بائیولوجی ۔ بنیادی سوالات ۔ جین (2) ۔۔وہاراامباکر

کوئی بھی خاصیت کیسے والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے؟ آخر والدین اور بچے ایک جیسے ہی کیوں ہوتے ہیں؟ اس پر جو خیال بڑا عرصہ مقبول رہا، وہ یہ کہ سپرم کے اندر ہی ننھا منا سا انسان ہوتا ہے۔ مکمل طور پر بنا ہوا جو ایک چھوٹے سے پیکج میں ہوتا ہے اور یہ انسان بنتا ہے۔ یہ چھوٹا انسان ہومنکلس ہے۔ اور اسی چھوٹے انسان کے اپنے اندر اس سے اگلی نسل کے انسان ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ پہلے انسان کے ساتھ ہی رکھ دیا گیا تھا۔ نسلِ انسانی کے آغاز پر تمام انسان اسی طریقے سے زمین پر آ گئے تھے۔ ایک کے اندر بند اگلا ہومنکولس۔ یہ تھیوری اس قدر مقبول رہی کہ مائیکروسکوپ کی ایجاد ہو جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔ 1699 میں ڈچ مائیکروسکوپسٹ نے دعوی کیا کہ انہیں انسانی سپرم میں بہت سے چھوٹے انسان نظر آ گئے ہیں۔ (یہ ویسا ہی تخیل تھا جو بادلوں پر چہرے دکھا دیتا ہیں)۔ سترہویں صدی میں سپرم کی تصویر کھوپڑی اور اس کے پیچھے لگے ایک لمبے بال کے طور پر بنائی جاتی تھی۔ یہ پری فارمیشن ازم کا خیال تھا۔ منتقل کوڈ نہیں پورا انسان ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پری فارمیشن سے ہر کوئی متفق نہیں تھا۔ یہ اس چیز کی وضاحت بالکل نہیں کرتا تھا کہ جب سپرم بیضے سے ملتا ہے تو آخر ہوتا کیا ہے۔ اس کا جواب 1768 میں برلن کے ایمبریولوجسٹ کاسپر وولف نے دینے کی کوشش کی۔ ان کا خیال ارسطو سے ملتا جلتا تھا کہ ایمبیرو میں کوئی انفارمیشن موجود ہے۔ کوئی ہدایات موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب بائیولوجسٹ، فلاسفر، مذہبی سکالر اور ایمبریولوجسٹ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں گرما گرم بحثیں کر رہے تھے تو حقیقت یہ تھی اس سوال کے جواب کے لئے ارسطو اور فیثاغورث سے زیادہ آگے نہیں بڑھا جا سکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیسویں صدی کا وسط وہ وقت تھا جب بائیولوجی ایک جامد سا نظریہ لئے ہوئے تھی۔ جس طرح ایک فزسٹ گیند کی ہوا میں حرکت کی وضاحت کرتا ہے، ویسا بائیولوجی میں کیوں نہیں؟ بائیولوجی ایک تسلسل، ایک پراسس، ایک پراگریشن، ایک تاریخ کی طرح کیوں نہیں؟ یہ سوال کرنے والے دو لوگ تھے۔ دونوں باغبان تھے، دونوں فطرت کے مشاہدے کا جنون رکھتے تھے، دونوں تھیولوجی سے بائیولوجی کی طرف آئے تھے اور دونوں بائیولوجی کی بنیاد کو سمجھنا چاہتے تھے۔ مینڈیل کا سوال مائیکروسکوپک تھا۔ ایک نسل سے انفارمیشن اگلی نسل کو کیسے منتقل ہوتی ہے۔ ڈارون کا سوال میکروسکوپک تھا۔ جانداروں کی ہزار نسلوں میں انفارمیشن پہنچتے پہنچے بدل کتنی جاتی ہے؟ ان دونوں کے پیش کردہ خیالات الگ الگ چیزوں کا جواب دیتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ان دونوں کے وژن ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے اور انہوں نے جدید بائیولوجی کے سب سے اہم ملاپ کو جنم دیا۔ یہ ملاپ جدید بائیولوجی کی بنیاد بنی۔ وراثت کی سمجھ کا یہ نظریہ ماڈرن سنتھیسز کہلایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگل پر ڈارون 27 دسمبر 1831 کو روانہ ہوئے۔ 20 اکتوبر 1835 کو گالاپاگوس جزائر پہنچے۔ جزیروں کے اس جھرمٹ میں پرندوں اور جانوروں کے مشاہدے سے نکلنے والے خیالات سے انہوں نے تھیوری تشکیل دی۔ ایک اور سفر ویلیس نے کیا تھا جو برازیل کا تھا۔ دونوں ہی بائیولوجی کی اہم ترین تھیوری تک پہنچ رہے تھے۔ فطری چناوٗ کے ذریعے ایولیوشن پر ڈارون اور ویلیس کے پیپر یکم جولائی 1858 کو لندن میں لینین سوسائٹی میں پڑھے گئے۔ یہ کتنا اہم تھا؟ اس کا اندازہ فوری طور پر کسی کو نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ لینین سوسائٹی کے صدر نے سال کے آخر میں تبصرہ کیا کہ، “بائیولوجی میں نئی دریافتوں کے حوالے سے 1858 ایک بنجر سال رہا ہے۔ کوئی بھی خاص دریافت دیکھنے کو نہیں ملی”۔ اس سے اگلے برس 24 نومبر 1859 کو جمعرات کی سرد صبح ڈارون کی کتاب “اوریجن آف سپیشیز” شائع ہوئی۔ اس کی قیمت پندرہ شلنگ کی قیمت رکھی گئی۔ پہلے ایڈیشن کی چھپوائی جانے والی ڈھائی سو کاپیاں پہلے روز ہی فروخت ہوگئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈارون کا بریک تھرو اہم تھا لیکن نامکمل تھا۔ اس میں جو خلا سب سے بڑا تھا، وہ یہ کہ اس میں وراثت کی تھیوری نہیں تھی۔ آخر ایک نسل سے اگلی نسل تک کوئی بھی خاصیت کیسے منتقل ہوتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈارون نے اپنے باریک بین مشاہدے اور برسوں کی فکر کے بعد ایولیوشن کی تھیوری تو پیش کر دی تھی لیکن وراثت کا اس میں موجود نہ ہونا ڈارون کو سب سے زیادہ پریشان کرتا تھا۔ وراثت کی ایسی تھیوری جو استحکام بھی دے اور تبدیلی کی گنجائش بھی۔ ڈارون نے اس پر جو خیال پیش کیا وہ یہ کہ جسم میں گیمولز پھرتے رہتے ہیں جو جسم کی حالت کے بارے میں انفارمیشن کو اکٹھا کرتے رہتے ہیں اور پھر والد اور والدہ کے ابتدائی جرم سیلز میں یہ ویسے مل جاتے ہیں جیسے رنگ کے ڈبے میں رنگ ملتے ہیں۔ ڈارون کا پیش کردہ خیال ارسطو اور فیثاغورث کے خیالات کا ملاپ تھا اور اپنی کتاب اوریجن آف سپیشز سے دس سال بعد 1867 میں ان کی کتاب “جانوروں اور پودوں میں تنوع” میں لکھا گیا۔

ڈارون کی اس کتاب اور پین جینیسز کی تھیوری پر تنقید غیرمتوقع طور پر فلیمنگ جینکنز سے آئی جو ریاضی دان اور انجینیر تھے۔ انہوں نے یہ کتاب تفصیل سے پڑھی تھی اور اس میں فاش غلطی تلاش کر لی تھی۔ جینکنز نے استدلال کے لئے کہانی پیش کی، “فرض کریں کہ ایک سفید فام کسی ایسے جزیرے پر پہنچتا ہے جہاں سیاہ فام بستے ہیں۔ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ اس کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے اور وہ بہت سی شادیاں کر لیتا ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے بچوں میں اس میں سے نصف خاصیتیں آئیں کی۔ پوتوں میں ایک چوتھائی۔ اس سے آگے آٹھواں حصہ اور یوں چند نسلوں میں اس کی “سفید فامی کی خاصیت” ختم ہو جائے گی، خواہ یہ خاصیت اتنی ہی کارآمد اور فِٹ کیوں نہ ہو کہ اس کو بادشاہ بنا دے اور اپنی خاصیتیں آگے منتقل کرنے کے لئے مدد کرے”۔ جینکنز کی کہانی کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر تنوع آ بھی جائے تو وہ جلد ہی اوسط بن جائے گا۔ تنوع کے بعد یہ برقرار کیسے رہے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈارون کو جینکنز کی منطق نے جھنجھوڑ دیا۔ انہوں نے لکھا، “فلیمنگ کی تنقید میرے لئے کسی بھی مضمون سے زیادہ مفید رہی ہے”۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ ارتقا کو کام کرنے کے لئے وراثت کا طریقے رنگوں کے ملاپ جیسا نہیں ہو سکتا تھا۔ انفارمیشن کے “ایٹم” درکار تھے۔ ناقابلِ تقسیم پیکٹ جو والدین سے بچے میں جا سکیں۔

کیا ایسے کسی طریقے کا ثبوت تھا؟ اگر ڈارون اپنی لائیبریری کو اچھی طرح سے کنگھال لیتے تو ایک غیرمعروف ماہرِ نباتات کے غیرمعروف جریدے میں شائع ہونے والے غیرمعریف پیپر کا حوالہ مل جاتا جس کا عنوان “پودوں کو ملانے پر تجربات” تھا جو مشکل جرمن زبان میں لکھا گیا تھا اور ریاضی کے ٹیبل سے بھرا ہوا تھا۔ 1866 میں لکھے گئے اس پیپر کو اگر ڈارون کی ذہانت شاید انہیں اس جواب تک پہنچا دیتی جس کو وہ ڈھونڈ رہے تھے اور یقیناً وہ اس پر کی جانے والی محنت، نفاست اور اس سے نکلنے والے نتائج کو داد دئے بغیر نہ رہ سکتے۔

بائیولوجی کا یہ وہ معمہ تھا جس کو بڑی ہی محنت اور احتیاط سے مٹر کے پودوں کی مدد سے ڈاپلر کے شاگرد مینڈیل ایک خانقاہ کے قطعہ اراضی میں برسوں کی محنت سے حل کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply