کیا ہم بات سمجھنے کے لیے سنتے ہیں ؟-عاصمہ حسن

سٹیفن – ایم -آر-کووے کے مطابق ” کمیونیکیشن یعنی بات چیت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بات سمجھنے کے لیے نہیں سنتے بلکہ جواب دینے کے لیے سنتے ہیں “۔
اگر ہم بات چیت کرنے کا ہنر سیکھ لیں تو ہمارے کئی مسائل حل ہو جائیں اور کامیابی کے راستے کھل جائیں، ـ کمیونیکیشن دراصل رابطہ ہے ‘ اظہارِ خیال ہے ‘ اسے ذرائع ابلاغ بھی کہا جاتا ہے یعنی وہ طریقہ کار جو ہم بات چیت کرنے ،اپنا پیغام یا اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، ـ اس میں صرف بات کا کرنا شامل نہیں ہوتا بلکہ بات کا سننا بھی اہمیت کا حامل ہے۔

ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں وقعت دیں ‘ ہماری بات کو توجہ سے سنیں اور نہ صرف سنیں بلکہ اس پر عمل بھی کریں ـ اسی خیال کے پیشِ نظر ہم خود کو اور اپنی شخصیت کو نکھارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ،ـ بولنے کے انداز میں بہتری لاتے ہیں ‘ مناسب الفاظ کا چناؤ’ شائستہ لہجہ اپناتے ہیں اس ضمن میں شیشے کے آگے مشق بھی کرتے ہیں تاکہ بولنا سیکھ سکیں ،چاہے زبان کوئی بھی ہو لیکن انگریزی زبان کو فوقیت حاصل ہے جیسا کہ یہ کامیابی کی ضامن سمجھی جاتی ہے ـ آج کل فری لانسنگ عام ہے تو اپنے کلائنٹس سے بات کرنے کے لیے انگریزی زبان کا ہی استعمال کیا جاتا ہے ـ اس مقصد کے لیے لغت سے نئے الفاظ سیکھے جاتے ہیں تاکہ لکھی اور کہی بات زیادہ پُر اثر ہو سکے ـ ،لکھنے کے لیے تو کئی ایپس آ گئی ہیں جن کو استعمال کرنے کے لیے بھی عقل اور علم کا ہونا ضروری ہے لیکن جب ہم بولنے کی اور خاص طور پر آمنے سامنے بولنے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے الفاظ’ لہجہ’ لفظوں کا اتار چڑھاؤ’ اندازِ گفتگو بہت اہمیت کا حا مل ہوتا ہے ـ بات چیت کرنے کے انداز سے ہی ہماری شخصیت کا اندازہ ہوجاتا ہے ـ۔

کہتے ہیں کہ یہ الفاظ ہی ہیں جو ہمیں دل میں اتار دیتے ہیں یا دل سے اتار دیتے ہیں ،ـ عام سی بات ہے ہمیں وہی لوگ اچھے لگیں گے ـ جو مہذب’ دھیمے اور شائستہ انداز میں بات کرتے ہیں ان کا ادا کیا گیا ہر لفظ اتنا پیارا ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ انھیں سنا جائے اور بار بار سنا جائے ـ اس کے برعکس وہ شخص جو گالم گلوچ کرے ‘ چیخ کر اور توں تڑاخ  کر ے ‘ چاہے بات صحیح ہی کیوں نہ کر رہا ہو سن کر دل خراب ہو جاتا ہے اور خواہ مخواہ وہ شخص دل سے اتر جاتا ہے اور اس کا بولنا ناگوار گزرتا ہے ـ۔

کیا ہم جانتے ہیں کہ دوسروں کی بات کو توجہ سے سننا بھی کمیونیکیشن کے زمرے میں آتا ہے ـ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری بات سنیں لیکن ہم ان کی پوری یا مکمل بات سننے کو تیار نہیں ہوتے ـ اکثر  ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بندہ بات کر رہا ہو تو ہم درمیان میں ہی اپنی رائے دینا شروع کر دیتے ہیں اس کے بات کے پورا ہونے تک کا انتظار نہیں کرتے یہی نہیں بلکہ اُس ادھوری بات پر اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں ـ۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم دوسرے کی بات کو سنتے تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں ہیں کہ اس شخص نے کس پیرائے میں بات کی یا وہ کس قسم کے حالات و واقعات سے گزر رہا ہے ‘ اس کی بات کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں ـ ہم سمجھتے نہیں ہیں بلکہ صرف سنتے ہیں اور فوری طور پر اپنا ردِعمل ظاہر کر دیتے ہیں ‘ اور اپنی نصیحتوں کا انبار لگا دیتے ہیں’ اپنی انا یا میں کو بیچ میں لے آتے ہیں یا اپنی منفی سوچ کی بدولت اس شخص کے متعلق غلط رائے قائم کر لیتے ہیں ـ۔

بات کو سمجھے بغیر فوری طور پر سخت ردِعمل ظاہر کرنا ہی دراصل ہمارے رشتوں کی چاشنی کو ختم کرتا ہے ـ اسی وجہ سے تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں’ دوستیاں دشمنیوں میں بدل جاتی ہیں ‘ رشتے ناطوں میں دراڑ آ جاتی ہے ـ بہت سارے خوبصورت رشتوں کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے ـ۔

ہمیں خود میں تحمل اور صبر کا مادہ پیدا کرنا چاہیے اور اتنی ہمت اور حوصلہ ہونا چاہیے کہ ہم دوسرے کہ بات کو ‘ اس کی بات کے پیچھے کے حالات و واقعات اور محرکات کو بغیر کوئی حتمی فیصلہ لیے یا رائے قائم کیے سمجھ سکیں ـسب سے اہم بولنے سے پہلے سمجھنا ہے کیونکہ بولے ہوئے الفاظ واپس نہیں آتے ـ۔

جیسا کہ ہم بچوں کے معاملے میں کرتے ہیں کہ فوراً ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دیتے ہیں کہ میں نے کہا تھا نا لیکن تم نے بات نہیں مانی وغیرہ وغیرہ اور اس بچے کی بات کو سمجھتے نہیں ہیں کہ وہ کہنا کیا چاہ رہا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں زیادہ تجربہ رکھتے ہیں لہذا اس کی بات غلط ہے وہ وہی کرے جو ہم نے کہا ہے ـاس طرح ہمارا بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول نہیں بن سکتا ‘ نتیجتاً دوری پیدا ہو جاتی ہے جو انھیں بے راہ روی کا شکار کر دیتی ہے ـ اس کے علاوہ بچوں کی شخصیت پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے ‘ اعتماد کھو دیتے ہیں جس کی وجہ سے بہت بڑا خلاء ان کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے ـ اگر وہ غلط بھی ہیں تو ان کو پیار’ مناسب الفاظ اور شائستہ لہجے میں بات سمجھائی جا سکتی ہے ـ۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارا سیکھنے کا عمل ساری عمر جاری رہتا ہے اور ہم بہت ساری باتیں بچوں سے ہی سیکھتے ہیں لہذا خود کو اس مقام پر نہ لے جائیں جہاں ہم خود کو سب سے زہادہ سمجھدار اور عقلِ کُل سمجھنے لگیں اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھیں یا ملامت کریں اور تعلقات کو خراب کریں ـ۔

اسی طرح جب نوکری حاصل کرنے کے لیے انٹرویو کے لیے جاتے ہیں تو کئی امیدوار سوال پورا سنے اور سمجھے بغیر جلدبازی میں جواب دینے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے نوکری ملنے سے پہلے ہی اس سے ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں ـ۔

یہ بات ہمارے مشاہدے میں یقیناً آئی ہو گی کہ کئی ممالک کے سربراہان جب اپنے ہم منصب سے بات چیت کرتے ہیں تو انٹرپریٹر کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ ان کو انگریزی اور دیگر زبانوں پر عبور حاصل ہوتا ہے لیکن وہ انٹرپریٹر کا استعمال اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کو مناسب وقت مل جائے اور وہ سوچ سمجھ کر جواب دے سکیں ـ اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوال کو سمجھنا کس قدر اہم ہے اور سمجھ کر مناسب لفظوں میں جواب دینا اور بھی زیادہ اہم ہے ـ۔

اسی طرح میاں بیوی’ افسر ماتحت اور دیگر رشتے ہیں جہاں ہم اپنی برتری قائم رکھنا چاہتے ہیں اور سننے’ سمجھنے کی بجائے جواب تُرکی بہ تُرکی دیتے ہیں ـ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے’ خود کو زیادہ پڑھا لکھا’ تجربہ کار اور باشعور ثابت کرنے کے لیے دوسرے کی بات کو سمجھتے نہیں ہیں اور نہ ہی کوشش کرتے ہیں جس سے دلوں میں فرق آجاتا ہے اور لڑائی جھگڑے اور دوریاں جنم لیتی ہیں ـ جس کی وجہ سے بے سکونی کا راج ہو جاتا ہے ـ۔

آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں بیٹھے تمام لوگ خود کو اسکالر اور اپنی فیلڈ میں ایکسپرٹ یا ماہر سمجھتے ہیں اور فوراً جواب دینا اپنا فرضِ اولین’ جس کی وجہ سے لڑائی شروع ہو جاتی ہے اور نازیبا الفاظ کی یلغار بھی- سوشل میڈیا پر ہمارے الفاظ ہی ہماری شخصیت کی پہچان بنتے ہیں ـ فوراً یا ترنت جواب دینا ذہانت میں شامل نہیں بلکہ درست جواب ‘ مناسب وقت پر دینا ہی سمجھداری ہے ـ۔

ہمیں چاہیے کہ دوسروں کی بات کو چاہے مخاطب کوئی بھی ہو اطمینان و تحمل سے سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ نہ سمجھنا ہی تمام مسائل کی جڑ ہے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوئی بھی رائے یا فیصلہ دینے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیں ‘ حالات و واقعات ‘ صورتحال کا جائزہ لیں پھر مناسب اور نرم و شائستہ الفاظ میں اپنا مدعا بیان کریں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو اور رشتوں کی خوبصورتی برقرار رہے ـ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم اکیلے نہیں رہ سکتے’ ہمارے رشتے’ دوست احباب’ جان پہچان کے لوگ’ ساتھی’ رفیق کار سب بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہمارے تعلقات تبھی بہتر ہوں گے جب ہم سمجھنے کے لیے ان کی بات کو سنیں گے نہ کہ جواب دینے کے لیے  ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply