دین میں جبر نہیں ۔۔محمد صائم اشرف

حاجی صاحب اس دن کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہے تھے یہ میں نے ان کی باتوں سے محسوس کیا۔ عام طور پر وہ دین کی بات کرتے وقت بہت نرم لہجہ استعمال کرتے ہیں پر آج  مغرب کی نماز کے بعد کچھ نمازی حافظ صاحب کے ارد گرد جمع ہوگئے تاکہ ان سے دین کی کوئی نئی سمجھ لے سکیں۔

حاجی صاحب کا پورا نام حاجی محمد نواز ہے کاروبار کے لحاظ سے کپڑے کی دکان ہے ایک سادہ سی شخصیت ہے ان کی چہرے پر سنت رسول  سجی ہے اور میں نے انہیں ہمیشہ سفید شلوار قمیض میں ہی دیکھا ہے، پانچ وقت کے نمازی ہیں اور اذان ہوتے ہی اپنی دکان کا شٹر گرا دینا بازار میں ان کی ایک الگ پہچان کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔

حاجی صاحب مغرب کی نماز کے بعد اکثر لوگوں کو ان کی روز مرہ   زندگی میں دین کو شامل کرنے کے طریقے  سمجھایا کرتے ہیں آج بھی معمول کی طرح وہ مغرب کی نماز کے بعد جب بیان کرنے لگے تو میں نظریں بچا کر نکلنے ہی لگا تھا کہ اچانک سے ان کی تیز آواز کانوں میں پڑی کہ آج کوئی نہیں جائے گا اور میں انہیں دیکھے بغیر سب سے پیچھے جا کر بیٹھ گیا اور چپ کر کے سننے لگا۔
سماعت سے ٹکرانے والی آواز میں جو جذباتی پن تھا وہ پہلے کبھی میں نے نہیں سنا تھا۔

میں نے آج سے پہلے کبھی آپ لوگوں کو یوں بیٹھنے کو نہیں کہا کیوں کہ میرے نزدیک دین میں جبر نہیں ہے یہ میرا ایمان ہے اور میں ہمیشہ اسی پر قائم تھا، ہوں اور رہوں گا پر آج میں جس مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے آپ سب کا موجود  ہونا بہت ضروری ہے۔
ایک شخص نے حاجی صاحب کو نرم لہجے میں پوچھا کہ کیا بات ہے آپ کو ایسے پہلے کبھی نہیں دیکھا کچھ دیر رک کر وہ بولے کہ
جب میں چھوٹا تھا تو مجھے سب سے مشکل کام نماز پڑھنا لگتا تھا گھر والے زبردستی نماز پڑھنے بھیجا کرتے تھے ماں جی کو کسی نے کہہ دیا تھا کہ سات سال تک کے بچوں کو پیار سے کہو اور جب وہ بارہ سال کے  ہو جائیں تو مارنا فرض ہے اگر وہ نماز نہ پڑھیں،ماں بہت سادہ تھیں۔

انہوں  نے آٹھ سال کی عمر سے ہی مارنا شروع کر دیا ۔ اور ہم بھی گھر سے روتے ہوئے مسجد آتے اور نماریوں کا مسجد سے نکلنے کا انتظار کرتے اور پہلا نمازی باہر آتا دیکھ کر بھاگے گھر جاتے اور ماں ہمیں گلے سے لگا لیتی کہ ماشااللہ اگلی نماز پڑھنے بھی جانا ہے میرے شیر نے۔عمر کٹتی گئی اور ماں کی ہمیں مارنے والی چھری کمزور ہوگئی۔ ہم بھی دنیا کے رنگوں میں گم ہو گئے۔ جمعہ کی جمعہ پھر عید کی عید نماز پر آگئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک دن رات کے وقت   دوستوں کے ساتھ تاش کھیلتے کھیلتے فجر کی اذان کانوں میں پڑی اور بس وہاں تاش چھوڑی مسجد کی طرف چلا گیا اور کئی سال گزر گئے ہیں آج کی نماز کل پر نہیں گئی۔ مالک کے کرم سے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے بعد مجھے کبھی کوئی بچہ مسجد کے باہر روتا ہوا کھڑا نظر نہ آئے۔ اتنی دیر میں حافظ صاحب نے سامنے بیٹھے بچے کو اپنے پاس بلایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بہت پیار سے مسکرا کر کہا اگر آئندہ تمھارے  بابا تمھیں نماز کا سختی سے کہیں  تو مجھے آکر بتانا اور مسجد میں بیٹھے ہر کسی نے قہقہ لگایا اور حاجی صاحب سے اجازت لی۔
جب میں ان سے  مصافحہ کرنے لگا تو    مجھے آہستہ سے کہتے ۔۔تم اگر نہ آئے نماز پڑھنے تو تمھارے جوتے میں  خؤد لگاؤں گا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply