والدین کی بے جا فرما نبرداری اور معاشرے کا بگاڑ۔۔جمیل آصف

ہمارے محلے میں ایک جگہ بات ہو رہی تھی والدین کی اطاعت بہت اچھی بات ہے لیکن ان کی ایسی اطاعت جو دیگر افراد معاشرہ کی زندگی کو اذیت میں مبتلا کر دے، قرآن و سنت ، شریعت اور مہذب معاشرے کی روح سے ممنوع ہے ۔
پاس بیٹھے ایک بزرگ کہنے لگے والدین کے کہنے پر عمل ہونا چاہیے، بے شک وہ طلاق کا بھی حکم دے دیں ۔اس بات پر کافی گرما گرم بحث ہوئی ۔ بعد میں پتہ چلا انہوں نے اپنی بہو کو ایک سال میں ہی طلاق دلوا دی تھی ۔اور اس پر بدکرداری جو ایسے بدبودار گھرانوں کا وصف ہے الزام لگا دیا ۔خیر تحقیق سے پتہ چلا وہ اس لڑکی پر ظلم زیادتی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کچے کانوں کے بیٹے سے بھی ایسا ہی قبیح فعل سر انجام دلواتے تھے ۔ اور وہ جنت میں بلند درجات کے حصول کے لیے بہت خوشی سے ان کی اطاعت کرتا اور والدہ کی آنکھوں کا تارا بنتا ۔اس اطاعت کی عظیم مثال جو اکثر ایسے ازدواجی معاملات میں ہوتی ہے جس کا انجام بالآخر طلاق کی صورت نکلا ۔
موصوف اب ماں کی فرما برداری کرکے پچھتاتا ہے ، کہیں سال سے دوبارہ رشتہ نہ ہونے پر والدین کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہا ہے ۔ اور اس لڑکی پر کی گئی زیادتی پورے سچ کے ساتھ محلے میں بیان کرتا رہتا ہے ۔
یہ ہمارے معاشرے کا بہت بھیانک اور منافقت سے بھرپور رخ ہے ۔ جس کے بارے ہمیں سمجھنا چاہیے ۔
ہر انسان کی زندگی میں ازدواجی پہلو بہت اہمیت رکھتا ہے ۔بلاشبہ ایسا رشتہ جس سے بہت سے رشتے جنم لیتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ بقاء کے لیے جدوجہد اسی رشتے کو کرنی پڑتی ہے ۔ اس رشتے کے وجود میں آتے ہی، ایسے ایسے چہرے بے نقاب ہوتے ہیں ۔جو تقدس کے نقاب اوڑھے اپنے بیان کردہ حقوق سے بھی اوپر براجمان ہوتے ہیں،
ہمارے اردگرد اس رشتے کی شکست و ریخت میں میاں بیوی کی ذاتی کوششوں کے بجائے ان رشتوں سے منسلک دیگر افراد کے ذاتی خود غرضی پر منبی اہداف ہوتے ہیں ۔ جن کو پورا کرنے کے لیے وہ اس تعلق میں دراڑ بلکہ اس کا اختتام کروانے میں بھی دریغ نہیں کرتے ۔
جملہ جذباتی و غیر جذباتی حربوں اور دیگر مکر و فریب کی چالوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کبھی کبھی کامیاب بھی ہو جاتے ہیں ۔ ناکامی کی صورت میں کم از کم اس نوبیاہتا جوڑے کی زندگی میں اتنا زہر ضرور گھول دیتے ہیں ۔جس کی تلخی اور روحانی اذیت زندگی بھر انہیں محسوس ہوتی ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک جان اور کسی کی عمر بھر کی تربیت، محبت سے سینچا ہوا جگر کا ٹکڑا، اس شخص کی ہمت سے زیادہ قیمتی مال کے ساتھ وصول کرنے والا شخص اور اس کے والدین و دیگر افراد خانہ کے  مطالبات پورا کرنے کے باوجود قدر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عزت آبرو کی حفاظت نہ کر پائے تو، اس کے جائز حقوق جو اللہ نے اس کے ذمہ لگائے ہیں اور اس بات کی ہدایت سے یکسر پہلو تہی کرے کہ ان سے حسن سلوک کرو ۔اور اپنے دیگر رشتوں کے کہنے پر اس کے والدین کے مال کو بھی مال غنیمت سمجھے اور اسے وہ حقوق بھی نہ دے جو جنگوں میں غلام بننے والی ایک لونڈی تک کو میسر ہو  ں۔
ایسے شخص کو پھر اللہ کی عدالت میں نہ ماں کی فرما نبرداری بچا پائے گی نہ ہی والد کی دعا ۔نہ اس کا روزہ، نہ حج اور نہ ہی رکوع و سجود کی کثرت ۔
بہترین مرد کی نشانی یہی ہے وہ گھر کے معاملات میں جذباتی بلیک میل ہونے سے بچے، بلاتفرق انصاف کرے ۔اور کچے کانوں کی فطرت سے خود کو محفوظ بنائے ۔
اپنے سے منسلک لوگوں کے حقوق سے ڈرتا رہے ۔جس کی ذمہ داری اسے سونپی گئی اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کے ساتھ ساتھ کسی فتنہ پرور کے فتنہ کا شکار نہ ہوئے ۔
روز قیامت جواب دہی آپ نے ہی دینی ہے نہ کہ اس حقوق تلفی، زیادتی اور اس سے پہنچنے والی روحانی اذیت پر آپ کے والدین نے۔
یاد رکھیں مکافات عمل کی چکی چلتی بہت آہستہ ہے لیکن پیستی خوب ہے ۔ اکثر خود کی اولاد کی تکلیف پھر ماضی کی کی ہوئی زیادتیوں کو سامنے لا کھڑا کردیتی ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply