لنگوٹ کا سُچّاَ (دوسرا،آخری حصّہ)۔۔۔مرزا مدثر نواز

عفت و پاکبازی ان ساری اخلاقی خوبیوں کی جان ہے جن کا لگاؤ عزت و آبرو سے ہے‘ اسی لیے اسلام نے اس کو ان اخلاقی محاسن میں گنوایا ہے جو مسلمانوں کے چہرے کا نور ہیں۔ کتابِ حق میں ایک مقام پر ارشاد ہو تا ہے کہ زنا کے قریب نہ جاؤ‘ بے شک یہ بڑی برائی اور بُرا چلن ہے۔ یہ نصیحت جس طرز سے کی گئی ہے وہ بلاغت کی جان ہے‘ یہ نہیں فرمایا کہ ”تم زنا نہ کرنا“ بلکہ یہ کہا کہ ”تم زنا کے قریب نہ جانا“۔ اس طرزِ  ادا نے نا  صرف یہ کہ اس فعل بدہی سے بچنے کی تاکید کی‘ بلکہ اس سے قریب ہو کر گزرنے کی بھی ممانعت کی‘ اس سے یہ نکتہ پیدا ہوا کہ جس طرح اس بدکاری سے بچنا شرافت ہے‘ اس کی تقریب اور تمہید کے کاموں سے بھی بچنا شرافت کا اقتضا ہے‘ کسی غیر محرم کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے یا بے حیائی کے ارادے  سے دیکھنا‘ تنہائی میں ملنا جلنا‘ بے وجہ اس کے بدن کو چھونا یا اور کسی طرح سے اس کی بات چیت اور آمدورفت سے ناجائز لطف اٹھانا یا دوسری غیر شریفانہ حرکات کرنا‘ ایمانی عزت اور اخلاقی شرافت کے سراسر منافی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :لنگوٹ کا سُچّاَ (حصہ اول)۔۔۔مرزا مدثر نواز

ایک حدیث میں ہے کہ ”زانی جس وقت زنا کرتا ہے‘ شرابی جس وقت شراب پیتا ہے‘ چور جس وقت چوری کرتا ہے اور لوٹنے والا جس وقت سب کی آنکھوں کے سامنے لوٹتا ہے تو مسلمان نہیں رہتا“کیونکہ ایمان نام یقین کا ہے اور اللہ پر اور اللہ کے احکام پر یقین رکھ کر اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتا‘ اس حالت میں ہوتا یہ ہے کہ مجرم کے ایمان کا چراغ جذبات کی آندھی میں گل ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر کے لیے وہ سب کچھ بھول جاتا ہے اور پھر جب اس کا نشہ ہَرن ہوتا ہے تو سب کچھ جاننے اور سمجھنے لگتا ہے۔

پاک بازی کے اخروی شرف کے ساتھ ساتھ اس کی دنیاوی برکتیں بھی کچھ کم نہیں‘ ایک جگہ  زمانہ قدیم کے تین آدمیوں کا قصہ بیان کیا  گیا ہے جو ایک ساتھ سفر کر رہے تھے کہ دفعتاً  پانی برسنے لگا‘ تینوں نے پانی سے بچنے کے لیے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی‘ سوء اتفاق سے پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر لڑھک آیا جس سے غار کا منہ بند ہو گیا‘ اب نجات کی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ اپنے اپنے اعمال صالحہ کے واسطہ سے اللہ سے دعا کریں‘ چنانچہ اس طرح ہر ایک نے دعا کی اور ان اعمال کی برکت سے پتھر رفتہ رفتہ ہٹ گیا‘ ان میں پاکباز آدمی کی دعا کچھ اس طرح ہو گی ”خداوندا! میری ایک چچا زاد بہن تھی جس پر میں بڑے ڈورے ڈالتا تھا لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوپاتا تھا‘ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس کو غربت نے آ گھیرا‘ مجبور ہو کر میرے پاس مدد کے لیے آئی لیکن میں نے رقم کے بدلے اپنی خواہش کا اظہار کیااور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی آخر کار حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے راضی ہو گئی‘ جب عین وقت آیا تو اس نے کہا کہ اللہ سے ڈرو تو مجھ پر تیرا ڈر غالب آ گیا اور میں پیچھے ہٹ گیا‘ اللہ تعالیٰ  اگر تو جانتا ہے کہ میں نے صرف تیری مرضی کے لیے ایسا کیا ہے تو اس پتھر کو ہٹا لے چنانچہ وہ سِرک گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پروردگار سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔(ختم شد)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply