مقدمہ سرائیکستان/ذوالفقار علی زلفی

سرائیکی قوم پرست عبید خواجہ صاحب نے ازراہِ محبت اپنی ترجمہ کردہ کتاب “مقدمہ سرائیکستان” بھیجی ـ یہ معروف سرائیکی دانش ور ریاض ہاشمی کی کتاب “Brief for Bahawalpur province” کا اردو ترجمہ ہے ـ۔

ریاض ہاشمی نے بہاولپور اور ملحقہ سرائیکی علاقہ جات بشمول ڈیرہ غازی خان و راجن پور کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا مقدمہ پیش کیا ہے ـ انہوں نے ایک وکیل کی مانند دنیا بھر سے مختلف خطوں کی مثالوں و حوالوں کے ذریعے علیحدہ صوبے کی پرجوش وکالت کی ہے ـ برصغیر کی نوابی ریاستوں کی قانونی حیثیت اور مسلم لیگ، انڈین نیشنل کانگریس و انگریز نوآبادکاروں کی پالیسیوں کا جائزہ بھی پیش کیا ہے جو نہ صرف معلومات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں بلکہ سرائیکی خطے کی جداگانہ پوزیشن کی تفہیم میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں ـ انہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد مختلف فوجی و نیم فوجی (سول) حکومتوں میں سرائیکی صوبہ تحریک کا احوال بھی پیش کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرائیکی قومی شناخت کو غائب کروانے میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے رہے ہیں ـ تاہم مصنف نے محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے سے اجتناب کیا ہے، ان دونوں صاحبان کے حوالے سے ان کا رویہ حیرت انگیز حد تک نرم ہے ـ۔

ریاض ہاشمی نے سرائیکی قومی تشکیل پر کوئی بحث نہیں کی ہے اور نہ ہی سرائیکی زبان کے ارتقا پر کوئی روشنی ڈالی ہے ـ اگر اس موضوع پر کوئی دوسری کتاب ہے تو احباب سے رہنمائی کی درخواست کروں گا ـ۔

اس کتاب کی سب سے بڑی کمزوری سرائیکی خطے کی طبقاتی سیاست کو نظر انداز کرنا ہے ـ انہوں نے عباسی خاندان سمیت دیگر جاگیرداروں و گدی نشینوں کے پیوستہ مفادات اور محنت کش و کسان طبقات کے ساتھ ان کے مخاصمانہ تضادات کو بحث کا حصہ بنانے سے کاملاً گریز کیا ہے ـ اس گریز کی وجہ سے سرائیکی قومی شناخت کی بحالی کی تحریک میں بالادست طبقات کا کردار نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے ـ کتاب کی یہ خامی بلاشبہ قابلِ گرفت ہے ـ۔

اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سرائیکی قومی شناخت سے انکار اور سرائیکی وسیب کے استحصال کو بھی محض آئین و قانون کے تحت بیان کیا ہے حالانکہ یہ مسئلہ انگریز و پنجابی نوآبادکار کی پالیسیوں سے منسلک ہے ـ نوآبادیاتی سیاسی نظام پر تنقید کرنے اور خصائل کو زیرِ بحث لانے کی بجائے مصنف اس امر پر دکھ کا اظہار کرتے نظر آئے کہ بلوچستان کم آبادی اور محدود وسائل کے ساتھ ایک صوبہ ہے لیکن سرائیکی بڑی آبادی اور دولت مند ہونے کے باوجود اس سہولت سے محروم ہے ـ۔

بلوچستان کے حوالے سے مصنف ویسے بھی لاعلم نظر آئے یا ممکن ہے انہوں نے جان بوجھ کر “جذبہ حب الوطنی” کے تحت حقائق سے چشم پوشی کا راستہ اختیار کیا ـ انہوں نے ریاست قلات پر پاکستانی فوج کے حملے و جبری قبضے کی جگہ پرامن الحاق کا ریاستی پروپیگنڈہ ہی آگے بڑھایا ہے ـ مزید یہ کہ انہوں نے پاکستان کے انتظامی صوبہ بلوچستان کو نوری نصیر خان کی ریاست کی بحالی سے تشبیہ دے کر قصرقند اور دیزک کو بھی اس کا حصہ قرار دیا ہے ـ حقیقت یہ ہے کہ مزکورہ دونوں خطے یعنی قصرقند اور دیزک ایران کے انتظامی صوبہ سیستان و بلوچستان کے حصے ہیں ـ۔

سرائیکی صوبہ کی آئینی و قانونی پہلوؤں کو سمجھنے کے لحاظ سے یہ کتاب رہنما ہے ـ تاہم میری نگاہ میں سرائیکی قومی شناخت کی بحالی ایک سیاسی مسئلہ ہے ـ پاکستانی ریاست پر حاکم پنجابی فوج کسی آئین و قانون نامی چڑیا سے واقف نہیں ہے ـ سرائیکیوں کو قومی شناخت کی بحالی کے لئے غلام بنائے گئے دیگر اقوام کے ساتھ مشترکہ سیاسی جدوجہد ہی کرنی چاہیے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سرائیکی وسیب کے اصل مالک کسان و محنت کش طبقات ہیں اور استحصال بھی انہی کا ہورہا ہے ـ اس تحریک کو خون آشام جاگیرداروں ، گدی نشینوں اور بڑے بڑے مافیا سرمایہ داروں سے جتنا دور رکھا جاسکتا ہے رکھنا چاہیے ـ بالادست سرائیکی طبقے کے حریصانہ معاشی مفادات نوآبادیاتی فوج سے منسلک ہیں ان کو محض ہم زبان ہونے کی بنا پر محفوظ راستہ دینا اکثریتی محنت کش و کسان طبقات سے غداری کے سوا کچھ نہیں ہے ـ۔
آخر میں عبید خواجہ صاحب کا پھر شکریہ کہ انہوں نے اس اہم مسئلے پر ایک معلوماتی کتاب تک رسائی فراہم کی ـ
سرائیکی قومی شناخت کی بحالی کی جدوجہد و اس راہ میں جان قربان والے محنت کشوں و کسانوں کو سرخ سلام

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply