تخلیقی صلاحیتیں۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

قدیم یونانیوں کے مطابق انسانی روح دو حصوں میں منقسم ہے، ایک حصہ وہ خزانہ ہے جو خدائی وجدان سے بھر پور ہے، اسی کا نام تخلیقی صلاحیت ہے، اور دوسرا حصّہ اس خزانے یا صلاحیت کے اظہار کیلئے وقف ہے۔
معروف موسیقار بیتھوون اس بات کا اظہار کھلے عام کرتے رہے ہیں کہ موسیقی تخلیق کرتے وقت ان پر جیسے کوئی روح قابض ہو جاتی اور ان کو گویا کہ دھُن ڈکٹیٹ کروائی جاتی، یہی بات برطانوی مصنف کپلنگ, Kipling, نے کہی کہ کتاب لکھتے وقت جیسے کہ ان کا قلم ایک جِن کے قبضے میں رہتا تھا اور اسی جِن نے اُن سے ساری کتابیں لکھوائیں۔
ارسطو وہ پہلا شخص تھا جس نے تخلیقی صلاحیت کو غیر مرئی مداخلت قرار دینے سے انکار کیا اور ایک نیا نظریہ پیش کیا کہ اس صلاحیت کا کلّی انحصار انسان کے باطن اور اس کے دماغ کے درمیان ہم آہنگی پر ہے، رومی سلطنت کے بڑھتے سیاسی اثر اور بعد میں معاشرے اور فرد پر چرچ کی اجارہ داری نے ان سوالات بلکہ علوم کو پسِ پشت ڈال دیا، یونان میں جاری علمی کاوشوں کا سلسلہ پورپ میں نشاۃِ ثانیہ کے دور سے دوبارہ بحال ہو پایا۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں تخلیقی جینئیس کو لے کر فلسفیانہ بحثوں کا آغاز ہوا، اس موضوع پر سب سے زیادہ اسکاٹ لینڈ کے فلسفی اور سیاست دان William Duff نے قلم اٹھایا، ان کے مطابق تخلیق کاری او ہنر مندی سراسر دو مختلف قابلیتیں ہیں، ان کو کسی صورت یکجا نہیں کیا جا سکتا، ان کے نزدیک تخلیقی صلاحیتوں کے وجود اور ان کے اظہار کا دارومدار تین شخصی صفّات پر ہے، تخّیل، تنقید اور جمالیات۔
یہ تین صفّات عموماً ہر فرد میں کم یا زیادہ موجود ہوتی ہیں، Duff کے مطابق تخلیق کار میں یہ تینوں صفّات نہ صرف مکمل اعتدال میں ہوں ، بلکہ ان کا درج بالا ترتیب میں ہونا بھی ضروری ہے۔
یہاں تخّیل سے مراد ذہانت نہیں، خالص ذہانت ایک تجزیاتی فعل یا قابلیت ہے، یہ لطافت کی صفّت سے محروم ہے جبکہ کوئی بھی اعلی تخلیق اعلی درجے کی لطافت کی متقاضی ہے، لہذا ضروری نہیں کہ اعلی ذہن تخلیق کار بھی ہو، اعلی تخّیل شرطِ اوّل ہے۔
خود تنقیدی یا اپنے تخّیل کو تنقید کی چھلنی سے گزارے بغیر آپ کوئی قصّہ، کوئی مضمون، کوئی عام سی تصویر، ایک دو غزل یا نظم وغیرہ تو تراش سکتے ہیں مگر اعلی تخلیق کے خالق نہیں بن سکتے، اعلی تخّیل اگر تنقیدی چھلنی سے نہیں گزر رہا تو وہ زیادہ سے زیادہ رائج موضوع کو دوسرے رنگ یا الفاظ میں تو سامنے لا سکتا ہے مگر اعلی تخلیق نہیں تراش سکتا، کہ اعلی تخلیق رواج سے ہٹ کر صحیح سمت میں محنت کی متقاضی ہے۔
تنقیدی نگاہ ممکن ہے کہ اپنی صفّت میں خوبصورتی کو نظر انداز کئے رکھے، اس کیلئے تخلیق کار میں جمالیاتی صفّت بہت ضروری ہے کہ تخلیق میں اعتدال اور خوبصورتی رہے، اگر تو یہ کوئی علمی تخلیق ہے تو جمالیاتی صفّت تنقید کے ماتحت ہوگی، اگر تخلیق فنونِ لطیفہ سے متعلقہ ہے تو یہاں معاملہ الٹ ہوگا۔
انیسویں صدی میں برطانیہ کے نفسیات دان اور علم الانسان کے ماہر فرینسس گالٹن ایک نئے نظریئے کے ساتھ سامنے آئے کہ تخلیقی صلاحیت مکمل طور پر موروثی ہے، سامنے کا سوال یہ تھا کہ کیا تخلیق کار والدین کے بچے بھی تخلیق کار پیدا ہوتے ہیں؟ ہر شخص جانتا ہے کہ ایسا ضروری نہیں، ہمارے ہاں، چراغ تلے اندھیرا، والا محاورہ شاید گالٹن کے نظریئے کو رد کرنے کیلئے ہی کافی ہوتا، مگر گالٹن کہتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اولاد کیلئے ضروری ہے کہ والد اور والدہ، دونوں ہی نہ صرف خود تخلیق کار ہوں بلکہ دونوں اپنے شجرۂ نسب میں تخلیقی موروثیت لئے ہوئے ہوں، وگرنہ واقعی چراغ تلے اندھیرے والا معاملہ ہو سکتا ہے، اور یہ تاریخی جملہ بھی گالٹن ہی کا ہے کہ، انسان نے جتنی محنت اور ریسرچ گھوڑوں اور کتوں کی نسلوں کو جانچنے اور بہتر سے بہترین نسل پیدا کرنے کی کوشش میں کی، اگر اس کا دسواں حصہ بھی انسانی نسل کی بہتری کیلئے وقف کیا گیا ہوتا تو ہر گلی میں اعلی تخلیق کار نظر آتے۔
فرائیڈ کے مطابق تخلیقی صلاحیت درحقیقت شعور اور لاشعور کے محرکات کے درمیان تضادات کا نام ہے، اور ان تضادات کو تخلیق کار اپنے معاشرے میں موجود ثقافتی رواج، شاعری و مصوری وغیرہ، کی شکل میں سامنے لاتا ہے، راقم الحروف کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ، کیا فرائیڈ کے ،شعور اور لاشعور کے درمیان تضادات، کو خواہشات اور ممکنات کے درمیان فاصلے، کا نام دیا جا سکتا ہے؟
تخلیقی صلاحیتوں کے منبع کو دریافت کرنے کیلئے اس پہ تحقیقی کام جاری ہے اور گزشتہ صدی میں مختلف تجربات و تحقیقات کے بعد بے شمار نظریات سامنے آتے رہے، کہیں اعلی مگر لچکدار سوچ کی تشکیل کو تخلیقی صلاحیت کا منبع قرار دیا گیا، کہیں ادراک، یادداشت، معاشرتی تنوع کو تخلیق کار کی شخصیت کیلئے لازمی تصور کیا جاتا رہا، کہیں خوداعتمادی، آزادئ رائے و اظہارِ ذات، خود قبولیت و دیگر محرکات پہ زور دیا جاتا رہا، کچھ محققین اسے دماغی خلل بھی گردانتے ہیں ، یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور اس سمت میں مزید تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، مگر دو ہزار سال سے زیادہ عرصے کی تحقیق کے بعد، کیا فرد میں تخلیقی صلاحیت کی موجودگی کو آسمانی طاقتوں کی مداخلت سے مبرّا قرار دیا جا سکتا ہے؟
ہندوستان اور فارس کو صوفیاء کی سرزمین کہا جا سکتا ہے، یہاں رائج زبانوں میں، خدا داد صلاحیت، کی اصطلاح اپنے اندر گہرے معنی لئے ہوئے ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply