جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے/یوحنا جان

یہ ایک سرسری الفاظ کا مجموعہ جو مشترک حیثیت سے اس معاشرے کا حصہ بن چکا ہے ۔ ہر بندہ اس کا مرکزی احاطہ کر کے اپنے آپ کو بری الذّمہ قرار دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایمان و عقیدہ میں ایسے مضبوطی کا لبادہ پہن کر دکھاتا ہے شاید اس سے بڑا کوئی ایماندار اور عقیدے کا پکا نہ ملے ۔ عزیز دوستو یہ بات الگ ہے کہ کوئی عقیدے میں جتنا مضبوط ہو جائے ہمارے نامہ اعمال کا انحصار ایمان پر ہوتا ہے۔ رہی بات اس امر کی جو دِکھتا ہے  وہ بِکتا ہے، یہاں تو نہ جانے کیا کیا بِکتا ہے ۔ ان لوگوں کے خیالات گونگے، الفاظ بہرے اور تو اور سراپا نگاری میں بھی ایسے ہی قرار پاتے ہیں ۔ جوں جوں اس معاشرے کے افراد سیاسی، مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے اپنے آپ کو عمدہ ظرف کا نمونہ قرار دے رہے ہیں ویسے ویسے ان کے باطن کا سفر بالکل متضاد نظر آتا ہے۔

مطلب واضح ہے کہ عمارتیں بڑی اور سورج ڈوب رہا ہے۔ وحشت کا چہرہ عروج پر ، چیخ و پکار کی گرج، کاسمیٹک کے دانشوروں کا طوفان جگہ جگہ دکھاوے کے ڈیرے لگائے حسرتوں اور ارمانوں کی روزانہ کی بنیاد پر فروخت کر رہے ہیں ۔ دانشور ، ادیب ،عدل کے ٹھیکیدار، قومیت کے دعوے دار، حکمت اور پاکیزگی کے سائبان سب اونچی آوازوں میں اپنا اپنا چورن اور منجن بیچ رہے ہیں۔ جب کسی شئےکی قیمت وصول کر لی جائے تو اس سےآپ کا کوئی تعلق اور ناطہ نہیں رہتا بلکہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس لیے   میرے لیے  یہ کہنا مناسب ہوگا کہ،
” تعلق ٹوٹتا نہیں بلکہ توڑا جاتا ہے۔”
اور جس نے قیمت ادا کی وہ مالک بن جاتا ہے۔ فروخت کرنے والا کبھی بھی اس کا حق دار نہیں بنتا ۔ چاہے وہ ہر ایک کی دہلیز پر دستک اور صدا بلند کر لے۔ مقدمہ بھی انصاف کے کٹہرے میں چلایا جائے تو پھر بھی وہ گِر جائے گا۔ خیر ایک ہی نعرہ بلند ہے کہ بیچنے والے کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،چاہے وہ ایمان ہے یا عقیدہ ، خیالات ہوں یا جذبات، علم ہے یا حکمت , کاسمیٹک ہے یا ضمیر, ریاست ہے یا قانون، جسم ہے یامرضی، عالم ہو یا جاہل، حسرتیں ہو یا اختیار ، لیڈر ہو یا گیدڑ ، اپنا ہو یا اجنبی ، مجبور ہو یا لاچار سب کے سب چلتے پھرتے بیچنے ( سیل مین) والے ہیں ، جو اپنی دکانداری میں ایسے ہی  نعروں کو بلند کرتے ہیں ۔ جب کسی معاشرے میں ان کا بسیراہو جائے تو جتنےمرضی گہرائی کے الفاظ اور گاہک کو مطمئن کرنے کے ٹوٹکے بنائیں ان کا مرکزی نقطہ اپنا ذاتی منافع کمانے کا ہے اس عمل کو حق داری نہیں بلکہ سودےبازی کہا جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ یہی سودے بازی کا بازار گرم ہو کر دن بدن بیگانگی اور پرائے کالبادہ لیے دکھاوے کو تقویت دے رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہی کافی ہے کہ لیڈر کہلوانے والا لیڈر نہیں، کشکول ان کا بھرتا نہیں ، مذہبی ٹھیکیدار جتنا مرضی رو رو کر منجن بیچ لیں کوئی دھوکہ نہیں۔ اس فن کے جتنے بھی راسخ خیال کر کے دکھائے جائیں لٹکے سر ،خالی ذہن، غیر شناسی، اور بد ذائقہ زبان مسلسل دلیل ہے جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے۔

اس کا باطنی اثر یہی کافی ہو گا کہ اب اخلاقیات بدل گئیں، رشتے بدل گئے، یہاں تک مذہب بھی بدل کر نئے روپ لیے رنگ و نسل، زبان ،کپڑے، پرفیوم ، داڑھی، جوتے، بیوٹی پارلر اور دکھاوے کی نذر ہو چکے ہیں ، نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ اللہ ساڈا اور دوسروں کا خدا قرار دیا گیا ہے جو اب بھی ماضی کے واقعات میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مجھے مستنصر حسین تارڑ کا جملہ یہاں پر یاد آگیا جب 17 مئی2022ء کو تکیہ تارڑ پر ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے کہا،
“ہم وہ لوگ ہیں جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کو گناہ سمجھتے ہیں ۔ اگر یہی بات ہے تو دعا بھی ایک ہاتھ سے مانگنی چاہیے۔”

احساس کی جگہ بے حسی، محبت کی جگہ نفرت، شناسائی کی جگہ بیگانگی، نااہل کا ٹھیکہ اور بددیانتی کو ثواب سمجھ کر حرام کو بھی جائز قرار دینا اس دکھاوے کی نشانیاں ہیں۔ جو رب کائنات کے ہاں قابل قبول نہیں مگر اس سرزمین کے لوگوں نے روایتی طور پر بے ضمیری کو ایمان کا حصّہ بنا لیا ہے۔

آج بھی یہی صورتحال ہے جو ہماری نسل اور اس خطے کے لوگ روایتی مشروبات کی ریڑھی لگا کر دوسروں کو رنگ برنگے شربت پلاتے ہیں اس شربت میں نقلی رنگ، مصنوعی چہرہ، اور مصنوعی خوشبو کو شامل کرکے بیچ رہے اور دکھاوے کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ میرے استاد محترم ڈاکٹر اشفاق احمد ورک فرماتے ہیں:
” عمروں کے گناہ عمروں سے معاف نہیں ہوتے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سارے واقعات اور صورتحال کے پیش نظر صرف ایک ہی شئے منظرعام پر آتی ہے کہ ایمان نظر نہیں آتا، بھائی چارہ آوارہ بھٹک رہا ہے، محبت کہیں دور سے منہ دیکھ رہی ہے ،محنت نے کنارہ کشی ، خوف ِ خدا کو دفن کرکے جھوٹ نے بادشاہی پکڑ لی ہے ۔ اس کے عوض مصنوی منجن بازار میں آ گیا ہے۔ گلی گلی خراب سسٹم کی خراب نیکیاں دکانیں سجائے گاہکوں کو جال میں پھنسا رہی ہیں ۔ کیونکہ ان دکانوں کے باہر اور اندر رکھے مجسمے تو بے جان اور مُردہ ہیں مگر ان کے اوپر مصنوعی رنگ کے کپڑے، خوشبو اور جھوٹ کی مسکراہٹ کھینچ کھینچ کر گاہکوں کو مدعو کر رہی ہے۔ جو کہ وہاں پر جانے والوں کا وہم ہے۔ اس وہم کے ماروں نے شراب کو بھی پانی، رشوت کو چائے پانی اور ضمیر فروشی کو ثواب کا نام دے کر ثابت کر دیا ہے کہ جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے اور جو بِک جاتا ہے اس کی رقم موصول ہوتی ہے بعد میں اس پر کوئی حق نہیں ہے آپ کا چاہے وہ ایمان ہو یا عقیدہ، ضمیر ہو یا انصاف حلال ہو یا حرام ۔ اس لیے اس سرزمین کے رہنے والے میرے نزدیک ایک قبرستان کی حیثیت کی مانند ہیں کیونکہ دونوں جگہ بے زبانوں کا بسیرا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply