز نواز شریف کی تعریفوں کے پل بنائیں گے ۔
گالیاں دینا ہیں تو میڈیا کو غلام اور یرغمال بنانے والوں کو دیں ۔کوسنے دینا ہیں تو انصاف کی مسندوں پر بیٹھے قاضیوں کو دیں جو نواز شریف کو تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر بلیک لا ڈکشنری کا سہارا لے کر نا اہل کر دیتے ہیں اور فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہ ہونے پر منہ میں گھنگینیاں ڈالے بیٹھے ہیں ۔
آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کل نیب پیشیوں میں توہین کی جاتی تھی ۔سابق بوڑھے صدر کے ہاتھوں کے رعشہ کا چیرمین نیب مذاق بناتا تھا کہ “ریفرنس کی خبر سے ہاتھ کانپنے لگے”
ہم سمجھتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے لانگ مارچ روک کر ٹکراو کو روکا ہے ۔اس وقت جو سفاک ٹولہ معاملات پر قابض ہے کوئی غلطی حالات کو پوائنٹ پر نو ریٹرن پر پہنچا سکتی تھی ۔لانگ مارچ کا فیصلہ کسی کی جان لے سکتا تھا ۔فوج اور عوام کا ٹکراو ملک کے مفاد میں نہیں اور دیوالیہ ہوتا پاکستان اس ٹکراو کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔بہت جلد آپ دیکھیں گے تمام سیاستدان آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑی ہونگے اور ہاتھی 🐘 انکی مدد کر رہا ہو گا اور یہی زرداری چاہتا ہے۔
معاشی حالات جس تیزی سے خراب ہو رہے ہیں آصف علی زرداری نے ایک اور موقع دیا ہے کہ “خود ہی کچھ کرو” نہیں کرو گے تو عوامی غم و غصہ اور نفرت کا بوجھ بھی اٹھاو کہ ہم تو لانگ مارچ نہیں کر رہے ،جی ایچ کیو کا گھیراو نہیں کر رہے ،ڈی چوک پر دھرنہ نہیں دے رہے ۔
یوسف رضا گیلانی کا سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بننا کوئی بڑا واقعہ نہیں ۔ن لیگ کا اپوزیشن لیڈر تھا کیا کر لیا؟ میاں نواز شریف کو چھوڑیں خود مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی پتہ ہے کہ آصف علی زرداری نے ایک بوجھ اٹھا کر ملک پر اور اپوزیشن پر رحم کیا ہے ۔اپوزیشن راہنماوں کو گرفتاریوں سے بچایا ہے ۔طاقتوروں کو اپنی جان بچانے کیلئے ایسے فیصلوں سے روکا ہے کہ وہ کوئی اور بینظیر بنا دیں ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہاتھی اپنے تضادات کے ہاتھوں مرے گا ۔کشمیر سے افغانستان تک ناکامیوں کا بوجھ ہاتھی کو لے ڈوبے گا ۔امریکی ایما پر بھارت کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانے کی قیمت ہاتھی ادا نہیں کر سکتا ۔جب بھارت کے ساتھ کرکٹ میچ بھی شروع ہو گئے تو پھر معیشت کا گلہ گھوٹنے والے عالمی کھلاڑی ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا کہیں گے تو پھر ہاتھی کہاں بھاگے گا ۔
چین کے خلاف بھارت کو پراکسی بنانے والی طاقتیں چین سے پاکستان کی پراکسی چھیننا چاہتی ہیں یہ اتنا بڑا تضاد ہے ہاتھی اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا ۔ابھی تو امریکی اور بھارتی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سی پیک پر چین کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری برباد کرانے پر بغلیں بجا رہے ہیں لیکن چینی تو حقیقی معنوں میں معاشی سپر پاور ہیں ان کی جوابی کاروائی کہیں نہ کہیں ہو رہی ہے ۔آصف علی زرداری ہوں یا مولانا فضل الرحمن یا میاں نواز شریف سب سی پیک کے محافظ اور چینیوں کے دوست ہیں ۔
آصف علی زرداری پر تنقید کرنے والے یاد رکھیں کہ امریکی پراکسی سنگاپور پورٹ سے گوادر کا ٹھیکہ منسوخ کر کے چینیوں کو دینے والے آصف علی زرداری تھے اور سی پیک پر جنگی رفتار سے کام شروع کرانے والے میاں نواز شریف تھے جبکہ سی پیک کے مشرقی اور مغربی روٹ پر تنازعہ ختم کرانے کے پیچھے عوامی طاقت مولانا فضل الرحمن کی تھی ۔
ہم سمجھتے ہیں تمام اپوزیشن جماعتیں امریکہ چین جاری کشمکش میں چینی کیمپ میں ہیں امریکی کیمپ میں نہیں ۔ایک مرتبہ امریکی حمایت یافتہ حکومت گرا دی جائے تو پھر باقی کھیل آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن اور میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر کھیل لیں گے اور اس وقت تک طاقت کے استعارے اسقدر بدنام ہو چکے ہونگے کہ نہ منتخب وزیراعظم کسی پالتو عدلیہ سے برطرف کرایا جا سکے گا اور نہ ہی سوغات ایسی کوئی آپشن موجود ہو گی کہ جیسے الیکشن جتوا کر ریاست پر قبضہ برقرار رکھا جا سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply