یورپ اور عورت/محمد سعید ارشد

لوریئل (L’Oréal) فرانس کا مشہور میک اپ برانڈ ہے۔ یہ برانڈ دنیا میں خواتین کیلئے میک اپ بنانے کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ یہ کتنی بڑی کمپنی ہے اِس کا اندازہ آپ اِس بات سے لگاسکتے ہیں کہ دسمبر 2023ء تک اِس کمپنی نے صرف خواتین کی جو بیوٹی پراڈکٹ فروخت کی تھیں، اُن کی مالیت 38 ارب ڈالر سے زائد کی تھی۔ یہ صرف ایک کمپنی کی فروخت ہے۔ اِس وقت دنیا میں خواتین کیلئے میک اپ بنانے کی انڈسٹری کی ٹوٹل مالیت 180 ارب ڈالر سے بھی زائد ہے۔ بات صرف یہیں  تک محدود نہیں ۔خواتین ہی کیلئے مخصوص فیشن ایبل کپڑوں کی انڈسٹری کی مالیت 180 ارب ڈالر سے بھی زائد ہے ۔ اگر ان سب میں خواتین کیلئے جوتے اور باقی چیزیں بنانے والی انڈسٹری کو بھی جمع کرلیا جائے تو ان سب کی مالیت پاکستان کی ٹوٹل معیشت سے بھی زیادہ ہے۔

ایک ایسی انڈ سٹری جو ہر سال اربوں ڈالرز کے حساب سے ترقی کر رہی ہےکیا آپ جانتے ہیں اُس انڈسٹری کو سب سے زیادہ خطرہ کس چیز سے ہے۔ ؟اِس اربوں ڈالر اندسٹری کو سب سے زیادہ خطرہ اُس عورت سے ہےکہ جوحجاب پہنتی ہے ، پردہ کرتی ہے اور فضول نمودو نمائش کرنے سے خود کو روکے رکھتی ہے ۔ کیوں کہ جو عورت پردہ کرتی یا حجاب پہنتی ہےاُسے نمو د و نمائش کرنے کیلئے بیوٹی پراڈکٹ اور فیشن ایبل کپڑے پہننے کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ ایک طرح سے اِس اربوں ڈالر کی انڈسٹری پر تھوک دیتی ہے جو اِن کمپنیوں اور خاص کراُن یورپی ممالک کہ جن میں یہ کمپنیاں موجود ہیں ، اُن کیلئے یہ بات کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لئے یہ ممالک باقاعدہ حجاب پر پابندی لگانے کیلئے کمپین کرتے ہیں ، قانون پاس کرتے ہیں اور ایسی این جی اوز کو فنڈ ز فراہم کرتے ہیں جو عورتوں کی آزادی کی بات کرتی ہیں۔یہاں تک کہ یہ ممالک حجاب پر پابندی لگانے سے بھی نہیں کتراتے ۔ فرانس چونکہ دنیا میں بیوٹی پراڈکٹ اور فیشن انڈسٹری کاسب سے بڑا حَب ہے تو سب سے پہلے فرانس نے ہی اس خطرے کے سد باب کیلئے اقدامات اٹھائے۔

فرانس دنیا کا سب سے پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے حجاب پر پابندی عائد کی ۔ اس کے بعد فرانس کی دیکھا دیکھی یورپ کے کئی ممالک نے بھی حجاب پر پابندی عائد کردی۔ یورپ میں یہ پابندی خواتین کی آزادی کی آڑ میں لگائی جاتی ہے۔ کیا آپ لوگوں نے کبھی اِس بات پر غور کیا کہ یورپ میں صرف خواتین کی آزادی ہی کی بات کیوں کی جاتی ہےاورخواتین کی عزت و احترام کو موضوع بحث کیوں نہیں بنایا جاتا ۔ کیونکہ یورپ کو عورت کی عزت و احترام سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ یورپی معاشرے کی بنیاد صرف مادہ پرستی پر کھڑی ہے ۔اُن کیلئے پیسے سے بڑھ کر کوئی چیز معنی نہیں رکھتی ۔اسی لئےاُن کے نزدیک عورت صرف ایک مارکیٹ ہے کہ جس کیلئے پراڈکٹ بنا کر خوب سارے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ اس لئے انہیں عورت کیلئےصرف مادر پدر آزاد ی ہی چاہئے ۔ انہیں ایک ایسی عورت چاہئے جو خاندانی بندشوں سے آزاد ہو ، جسےاپنے باپ ،بھائی یا شوہر کی طرف سے کسی قسم کی پابندی کا سامنا نا ہو ۔

اگر کوئی عورت خاندانی نظام میں رہنا پسند کرتی ہے ، حجاب پہنتی ہے اور اپنے باپ یا شوہر کی عزت کو اپنی عزت سمجھتی ہے تو گویا وہ عورت اِن کی سب سے بڑی دشمن ہےاور ایسی عورت کے خلاف قانون بھی پاس ہونگے، اُسے نوکری بھی نہیں کرنی دی جائے گی اور اُسے ایک دہشت گرد کی نظر سے بھی دیکھا جائے گا۔ یہ کتنی منافقانہ بات ہے کہ یورپ میں ایک عورت کم سے کم لباس پہن سکتی ہے، جس مرضی مرد کے ساتھ ریلیشن بنا سکتی ہے اورعورت کےاس عمل کو محفوظ بنانے کیلئے باقاعدہ قانون بھی موجود ہے مگر وہی دوسری عورت اپنی مرضی سے حجاب تک نہیں پہن سکتی ۔ اگر وہ ایسا کرے گی تو اس کے بنیادی حقوق بھی اس سے چھین لئے جائیں گے۔ جو یورپ انسانی حقوق کی رٹ لگاتے نہیں تھکتا ،اِس معاملے میں چپ سادھ کر بیٹھ جاتا ہے۔

اسلام نے عورت کو سب سے زیادہ عزت دی ہے اس بات سے یورپ کبھی اختلاف نہیں کرتا ۔ یورپ ہی کیوں ساری دنیا ہی یہ تسلیم کرتی ہے کہ عورت کو سب سے زیادہ عزت و احترام اسلام نے دی ہے۔ مگر اُن کا اعتراض صرف یہ ہے کہ عورت پر اسلام کی طرف سے جو پابندیاں عائد ہے وہ ختم ہونی چاہیے ۔اُن کے نزدیک عورت کو مکمل آزاد ہو نی چاہیے تاکہ عورت گھر کی ذینت بننے کی بجائے بازار کی رونق بن کر رہ جائےکہ جسےبعد میں سجا کر پیسا کمایا جاسکے۔ اسلام میں صرف عورت پرہی نہیں مرد پر بھی بہت ساری پابندیاں عائد ہے۔ ان پابندیوں سے کسی کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

یورپ کے نزدیک عورت کی مادر پدر آزادی میں حائل صرف ایک ہی رکاوٹ ہے اور وہ ہے خاندانی نظام۔ جس دن خاندانی نظام ختم ہوگیا اُس دن عورت کو گھر سے نکال کر بازار میں لے آنا آسان ہو جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے عورتوں کےلئے ریلیوں کا انتظام کیا جاتا ہے اور اِن ریلیوں کو کبھی حقوق نسواں اور کبھی عورت مارچ کا نام دیا جاتا ہے۔ جس میں خاص کر ایسے بینرز بنوائے جاتے ہیں ، اُن پر ایسی تحریریں لکھوائی جاتی ہے جو صرف خاندانی نظام کو ٹارگٹ کرتی ہے ۔ ایسی تحریریں جو صرف باپ، بھائی یا شوہر کو نشانے پر رکھتی ہے۔ ” کھانا خود گرم کرو، اپنے موزے خود ڈوھونڈو، اپنے کپڑے خود استری کرو ، ہمیں آزادی دو۔۔ وغیرہ وغیرہ” ۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ سب چیزیں وہ حقوق ہے کہ جن کیلئے عورت مارچ کیا جائے ۔ کیا ان حقوق کیلئے عورتوں کو گھروں سے باہر نکالا جاتا ہے اور ریلیاں نکلوائی جاتی ہے ۔ کیا یہ وہ حقوق ہے جس کیلئے اتنا ہنگامہ کیا جاتا ہے۔ کیا یہ وہ حقوق ہے جن کیلئے سڑکوں پر ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں… نہیں بالکل بھی نہیں ….بہت احترام کے ساتھ یہ حقوق نہیں ، یہ صرف بغاوت ہے۔ یہ بغاوت ہے خاندانی نظام سے اور اسلامی معاشرے سے ۔اُس اسلامی معاشرے سے کہ جس میں عورتوں کیلئے بے پناہ عزت و احترام موجود ہے۔ان ریلیوں کے ذریعے عورتوں کو صرف سڑکوں پر لاکر اِس بغاوت پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں اور اُن پر ظلم کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں عورتوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا، انہیں تعلیم حاصل کرنے کے مساوی حقوق فراہم نہیں کیے جاتے، شادی سے پہلے ان کی مرضی نہیں پوچھی جاتی، عورتوں کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر عورت مارچ میں ان تمام مسائل کے خلاف بینرز کیوں نہیں لکھے جاتے ، ان کو اپنی ریلیوں کا موضوع کیوں نہیں بنایا جاتا ۔کیا صرف کھانا گرم ناکرنے اور موزے ڈھونڈ کر نا دینے میں ہی عورت کے حقوق پنہاں ہے۔کیاصرف اپنے باپ ،بھائی یا شوہر کی عزت نہ  کرنے میں ہی عورت کو خوشی نصیب ہوسکتی ہے۔ کیا عورت کو صرف اپنے محرم رشتوں سے ہی آزادی حاصل کی ضرورت ہے۔ آپ عورت کو تمام رشتوں سے آزادی دلا کر کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وہ سوالات ہے کہ جن کے بارے میں سوچنے اور غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں جب تک عورتوں کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کی جاتی تب تک باقی سب صرف ڈھکوسلےہیں اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply