نہ رادھا ناچے گی۔۔۔۔سید عدیل رضا عابدی

انتخابات2018کی آمد آمد ہے اور یہ انتخابات اپنے انعقاد سے قبل ہی متنازع ہوچکے ہیں۔ ایک جانب ن لیگ کی طرف سے یہ دعوے کئے جارہے ہیں کہ پنجاب میں ان کے خلاف دھاندلی کا پروگرام اسٹبلشمنٹ نے ترتیب دے دیا ہے۔ خبریں ہیں کہ ن لیگ نے 300افراد پر مشتمل انسداد دھاندلی سیل ترتیب دیا ہے جس میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، ملکی و غیر ملکی مبصرین بھی شامل ہیں۔
بادی النظر میں ن لیگ جو کہ اس وقت اسٹبلشمنٹ کی سب سے بڑی مخالف ہے اسے دھاندلی کے  علاوہ اور کوئی خوف نہیں۔
دوسری جانب کراچی کی صورتحال ملاحظہ کریں تو یہاں معاملات یکسر مختلف ہیں۔ کراچی میں کی جانے والی  حلقہ بندیاں انتہائی متنازع ہیں جبکہ دھاندلی کی منصوبہ بندی بھی کرلی گئی ہے اور اس دھاندلی میں خود ایم کیو ایم بھی حصے دار ہوگی۔ یہ دھاندلی کسی کو ہرانے کیلئے نہیں بلکہ وینٹی لیٹر پر سانس لیتی نظریے سے عاری ایم کیو ایم (پاکستان) کی اپنی بقا کیلئے بہت ضروری ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان اس وقت مہاجروں کے درمیان اسٹبلشمنٹ کی سب سے بڑی ’’ بی ٹیم‘‘ ہے۔ وہ مہاجر جو ہمیشہ سے اسٹبلشمنٹ کی مخالف سمت میں رخت سفر باندھے رہے اب مہاجر صوبے، روزگار، حلقہ بندیوں جیسے انتخابی ’’ منجن ‘‘ کے عوض اپنا حق رائے دہی  ’’فروخت ‘‘ کرنے کو تیار ہیں۔
یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ 22اگست کے بعد الطاف حسین پر جس نعرے کو بنیاد بنا کر پابندی عائد کی گئی وہ ریاست کا انتہائی اقدام ہے۔ کسی بھی جیتے جاگتے شخص کی آواز دبا دینا اور اس کی تصویروں پر پابندی عائد کرنا ایک آئینی خطا ضرور ہے لیکن ریاستی اداروں کے تجاوز کرتے اختیارات سے باہر نہیں۔22اگست کی رات قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایم کیو ایم کے متعدد رہنماؤں کو حراست میں لیا، یونٹ اور سیکٹر دفاتر سیل کردئیے گئے جو بعد اذاں ڈھائے بھی گئے لیکن کیا ہی مشکل تھا کہ اسٹبشلمنٹ ایم کیو ایم پر پابندی ہی عائد کردیتی، نہ ہوتا بانس نہ بجتی بانسری۔۔۔ گرفتاریوں اور تنظیمی دفاتر ڈھانے سے نجات ضرور حاصل رہتی, کنویں, پانی کے ٹینک اور سرنگیں کھود کر توپ خانے بھی برآمد نہ کرنے پڑتے!
23اگست کی دوپہر ایک نئی ایم کیو ایم وجود میں آئی جس نے اپنے بانی سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے خود کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے نام سے متعارف کروایا۔
اب یہی ایم کیو ایم پاکستان آج 40سالہ قربانیوں پر اپنا حق جتارہی ہے۔ شہر کراچی میں جتنے بھی تعمیراتی کام بانی متحدہ کی سرپرستی میں ہوئے اُن کا سہرا ان کے سر اور جو کچھ تخریب کاری تھی وہ اس کے داغ الطاف حسین کے سپردِ دامن!
کراچی میں بسنے والے مہاجرین جنہوں نے جبر اختیار کرنے والے آمروں کے خلاف خود کو ماضی میں سیسہ پلائی دیوار بھی ثابت کیا جس کی ایک مثال ایوب خان اور دوسری ضیا الحق کے دور میں ملتی ہے۔ اب وہی مہاجرین نام نہاد جذبہ حب الوطنی سے قدرے سرشار ہیں اور ایم کیو ایم پاکستان کو ووٹ دینے کیلئے مستعد بیٹھے ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ 22اگست کے ’’ سانحے‘‘ نے ان کے قومی تشخص کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا تھا جتنا 23 اگست کو خلعت ِ شاہی پہنے وجود میں آنے والی ایم کیو ایم پاکستان نے؟ کراچی مملکت جناح داد کا واحد شہر ہے جہاں سب سے زیادہ متنازع حلقہ بندیاں کی گئیں اور یہ حلقہ بندیوں نےجہاں مہاجروں کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونکی وہیں ایم کیو ایم پاکستان کی زبانی جمع خرچیاں اور خامشیاں زہر قاتل ثابت ہوئیں۔ دوسری جانب موجودہ متنازع حلقہ بندیاں جس مردم شماری کی بنیاد پر کی گئیں ہیں اس میں شہر قائد کی آدھی آبادی ہی عالم ِ غیب منتقل کردی گئی۔ اگر ایم کیو ایم پاکستان چاہتی تو مردم شماری کے نتائج آنے کے بعد عدالت عالیہ میں چیلنج کرسکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا، موجودہ قائدین (بشمول فاروق ستار، عامرخان، خواجہ اظہار، خالد مقبول) اپنے ایم اینز اے، ایم پی ایز احتجاجاََ مستعفی کرواسکتے تھے لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا۔
انتخابات2018کا نقارہ بجا تو ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں اور مردم شماری پر زبانی جمع خرچ کرنا شروع کیا اور تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اب نہ رادھا ناچ سکتی تھی اور نہ اسے نچانے کیلئے 9 من تیل کہیں سے لایا جاسکتا تھا لیکن ان سب کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان کے پاس ایک آپشن تھا اور وہ بائیکاٹ کا۔۔۔! لیکن ایم کیو ایم پاکستان نے ایساکرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی کیوں کہ ان کے مُنتج یہ بات گوارہ نہیں کرتے۔۔!
ایم کیو ایم پاکستان نے23اگست کو جنم لے کر 40سالہ جدوجہد اور تمام کاوشوں کو اپنے نام کرلیا لیکن جس معاملے میں سب سے پہلے چشم پوشی اختیار کی وہ ’’ گمشدہ افراد‘‘ سے متعلق سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست تھی جس کی سماعت پر لگاتار عدالت نے انہیں حاضر ہونے کے کیلئے نوٹس جاری کیے  لیکن یہ نہ حاضر ہوئے نہ لاپتا افراد بازیاب!
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں نہ تو مہاجروں سے کوئی مطلب و خلوص ہے اور نہ ہی اس تنظیم سے جس پر یہ قابض ہیں ورنہ کم ازکم کامران خان ٹیسوری جیسے مہاجر دشمن شخص ان کی تنظیم کا حصہ نہ بنتا۔۔۔!
مزیدبرآں شنید یہ ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اس وقت اسٹبلشمنٹ کے قدموں میں پوری طرح لوٹ رہی ہے۔ مخبر صادق کے مطابق معاملات قومی اسمبلی کی فقط تین نشستوں تک ہی محدود ہوچکے ہیں، این اے 254،255اور این اے243 ایم کیو ایم کسی بھی صورت میں حاصل کرنا چاہتی ہے چاہے اس کے لئے اس اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر جی ڈی اے سے اتحاد کرنا پڑے یا پی ٹی آئی سے!
ایسی صورت میں مہاجر چاہے نظریاتی ہو یا ’’برساتی‘‘۔۔۔ اس کے لئے بائیکاٹ کرنا ضروری ہے نام نہاد سیاسی و جمہوری عمل کے تسلسل کے لئے نہیں بلکہ اپنے قومی تشخص کی برقراری کے لئے !!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply