“بہشتی زیور” کا نیا ورژن درکار ہے/سلیم جاوید

مولانا اشرٖف علی تھا نوی صاحب ،20 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی سب سے باثر دینی شخصیت تھے جن کے حلقہ ارادت میں نوابانِ ہند، ادباء و شعرا اور ذمہ دارانِ حکومت بھی شامل تھے۔
موصوف نے اپنی شخصی وجاہت کو مسلمانوں کی رہنمائی   کےلئے ہرمیدان میں استعمال کیا خواہ، تفسیروتعلیم ہو، تحریک پاکستان کی پشت پناہی ہویا فردی تزکیہ واصلاح۔پرمیرے خیال میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ” بہشتی زیور”نامی کتاب کی تصنیف ہے جس نے مسلمانان دہلی کے کلچرپر، بالخصوص،بڑے مثبت اثرات مرتب کئے۔
دیکھیے، کسی بھی معاشرے کاپہلا یونٹ  ایک خاندان ہوتا ہے۔خاندان پریشان تو پوری سوسائٹی پریشان۔اور خاندان کی بنیادعورت ہے۔عورت،ٹینشن میں ہو توپورا گھرانہ مضطرب۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ کسی فیملی کی اقداراورمعیشت ( گویا دین ودنیا)  عورت کی جسمانی و ذہنی آسودگی پہ منحصرہیں۔
اب “بہشتی زیور”کی تالیف کا پسِ منظرذرا غور سے سمجھیے گا کہ معاش، صحت اور عقیدہ کیونکر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
مولانا نے دیکھا کہ عورت کی ٹینشن کی بنیاد اسکےمردکا معاشی طور پر کمزور ہوناہے۔
دن بھر کولہوکےبیل کی طرح کمانے والےمرد کی پوری نہیں پڑتی توگھرچلانے کےلئے سب سے پہلے آرام وصحت کی قربانی میاں بیوی دیتے ہیں، نتیجہ!گھر کی بیماری کی صورت مزید معاشی بوجھ اور مزید ٹینشن۔

اس ٹینشن میں پہلا حملہ مرد کی جنسی قوت پر ہوتا ہے۔لیجیے ایک الگ پاکھنڈ کھل گیا۔معاشرتی شرما شرمی کی بنا پریہ کمزوری، نہ میاں کسی کو بتا سکتا ہے نہ بیوی۔اب یہاں سےعقائد کی تباہی بھی شروع ہوئی۔ڈوبتے کو تنکے کاسہارا۔جعلی پیر فقیر،سنت سادھو، تعویذ گنڈے اورچل سوچل۔۔  یہ مثلث کچھ یوں بنی کہ پہلے معاش کا مسئلہ، جس سے جنسی کمزوری اور پھر عقائد کی تباہی۔
اس گھمبیرتاکاحل مولانا نے کیا سوچا؟اسکو خاکسارانہی تین عنوانات سے پیش کرتا ہے:
پہلا کام یہ کیا جائے کہ عورت کو فنیّ تعلیم دی جائے جس سے وہ مرد کا معاشی بازو بنے۔
پس”بہشتی زیور”کاایک حصہ،حروف تہجی کاسکھانا، خوشخطی، کشیدہ کاری، گھریلو صنعت جیسے صابن سازی،بسکٹ سازی وغیرہ وغیرہ پرمشتمل ہے۔
آج اگر، مولانا جیسی بصیرت کاحامل کوئی  عالم بہشتی زیور کا نیا ورژن لکھے تو ضرور اس باب میں مستورات کے لئے کمپیوٹر کورسزشامل کرے گا۔
دوسرا کام گھریلو صحت کے حوالے سے ہے۔بالخصوص مرد کی پوشیدہ کمزوری ، جس کا اظہار مشکل ہوتا ہے اورجوفریقین کی نفسیاتی وروحانی اذیت کا اصل سبب ہے ،اس کا کوئی  ایسا آسان حل نکالا جائے کہ گھر کی بات، گھر میں رہ جائے۔
مولانا نے اپنےایک مرید سے(جواس زمانے کےحکیمِ حاذق تھے) مختلف بیماریوں کے گھریلونسخوں پرمشتمل ایک باب لکھوایا۔اس میں بچوں کی عام بیماریوں سے لیکر، قوت باہ بڑھانے تک کے وہ نسخے شامل کیےجنہیں ایک بیوی کسی سے پوچھے کہے بغیر گھر میں تیارکرسکتی ہے۔یوں  دینی کتاب میں لپیٹ کر، نئی  دلہن کو بنیادی طبی تعلیم مہیا کردی گئی  جسے وہ شرمائے بغیر  الماری میں رکھ سکتی تھی۔
آج اگر،مولانا کے فہم سے استفادہ کیا جائے تو نہ صرف،لڑکیوں کا الگ میڈیکل کالج کھولا جائے گا بلکہ نئے بہشتی زیور میں   ایلوپیتھک، آیورویدک، ہومیوپیتھک نسخے بھی شامل ہوں گے۔
تیسرا کام یہ کیا جائے کہ عورتوں کی جہالت کی وجہ سے جوغلط دین رائج ہے جوانکی دنیا کو بھی مشکل بنا رہا ہے، اسکی ا صلاح کی جائے۔
دیکھیے نمازروزہ کے مسائل تومرد بھی عورتوں کوبتا سکتے ہیں لیکن میاں بیوی کے بعض مسائل ایسے ہیں جن کو مرد بھی شرم کے مارے نہیں پوچھ پاتے  توعورت کا ذکر ہی کیا؟
آپ کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسلام میں میاں بیوی کی ہمبستری بھی عبادت ہے اور ہر عبادت کی طرح   اسکے اپنے مسائل ہیں۔

مولانا نے اس وقت کی دیندار سوسائٹی میں پھیلے  ان مخصوص مسائل کو کما حقہ سمجھا جن سے مسلمان گھرانوں کی صحت ومعاش متاثر رہی تھی اور اسکے ازالہ کا موزوں حل سوچا۔
میں ایک مثال سے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کروں گا مگر آپکی پوری توجہ درکار ہے۔

پہلے ایک درست مسئلہ سمجھیں۔میاں بیوی   ایک رات میں کئی  بار صحبت کریں بھی تو غسل جنابت ایک ہی بار فرض ہے اوریہ کہ غسل جنابت فرض ہو تب بھی غسل کیے بغیر  کھانا کھانا حرام نہیں ہے۔
اب غلط مسئلہ یوں مشہور ہے کہ ہر ہمبستری کے بعد  ہر بار نہانا ضروری ہے اور اس حالت میں کھانا کھانا حرام ہے۔

اس غلط فہمی کا نتیجہ ملاحظہ کرنے کیلئے   آپ پرانے ہندوستان کے ایک گھر کا منظر متصور کریں۔
سخت سردی کی رات ہے۔بھراپرا گھر ہے۔نہانے کا نلکا یا حمام  صحن کےپرلے کونے میں ہے۔اب ایک عورت بیچاری خدا کا حکم سمجھ کر  دینی ذمہ داری نبھانے  ہفتہ میں تین رات  باہر ٹھنڈ میں نہاتی ہے جبکہ دن بھر گھر گرہستی بھی کرنا ہے تو کتنے دن چل سکتی ہے؟
ظاہر ہے کہ زندگی سے یا دین سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
آگے چلیے۔۔
رمضان کی سردیوں میں  ایک سادہ مگر دیندارمسلمان مرد  سحری کے آخری ٹائم پر جاگتا ہے اوراسکوغسلِ جنابت بھی کرنا ہے۔وہ یہ سمجھتا ہے کہ غسل بغیر  کھانا حرام ہے۔ٹھنڈے پانی سےغسل کا یارا نہیں اور بن کھائے پیے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں تویہ کیا کرے گا؟
ظاہر ہے، روزہ چھوڑ دے گا مگر روزہ چھوڑنے پرایک سادہ مسلمان کو  دن بھر روزہ نہ رکھنے کا نفسیاتی احساسِ جرم رہتا ہے جو اسکی قوتِ عمل کو کمزور کرتا ہے۔
آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ دین کا غلط فہم   ایک حساس گھرانے کےلئے  دنیا میں عذاب بن جاتا ہے۔
اب اگرکوئی  عالمِ دین  اس گھرانے کو درست مسئلہ سمجھادے تو انکی زندگی کتنی آسان ہوجائیگی۔

مولانا اشرف علی تھانوی نے کیا کیا؟ اگر وہ صرف ان جنسی مسائل پہ ہی کتاب لکھتے، تب بھی عورتیں اسے شرم کے مارے پاس نہ رکھ پاتیں۔پس مولانا نے  ان بنیادی مسائل کو دیگر عام مسائل کے لفافے میں لپیٹ کر کتاب لکھ دی
علاوہ ازیں، سوسائٹی میں پھیلے عام غلط مسائل بھی کچھ کم عذاب نہیں تھے  (جیسے کالی بلّی اگر راستہ کاٹ جائے تو اس دن گھر سے مت نکلو وغیرہ)

یوں بظاہر یہ کتاب   کشیدہ کاری، صنعت و حرفت اور دینی مبادیات کی کتاب ہے مگر مولانا نے ان جنسی و دینی مسائل کو جو عوام میں غلط سلط مشہور تھے اور عورتیں فطری حیا کی بنا پر پوچھ بھی نہیں سکتی تھیں،( جیسے دوران صحبت، کس کس حدود تک عورت پرغسل واجب ہوتا ہےاورکہاں نہیں ہوتا وغیرہ) ،ان کو ایک ایسی دینی کتاب میں واضح کردیا   جسے رکھنا اور پڑھنا گویا کارِ ثواب تھا۔
یہ کتاب لکھنے سے زیادہ بڑا کارنامہ اسکومستورات میں رسائی  دینا تھا، اس انداز میں کہ ان کوپڑھنے اور پاس رکھنے میں ججھک نہ ہو۔

چونکہ جورواج اشرافیہ میں چل پڑتا ہے پھرعوام بھی فخر سے اسکی نقل کرتے ہیں۔مولانا نےاپنے ان مریدوں کو جوسوسائٹی کاسرکردہ طبقہ تھا،حکم دیا کہ اس کتاب کو بیٹی کے جہیز کا جزو بنائیں۔نام بھی اسکا”بہشتی زیور”اسی مناسبت سے تجویزکیا گیا۔کچھ ہی عرصہ میں یہ حال ہوگیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کےسامانِ جہیزمیں  یہ کتاب ایک لازمی عنصر ہوگئی  اوریوں، خاموشی سے اتنا بڑا کام ہوگیا جس نے آئندہ نسلوں کی تربیت میں ایک اہم کردارادا کیا۔

اگر آپ کو اس زمانے کی دہلی کی مہذب معاشرت کی کوئی  سن گن ہو تو آپ داد دیں گے کہ اس کتاب نے عورت کی زندگی  کتنا آسان کردی تھی۔

مولانا اشرف علی تھانوی کی امتِ اسلام کے لئے دیگردینی وسیاسی خدمات سے قطع نظر، خاکسار، صرف اسی”بہشتی زیور”والی سکیم پرہی  مولانا کواپنےزمانے کا “حکیم الامت”سمجھتاہے۔

اب ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔چونکہ یہ کتاب،صرف عورتوں کےلئے  اس نیت سے لکھی گئی  تھی کہ وہ کسی مرد کی مدد کے بغیر  خود تنہائی  میں پڑھ سمجھ سکیں تو اس میں اس زمانے کی عالمانہ اور مقفی زبان کی بجائے  روزمرہ کی زبان استعمال کی گئی  جس پر  خواجہ حسن نظامی نے اپنے اخبار میں”بہشتی زیور”کواردو کی پہلی فحش کتاب قراردیا۔پھر  ہفتہ بعد اپنی غلط فہمی پرمعذرت شائع کرتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ مولوی اشرف علی کواُردو لکھنا نہیں آتی۔

اسی ضمن میں عرض کرتا ہوں کہ واقعی یہ کتاب کنواری لڑکی کیلئے نہیں ہے چہ جائیکہ معصوم بچیوں کیلئے۔ یہ کتاب اصلاً اس لڑکی کیلئے لکھی گئی جس کی چند روز بعد شادی ہونی ہے۔اسکو بھی جہیز میں دی جاتی تھی تاکہ وہ پرائیویسی میں پڑھ سکے۔ حیرت ہوتی ہے کہ بنات کے مدارس میں چھوٹی بچیوں کو یہ کتاب پڑھائی  جارہی ہے بلکہ بعض جگہ تو مرد مولوی صاحبان اسکو پڑھاتے ہیں۔
برسبیل تذکرہ، کبھی مدارس دینیہ کے نصاب میں طب، ریاضی اور فلکیات بھی شامل ہوا کرتے تھے۔ بوجوہ،یہ کورس ختم ہوتے چلے گئے جس کے ذمہ دار، علما  نہیں  مسلم معاشرہ ہے۔

بہرکیف! آجکل بہترین عصری اداروں سے سند یافتہ نوجوان بھی مدارس دینیہ میں دینی علوم حاصل کرتے نظر آتے ہیں۔
میں نوجوان علمائے امت سے درخواست کروں گا عورتوں کی دنیاوی زندگی کی بہتری کےلئے، بہشتی زیور نامی کتاب کی روح کو سمجھتے ہوئے، اسکا ایک نیا ورژن لکھیں بلکہ  خدا اسباب بہم پہنچائے تو مستورات کےلئے خصوصی ادارے و کارخانے بھی قائم کریں۔

یہ آپکے اسلاف کو بہترین خراجِ تحسین بھی ہوگا اور علمائے امت کے نزدیک، صنفِ نازک کی فلاح و بہبود کی ترجیحات کا عملی ثبوت بھی ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاک سیکولر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply