71 واں یوم آزادی اور قائد کا پاکستان؟۔۔۔۔۔ ارشاد حسین ناصر

قوم 71 واں یوم آزادی اس ماحول میں منا رہی ہے کہ پاکستانی پارلیمان کی پندرہویں اسمبلی حلف اٹھا چکی ہے اور ایک ایسی جماعت حکومت سازی ر رہی ہے جس نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تھا،جس کا نعرہ تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان ،پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں جن سے قوم کو بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں،برسوں سے ایک جیسے چہرے اور پارٹیوں کی باریاں اب تبدیل ہو چکی ہیں تبدیلی کا سفر اس معنی میں شروع ہو گیا ہے کہ ایک نئی جماعت جس نے اس سے پہلے مرکزی حکومت نہیں کی اسے ایوان زیریں اور دو صوبوں میں حکومت سازی میں کامیابی دکھائی دے رہی ہے،ایک طرف حکومت سازی کا عمل اور دوسری طرف چودہ اگست کی تقریبات، جوش، خوشیاں اور جشن کے پروگرام یہ ایک خوبصورت موقعہ ہے، اس عزم کو دہرانے کا جو پاکستان کے قیام کے مقاصد اور اہداف کی خاطر زحمات اور قربانیاں دینے والوں نے کیا تھا، جو خواب اقبال و قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا، آزادی کا جو منظر قائد وا قبال کی نظروں میں تھا، اسے پورا کرنے کا عزم،اس وطن کے باسیوں کو ان کے عقیدہ کی آزادی کیساتھ زندگی گذارنے کی اجازت اور باہمی احترام و اخوت و بھائی چارہ کیساتھ رہنے کی آزادی کا خواب،اقلیتوں کو ان کے جائز و شرعی حقوق کی آزادی کا عزم دہرانے کا یہ عظیم دن ایک بار پھر ہمیں نصیب ہوا ہے۔

روایتی طور پر اس حوالے سے پورے ملک میں تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، گھروں اور بازاروں کوسجایا گیا ہے۔ آزادی کے عظیم قائدین کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ خصوصاََ قوم بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش کرے گی۔ 14 اگست، یوم آزادی پاکستان بلاشک و شبہ خوشی منانے اور فخر کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے کہ جب تمام ترمصائب و مشکلات کے باوجود مسلمانان ِ برصغیر علیحدہ وطن کے حصول کے لیے ڈٹ گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی بے مثال قیادت اور قوم کی استقامت کی بدولت 14 اور 15 اگست کی درمیانی رات ہندوستان کے بطن سے آزاد اور خود مختار پاکستان وجود میں آیا۔ وہ پاکستان کہ جو اسلام اور لاالہ الااللہ کے لافانی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوا۔ جہاں آزادی، عدل اور انصاف کی داغ بیل ڈالی جانی تھی۔ وہ پاکستان جہاں ہر شہری کو بلاتفریق رنگ ونسل و مذہب اس کے حقوق ملنے تھے۔ آزادی حاصل کرنے کے تقربیاََ ایک سال بعدہی قائداعظم رحلت فرما گئے اور وہ تمام خواب جن کی تعبیر کے لیے پاکستان قائم ہواتھا، ابھی تک تشنئہ تکمیل ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے ایک مشہور کالم نویس نے بابائے اردو مولوی فضل حق کا ایک خط، جو انہوں نے 1951ء میں لکھا تھا، اپنے کالم میں شائع کیا۔ یہ خط انجمن ترقی اردو کے رسالے قومی زبان کے بابائے اردو نمبر اگست 1963ء کے شمارے میں ابھی بھی موجود ہے۔ ویسے تو یہ پورا خط ہی انتہائی اہم ہے اور اس وقت کے حالات خصوصاََ حکومت کی ترجیحات کے ضمن میں چشم کشا ہے۔ لیکن اس کا یہ جملہ نہایت قابل غور ہے اور بابائے قوم کے بعد حکومت جس ڈگر پر چل پڑی تھی، کو واضح طور پر بیان کرتا ہے، آ پ لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ صوبائی عصبیت کا جذبہ، جو پاکستان بننے کے بعد زیادہ قوی ہوتا جارہا ہے، اکثر اوقات ان کاموں میں رکاوٹ اور تاخیر کاباعث ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ خطرناک ہے، جو زندگی کے مختلف شعبوں میں چھارہا ہے۔

قوم کو صیحح سمت کی طرف گامزن کرنا قیادت اور حکومت کا کام ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کی حکومتیں جس میں ناکام رہیں۔ اس کا خمیازہ ہمیں 1971ء میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی علیحدگی کی صورت میں بھگتنا پڑا اور اس کے بعد بھی ہمارا سماج اور معاشرہ مختلف اخلاقی بیماریوں کا شکار ہوتا چلاگیا۔ جس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ خود حکمران طبقہ بھی ان بیماریوں کا شکار تھا۔ناسی طرح علماء کرام، دانشور حضرات اور سماجی مصلحین نے اپنی ذمہ داریاں کماحقہ ادا نہیں کیں۔ ان سماجی اور اخلاقی بیماریوں میں سے ایک اہم بیماری، جو آج کل زبان زد عام و خاص ہے، وہ کرپشن ہے، خصوصاََ مالی کرپشن۔ رشوت،کک بیکس، کمیشن، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری وغیرہ اسی مالی کرپشن کے مختلف مظاہر ہیں۔ غریب ممالک خصوصاََ پاکستان جیسے ممالک کی ترقی میں ایک اہم رکاوٹ یہی کرپشن ہوتی ہے، کیونکہ ملکی وسائل اوردولت عوام کی فلاح وبہود اور ملکی ترقی پر استعمال ہونے کی بجائے اشرافیہ کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔ ملک عزیز میں جہاں کرپشن کا وجود ہر عام وخاص تسلیم کرتا ہے وہیں یہ تاثر بھی بھرپور طور پر موجود ہے کہ بڑے لوگوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا یا سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے مختلف کیسوں میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کویہ کریڈٹ تو دینا پڑے گا کہ انہوں نے کرپشن کے خلاف لوگوں میں شعور کو بلند کیا ہے۔ پانامہ لیکس کے نام سے جو سکینڈل عالمی توجہ کا مرکز بنا، اس میں شریف خاندان کے افراد کے نام بھی شامل تھے۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکمران خاندان کے احتساب کا مطالبہ کیا، اس ساری صورتحال سے قارئین کرام آگاہ ہیں۔

آخرکار کیس سپریم کورٹ میں چلا۔ اپنے پہلے فیصلے یا کورٹ آرڈر میں پانچ رکنی بنچ میں سے دوججز نے نواز شریف کو صاد ق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا، جبکہ دیگر تین ججز نے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کروائی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو بحث ہوئی، اس میں شریف خاندان کے وکلاء نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مندرجات خصوصاََ findings کو چیلنج کرنے سے زیادہ ان شواہد کے حصول کے ذرائع کو زیربحث لایا اور کہا کہ یہ شواہد غیرقانونی ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس افضل ظلہ کا 1994ء کا فیصلہ موجود تھا، جس میں شواہد چاہے غیر قانونی ذرائع سے ہی حاصل کئے گئے ہوں، اگر وہ صیحح ہیں، تو عدالت ان کی بنیاد پر فیصلہ دے سکتی ہے۔ دوسری تشویشناک بات یہ تھی کہ حکمران خاندان کی طرف سے پیش کردہ دستاویزات کو بھی جے آئی ٹی نے جعلی قرار دیا۔ جعلی دستاویزات بنانا اور پھر انہیں سپریم کورٹ میں پیش کرنا قابل سزا جرم ہے۔ افسوس سابق حکمران خاندان اس حوالے سے قابل تقلید مثال قائم کرنے میں ناکام رہا۔ سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلہ میں آمدنی سے زائد ذرائع رکھنے کے الزام میں نیب کو مختلف ریفرنس دائر کرنے اور چھ مہینے کے اندر ان پر فیصلہ کرنے کا حکم صادر کیا۔ جبکہ ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی قابل وصول تنخواہ انتخابی کاغذات میں ظاہر نہ کرنے اور جھوٹا بیان حلفی داخل کرنے کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو صادق اور امین نہ رہنے کی وجہ سے قومی اسمبلی کی نشست اور وزارت عظمیٰ کے منصب کے لیے نااہل قرار دیا۔

بعد ازاں میاں نواز شریف ،ان کی صاحبزادی مریم نواز،اور داماد کیپٹن صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا ہو گئی اور وہ اب جیل کی ہوا کھا رہے ہیں، الیکشن سے قبل یہ فیصلے اگرچہ بعض حوالوں سے ناگوار سمجھے گئے مگر اس ملک میں پہلی بار کسی بڑی شخصیت کو کرپشن پر سزا ہونا ایک خوش آئند عمل بھی تھا، البتہ اس حوالے سے دانشور حلقوں میں یہ بات شد و مد سے کی جاتی ہے کہ ملٹری سے وابستہ کرپٹ افراد چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہوں کو اسیطرح کٹہرے میں لایا جانا چاہیئے، جیسے عوامی قیادت کو لایا گیا ہے، اس حوالے سے سب سے زیادہ سابق آرمی چیف جنرل کیانی اور ان کے بھائی کی کرپشن کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے، جو ابھی تک مفرور ہیں، اسیطرح بعض لوگ جنرل مشرف پر بننے والے کیسز پر فیصلوں پر عمل درآمد نا ہونے کو بھی بطور مثال پیش کرتے ہیں، ہمارا مقصد چونکہ کرپشن پر بحث نہیں، ہم اکہترویں جشن آزادی اور نئے پاکستان کی شروعات کی بات کرنا چاہتے ہیں، نیا پاکستان یا جو نعرہ پاکستان تحریک انصاف نے لگایا، دو نہیں ایک پاکستان اس کے تناظر میں موجودہ ملکی صورتحال، نئی حکومت سے توقعات، مسائل کا انبوہ اور ترجیحات کا تعین، خارجہ پالیسی میں تبدیلی یہ بہت بڑے مسائل ہیں، خود اتنی بڑی اپوزیشن اور وہ بھی تجربہ کار پارٹیز جو الیکشن میں دھاندلی کا رونا بھی رو رہی ہیں اور احتجاج کا پروگرام بھی رکھتی ہیں، حکومت چلانا خاصا دشوار کام ہوگا، یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ پی ٹی آئی میں انہی پارٹیز سے جو لوگ شفٹ ہوئے ہیں، ان کیساتھ صاف شفاف ہو کر کام کرنا اور انہیں راہ راست پر رکھنا کافی مشکل ہوگا، یعنی پی ٹی آئی کو داخلی طور پر بھی مشکلات کا سامنا رہیگا اور دیگر پارٹیوں سے تو پہلے دن سے محاذ گرم ہو چکا ہے۔

کرپشن پر سزائوں اور نیب میں کیسز کا اندراج و عمل درآمد ہونا، بڑی مچھلیوں کا قابو میں لایا جانا خوش آئند عمل ہے، جسے بلا تخصیص جاری رہنا چاہیئے، عدلیہ کی آزادی سے ملک میں ایک نیا کلچر متعارف ہوا ہے، مگر خود عدلیہ میں کالی بھیڑوں کا احتساب ایک مشکل عمل ہے، جس دن ان کا احتساب ہونے لگے گا اس دن ہمارا نیا پاکستان، یعنی اقبال و قائد کا فراموش شدہ پاکستان لوٹ آئے گا، ہمارے خیال میں اس ملک کو سب سے پہلے جس لعنت سے چھٹکارے کی ضرورت ہے، وہ دہشت گردی کا چیلنج ہے۔ دہشت گردی تمام مسائل کی جڑ ہے، اگر ملک میں دہشت گردی کا راج ہو گا تو کوئی مسئلہ بھی حل نہیں ہو گا، اس وقت عالی طاقتیں دہشت گرد عناصر کو پاکستان کے سرحدی افغان ایریاز میں جمع کر رہے ہیں اور اپنی نئی گریٹ گیم شرور کر رہے ہیں، پاکستان عالمی استعمار کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے، اس کو کمزور کرنا عالم یہود و ہنود کا پہلا ایجنڈا ہے، ہمیں اپنے ہمسایوں سے تعلقات کو بہتر کرنا ہو گا اور ان کا اعتماد حاصل کر کے باہمی تعلقات کو نئے سرے سے جوڑنا ہو گا، افغانستان و ایران کیساتھ بہتر تعلقات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، چین کیساتھ سی پیک منصوبہ ہماری اقتصادی شہ رگ بن چکا ہے، اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ہندوستان سمیت تمام ہمسایوں سے تعلقات کو بہتر پوزیشن پر لانا ہوگا، خواہ مخواہ کی محاذ آرائی سے اجتناب کرنا ہو گا اور ملک میں ایسے عناصر کو لگام دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہمارے اوپر دنیا انگلیاں اٹھاتی ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ہم یہی کہیں گے کہ ملک کے تمام مقتدر حلقوں اور اداروں کی طرف سے اس عزم، کوشش اور ارادے کی ضرورت ہے، جو قائد و اقبال نے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کے بعد یہ مملکت خداداد ہمارے حوالے کی تھی، وہ عزم وہ ارادہ وہ عہد یاد کریں اور دہرائیں اور اس پر عمل درآمد کیلئے سر توڑ کوششیں کریں اور اسی کے نتیجہ میں ملک سے کرپشن اور دہشت گردی جیسی بیماریوں سے حقیقی معنی میں آزادی حاصل ہو، تو وہ دن یقینا حقیقی یوم آزادی ہوگا اور قائد و اقبال کا پاکستان ہمارے سامنے ہوگا۔ انشاء اللہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply