یادیں ۔۔۔ عدنان ستار

 

بس سٹاپ پر رک چکی تھی۔ وہ تھوڑی دیر سیٹ پر بیٹھا رہا۔ کھڑکی سے باہر ویسا ہی بارہ سال پرانا سماں بندھا ہوا تھا۔ وہ اٹھا اور دروازے سے اتر کر ایک گہرا سانس لیا۔ ادھر ادھر دیکھا، مسکرایا اور اپنے آپ سے بات کرتے منزل کی طرف چل نکلا۔
***
حیدر ایک بڑی کمپنی میں اہم عہدے پر فائز ہے۔ زندگی امیدوں سے زیادہ خوب صورت ملی۔ گھر بار سب خیریت سے۔ آگے کی منزل روشن۔ ماضی کا کوئی پچھتاوا نہیں۔ سوائے ایک غم کے۔ کچھ دن پہلے یوں ہی اپنی الماری سے پرانے کاغزات الگ کرتے ہوئے اس کی نظر ہونیورسٹی کی فائل پر رکی۔ وہ دیکھتا رہا، کھولا اور سیدھا فائل کی آخر میں رکھے لفافے کو چھوا۔
***
وہ دو گھنٹے پیدل چلتا یونیورسٹی روڈ پہنچا۔ یہ ساری سڑک اس سے ملحقہ علاقہ اسے آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ یاد ہے۔ آگے پیٹرول پمپ(جو اب دوسری کمپنی کا لیبل لگائے ہوئے ہے) اس کے بائیں طرف مڑتا رستہ، وہاں کونے میں موجود بیکری اور اس کے سامنے گھر میں بنا ہوا ہاسٹل۔
***
وی لفافہ ہاتھ میں لیے بے حسی سے آئینے میں اپنے وجود کے خد و خال دیکھتا رہا۔ بدل گیا ہے سب؟ بھول گیا سب؟ کیسا تھا، کیا تھا، کیا اب بھی وہی ہوں میں؟ کیا سب فسانہ تھا؟ وہ سوچتا رہتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے ایک بار پھر کچھ دیر ہی سہی وہاں سے ہو آئے۔
***

وہ تھوڑی دیر ہاسٹل کے برابر ہاسٹل کے ہی مالک عارفین صاحب کے گھر ٹھہرتا ہے۔ وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ بہت دیر ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔
کب جاو گے واپس؟
کل صبح کی واپسی ہے۔
کیوں اتنے سال بعد آئے ہو؟ کچھ دن تو رہو یہاں!
نہیں! یہاں کی یادیں کمزور ہوگئی تھیں۔ کچھ وقت کافی ہے انہیں پختہ کرنے کے لیے۔
یادیں کیا تھیں؟ سوچا تو یہی تھا سارا شہر چھان مارے گا۔ کہیں کوئی دوست کہیں کوئی یاد اچانک ٹکرا جائے۔
گرمیوں کی چھٹی کی وجہ سے ہاسٹل تقریبا خالی تھا۔ کچھ ہی لڑکے موجود تھے۔ عارفین صاحب نے وہی کمرہ اسے رات گزارنے کے کیے دے دیا جہاں اس نے چار بہاریں گزاریں تھیں۔
کھڑکی کے ساتھ ہی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
موبائل میں “رنجشیں ہی سہی دل دکھانے کے لیے آ۔ آ پھر سے مجھے چھوڑجانے کے کیے آ” مہدی حسن کی آواز میں چل رہا ہے۔

ہوا خاموش ہے۔ یادیں باتیں کرہی ہیں۔
یونیورسٹی کا پہلا سال۔ امیدیں، پڑھائی، دوستی!
دوسرا سال۔ یاروں کی محفلیں، مستی، محبت!
تیسرا سال۔ اظہار محبت اور امیدیں!
آخری سال۔ بیوفائی،اکیلا پن،تاریکی!
تاریکی سے تو نکل آیا۔ لیکن اس بے وفا کی باتیں؟

غصہ آہستہ آہستہ گھر بناتا ہے۔ لیکن آج شاید وہ ہار گیا۔ آج رودیا۔ دیر، بہت دیر روتا رہا۔ وہیں بیٹھا اپنے باہر دیکھتا رہا۔ شاید آج پہلی بار اپنے وجود سے باہر نظر کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ وہیں بیٹھا رہا۔ اذانوں کی آوازوں نے متوجہ کیا۔
وہ ہاسٹل سے باہر نکلا اور بس سٹاپ کی جانب چل پڑا۔
گھر واپس آیا فائل اٹھائی لفافہ نکالا۔ اسے چوما اور جلادیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply