کوئی امید بَر نہیں آتی/پروفیسر رفعت مظہر

رَبِ لَم یزل کا فرمان ہے ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کونہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کونہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی اور نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی ومددگار ہوسکتا ہے“ سورۃ الرعد آیت 13)۔ آج قومِ مسلم کی یہ حالت ہے کہ لگ بھگ 2ارب آبادی ہونے کے باجودیہ دنیا کی کمزورترین قوم ہے۔ وجہ یہ کہ ہم اللہ نہیں امریکہ پر انحصار کیے بیٹھے ہیں۔ باوجودیکہ رَبِ کائنات نے وضاحت سے فرمادیا کہ اُس کے مقابلے میں اُن کاکوئی حامی ومددگار نہیں ہوگا۔ آج ایک کروڑ سے بھی کم آبادی رکھنے والا اسرائیل غزہ پر ظلم وبربریت کی نئی داستانیں رقم کررہا ہے حالانکہ عالمِ اسلام کے مسلمانوں کے پاس جدیدترین اسلحہ سے لیس 50لاکھ سے زائد فوج موجود ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت مگر خاموش تماشائی۔ عربوں کے پاس تیل کے سمندر لیکن غزہ کے ہسپتالوں اور ایمبولینسز کے لیے ایندھن نہیں۔ پاکستان، ترکی، ایران اور مصرکے جنگی جہاز اور میزائل غزہ کے معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل نہ روک سکے۔ مصر کا دریائے نیل غزہ کے معصوموں کے ہونٹوں کو تَر کرنے سے قاصر لیکن ہم پیپسی، کوک، سٹنگ اور سپرائٹ سے لُطف اندوز ہونا چھوڑ سکے نہ کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے برگر۔ حماس کے سربراہ اسمائیل ہنیہ نے وزیرِاعظم پاکستان شہبازشریف کو خط لکھ کر دوسری بار وزیرِاعظم بننے پر مبارکباد دیتے ہوئے اپیل کی کہ پاکستان سیاسی، سفارتی اور قانونی پلیٹ فارم پرموثر اقدامات کرے۔ اسمائیل ہنیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم تو پاکستان کی شہ رَگ کشمیرکو مودی کے ہاتھوں ہڑپ ہوتا دیکھ کربھی کچھ نہ کرسکے اور پاکستان کے ایک سابق وزیرِاعظم نے پارلیمنٹ میں عالمِ اشتعال میں کہہ دیا ”اب میں کیاکروں، کیا ہندوستان پر حملہ کردوں؟“۔ اِن حالات میں پاکستان سے کوئی اُمید رکھنا عبث۔ یہ سب کچھ محض اِس بناپر کہ ہم نے اللہ پر بھروسہ چھوڑکر غیروں کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں سجا لیا۔

جب 28مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں نے اپنارنگ بدلاتو صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالمِ اسلام کی فضائیں تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھیں اور ہر اسلامی ملک نے یہ جانا کہ وہ ایٹمی طاقت بن گیا ہے۔ مبارک سلامت کے شور سے طاغوت لرزہ بَراندام ہوااور پورے عالمِ اسلام نے پاکستان کے لیے دیدہ ودِل فرشِ راہ کیے۔ تاریخ کے اوراق میں مگر یہ بھی لکھا گیاکہ جس شخص نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اُسے پھانسی پہ جھولنا پڑا، جس نے ایٹمی دھماکے کیے اُسے پورے خاندان سمیت جلاوطنی کادُکھ جھیلنا پڑا اور ایٹمی پروگرام کے خالق کواپنے ہی ملک میں نظربندی کا اَلم سہنا پڑا۔ آج پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت یہ تسلیم کررہی ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت غلط تھی۔ اسی لیے بھٹوکو اسمبلیوں میں شہید قرار دینے کی قراردادیں منظور کی جارہی ہیں لیکن ”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت“۔ ہمارے نزدیک ذوالفقارعلی بھٹو شہید، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں مرحوم اور میاں نوازشریف پاکستان کے ہیرو ہیں جنہیں تاریخ ہمیشہ یادرکھے گی۔

پاکستان کے دگرگوں ہوتے حالات کاحال یہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“۔ قرضوں کی ادائیگی کی لٹکتی تلوار سَرپر اور آئی ایم ایف نِت نئی شرائط لگاتا ہوا۔ وہ دَورلَد گیا جب باربار کہاگیا ”خان آئے گی، بیرونی ممالک میں پڑے 200ارب ڈالر واپس لائے گی اور قرض خواہوں کے مُنہ پردے مارے گی“۔ آج اُس ”مفرور“ سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ بیرونی ممالک سے حاصل کیاگیا 200ارب ڈالر لے کر کہاں غائب ہوگیا۔ یہ اُسی منحنی دَورکی کرشمہ سازیاں ہیں جب 25ہزار ارب قرضہ لیاگیا جو پاکستان کے کُل قرضے کے 80فیصد کے برابر بنتا ہے۔ لطیفہ یہ کہ اُس دَورکے وزیرِخزانہ شوکت ترین نے کہاکہ یہ قرضہ 80فیصد کے برابر نہیں، 75فیصد کے برابر ہے۔ سوال یہ کہ وہ قرضہ گیا کہاں جبکہ نہ نیا پاکستان بنا اور نہ ہی ریاستِ مدینہ۔ وہ جوکہتے تھے ”کیا ہم کوئی غلام ہیں“؟ آج وہی عام انتخابات میں دھاندلی کاشور مچاتے ہوئے امریکہ سے مداخلت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ 90دنوں میں ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے والے ملک کی تقدیر تو خیر کیابدلتے البتہ ساڑھے 1300 دنوں میں ڈیفالٹ کے کنارے تک ضرور پہچا دیا۔ بلاخوفِ تردید کہاجا سکتا ہے کہ یہ سب کِیادھرا اُس 3سال 8ماہ کے دَورِحکومت کا ہے۔

موجودہ اتحادی حکومت کو عنانِ اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ 8 دن ہوئے ہیں اِسی لیے ہمارا قلم اُن کے بارے میں خاموش البتہ غلط کاموں پر تنقیدوتنقیص اور اچھے کاموں کی تحسین ہمارا حق۔ ہم ”گزشت آنچہ گزشت“کے ہرگز قائل نہیں اِس لیے ماضی کاماتم کرتے ہوئے حال کی اصلاح اور روشن مستقبل کی اُمید کی جوت جگاتے رہیں گے۔ اِس دَورِ ابتلاء میں جب قوم نانِ جویں کی محتاج ہے کیا آئی ایم ایف کوخط لکھ کر قرضے کی اگلی قسط دینے سے منع کرناملک دشمنی نہیں؟۔ کیا 15مارچ کو واشنگٹن ڈی سی میں حکومت اور افواجِ پاکستان کے خلاف مظاہرہ کرکے آئی ایم ایف کوقرضے کی اگلی قسط کو بانی تحریکِ انصاف کی رہائی سے مشروط کرنے والے ملک دشمن نہیں؟۔ کیا سانحہ 9مئی کے منصوبہ ساز اور تخریب کار ملک دشمن نہیں؟۔ کیا یورپی یونین کوخط لکھنے والے ملک دشمن نہیں؟۔ پی ٹی آئی کے بانی کے حکم پراُس وقت کے خیبرپختونخوا کے وزیرِخزانہ تیمورسلیم جھگڑا نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر قرض کی قسط دینے سے منع کیااور اب ایک دفعہ پھر جیل میں بیٹھے بانی تحریک نے وہی عمل دُہرایا، کیایہ عمل ملک دشمنی نہیں؟۔اِدھر آئی ایم ایف کاوفد پاکستان پہنچااور اُدھر واشنگٹن ڈی سی میں کچھ شَرپسند پاکستانیوں نے مظاہرے شروع کردیئے۔ کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ ایسے شَرپسندوں کو وطن کی مٹی سے پیار ہے؟۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف، یورپی یونین اور ورلڈبینک نے بانی تحریکِ انصاف کو رہاکرنا ہے؟۔ بانی تحریکِ انصاف کو تو پاکستانی عدالتوں نے سزادی ہے۔ اگر پاکستانی عدالتوں سے انصاف کی اُمید اُٹھ چکی توپھر کیوں نہ اِن عدالتوں کو ختم کرکے سب کچھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سپرد کردیا جائے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیاپر افواہوں کا بازار گرم ہے کہ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے اعلیٰ سطحی وفدکے پاکستان کے دَورے کے دوران ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے مبینہ ڈیل ہوگئی ہے۔ حقیقت مگریہ کہ دفترِخارجہ کی ترجمان زہرہ بلوچ کے مطابق اِس نوعیت کی خبریں قطعی طورپر حقائق کے منافی، عالمی توانائی ایجنسی کاکوئی عہدیدار نہ تواِس وقت پاکستان کادورہ کر رہا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اُس کے ساتھ کسی پالیسی بات چیت کا منصوبہ ہے۔ کیاایسی جھوٹی خبروں اور افواہوں کا بازار گرم کرنے والے ملک دشمن نہیں؟۔ اگرتحریکِ انصاف کی مختصر سی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو اُس پر کئی آرٹیکل 6لاگو ہوتے ہیں لیکن اتحادی حکومت تب بھی خاموش رہی اور اب بھی خاموش ہی ہے۔ سوال ہے کہ کیایہ حکمرانوں کی بُزدلی نہیں؟۔کہے دیتے ہیں کہ اگر حکمرانوں نے راست اقدام نہ کیاتو پھر ”تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں“۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply