توہینِ جمہور- نامنظور نا منظور۔۔علی نقوی

ہمارے ملک میں توہین کا بہت شور و غوغا رہتا ہے زیادہ تر ہمارے ملک کے تین طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے یہاں توہین کی بازگشت زیادہ سنائی دیتی ہے ایک مذہبی طبقہ، دوسری عدلیہ اور تیسرے افواج سے منسلک افراد.. لیکن اس ملک کے سب سے بڑے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے کبھی نہ تو یہ سوچا نہ ہی طاقتوروں نے یہ ان کو سوچنے دیا کہ ان کی توہین ہوتی ہے یا نہیں؟؟ اور یہ طبقہ ہے عوام… ظاہر ہے کسی بھی سلطنت میں سب سے بڑا طبقہ عوام پر مشتمل ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ طبقہ عام آدمیوں سے مل کر بنا ہوتا ہے اس لیے خواص کو اس سے زیادہ سروکار نہیں ہوتا اور اسی لیے عوامی اور جمہوری مسائل خواص اور حکمرانوں کی نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں… شاید اسی لیے ہماری اشرافیہ جنابِ اقبال ساجد کے اس شعر کی عملی تصویر بنی رہتی ہے
اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی
جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی
آئیے ذرا اردو لغت سے توہین کے مطالب و مترادفات معلوم کرنے کی کوشش کریں، یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اردو میں مندرجہ ذیل مطالب و مترادفات ملتے ہیں اہانت، بے عزتی، ذلت، تحقیر ان الفاظ کو ذہن میں رکھیے اور یہ دیکھیے کہ اس ملک میں مندرجہ بالا تین اداروں سے متعلق پھیلی ہوئی توہین کی بازگشت میں کس قدر سچائی ہے اگر ہم لغت سے ہی پوچھ لیں کہ توہین کی تعریف کیا ہوگی تو لغت بتاتی ہے کہ
” کسی کی توہین کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حقیر سمجھا جائے، اس منصب و مقام سے کہ جس کا وہ حق دار ہے، نیز یہ کہ کسی مقام و منصب کی اہانت صرف کسی شخص کی اس پر موجودگی کے باعث ہو رہی ہو”

مثلاً اگر ایک شخص “اپنی قابلیت” کی بنیاد پر کسی منصب پر فائز ہو اور کوئی شخص یا گروہ اسُ کو اس منصب کا اہل نہ سمجھتا ہو تو یہ اس شخص کی توہین ہے لیکن اگر کوئی” نا اہل” کسی منصب پر فائز ہو جائے اور کچھ لوگ اسُ نا اہل کی وجہ سے اس منصب کو ہی برا بھلا کہنا شروع کر دیں تو یہ اس منصب کی توہین ہے….
سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کے پاس سب سے بڑا اختیار کون سا ہے جو ریاست ان کو دیتی ہے؟؟ وہ اختیار ہے اپنے حکمران منتخب کرنے کا، ووٹ کا حق اس ملک کے کسی بھی شہری کا سب سے بڑا حق ہے اور اس بات کا ضامن آئینِ پاکستان ہے… آئینِ پاکستان کیا ہے؟؟ آئینِ پاکستان وہ دستاویز ہے کہ جس کا اس ملک کے ہر شہری اور ادارے کے لیے مقدم ہونا لازمی ہے، آئین اس لیے مقدم ہے کیونکہ اس پر مملکت کے ہر شعبے و نظریے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ اعتماد اس لیے ہے کیونکہ یہ آئین ہی ہے جو ہر طبقہ ہائے زندگی کے افراد کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے اور ذمہ داران کو ان حقوق کے پورا کرنے کا پابند بناتا ہے، آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا وہ بنیادی حق کہ جو ریاست کی سب سے مقدم دستاویز نے شہری کو دیا تھا ہمارے ملک کے شہریوں کو مل سکا یا ریاستی ادارے اس کی توہین کرتے رہے…

پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن کے بارے میں کسی نہ کسی Stake Holder کی یہ رائے ضرور رہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے زیادہ تر وہ پارٹیاں کہ جو الیکشن ہار جاتی ہیں یہ شور مچاتی ہیں لیکن اب یہ شور جیت کے دھمالوں کے درمیان سے بھی سنائی دینے لگا ہے، عموماً دھاندلی کا الزام سیاسی جماعتوں پر لگایا جاتا ہے لیکن کل تک ڈرائنگ رومز میں اور آج ٹی وی چینلز پر یہ الزام ریاستی اداروں خصوصاً فوج اور عدلیہ پر بھی عائد کیا جانے لگا ہے اگر ہم نوے کی دہائی کی بات نہ بھی کریں تو بھی 2013 کے الیکشنز پر جنابِ عمران خان نے یہ الزام لگایا تھا کہ یہ “آر اوز” کا الیکشن تھا یعنی اس دھاندلی میں عدلیہ ملوث تھی، اسی طرح جب ثاقب نثار چیف جسٹس بننے لگے تو جنابِ عمران خان نے ہی ان پر نواز شریف کے دوست ہونے الزام لگایا تھا، الیکشن ہو گئے تحریکِ انصاف جیت گئی پہلے ہی دن جنابِ بلاول بھٹو نے عمران خان کو سلیکٹڈ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ وہ ان الیکشنز کو دھاندلی زدہ مانتے ہیں اور اس سے پہلے جب انتخابی مہم جاری تھی تب ہی ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ثاقب نثار (جن کو عمران خان نواز شریف کا دوست کہتے ہیں) دراصل عمران خان کے سلیکشن بورڈ کے ممبر ہیں اس پر عدلیہ نے ایک طرح کی مہرِ تصدیق یوں ثبت کی کہ جسٹس ثاقب نثار کے جاتے ہی آنے والے چیف جسٹس نے ان کے زیادہ تر احکامات کو نہ صرف رد کیا بلکہ ان کو ریورس بھی کر دیا، وقت گزرتا گیا میاں نواز شریف ملک میں آئے اور چلے گئے اور ایک دن لندن میں بیٹھ کر انہوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کی حالیہ تباہی کے ذمہ دار موجودہ آرمی چیف جنابِ قمر جاوید باجوہ ہیں اور اسکی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ جنرل صاحب ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے عمران خان حکومت میں آئے ہیں اور اب چونکہ عمران خان نے معیشت، کشمیر اور نہ جانے کس کس کا ستیا ناس کر دیا ہے اس لیے باجوہ صاحب ہی اس تباہی کا اصل محرک ہیں… اب اگر صرف ان چند واقعات پر ہی غور کریں تو یہ دونوں مقبول ترین عوامی لیڈر کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر میں ایک جملے میں بات سمیت دوں تو وہ کہہ رہے ہیں کہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوئی ہے اور ادارے اس میں ملوث ہیں، کون سے ادارے جی ہاں وہی دونوں ادارے کہ جو توہین کی بابت باقی تمام ملک کے زیادہ حساس ہیں…
علمِ نفسیات کہتا ہے کہ ظالم انسان دراصل ایک ڈرا ہوا انسان ہوتا ہے ہم سے کون ہے کہ جس نے “الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” والا محاورہ نہیں سنا بالی وڈ اور لالی وڈ کی فلموں میں استحصال کرنے والا سردار حقوق کی بات بڑے زور و شور سے کرتا ہے اسی طرح شاید ہمارے ادارے بھی توہین اور اہانت کارڈ اس لیے کھیلتے رہتے ہیں کہ کہیں انکی کارکردگی اور انکے ذمے لگے کاموں کی کارگزاری نہ مانگ لی جائے مثلاً آپ کسی پولیس والے سے ذرا قانون کی بات شروع کریں وہ آگے سے کہے گا کہ
” مجھے قانون نہ سکھائیں”
یہ بات وہ کیوں کرتا ہے؟؟ پہلی بات کیونکہ وہ قانون جانتا ہے، دوسری بات کہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آپ قانون جانتے ہیں، تیسری بات کہ وہ جانتا ہے کہ وہ آپ کا استحصال کر رہا ہے اور چوتھی بات کہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آپ یہ جانتے ہیں کہ وہ آپکا استحصال کر رہا ہے… اب چونکہ اس نے آپ کا استحصال کرنا ہی کرنا ہے اس لیے اب ضروری یہ ہوگیا کہ وہ آپکی توہین کرے یہ کہہ کر کہ
“مجھے قانون نہ سکھائیں”
مثلاً ہم اس ملک میں کسی بھی ایسے کیس کہ جس کی سماعت عدالت میں جاری ہو اس پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے کہا یہ جاتا ہے کہ آپ اپنی رائے پیش کر کے کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مجھے اس بات پر ہنسی آتی ہے اور میں یہ سوچتا ہوں کہ جس جج یا جسٹس پر کسی بھی بکر یا زید کی رائے اثر انداز ہو سکتی ہے اس پر کسی طاقتور کی رائے کا کتنا اثر پڑتا ہوگا؟؟ اسی لیے ہمارے چیف جسٹس کو حال ہی میں ایک تقریب میں یہ کہنا پڑ گیا کہ ہم کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتے… جو کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتا اس کے دماغ میں یہ بات بھی کبھی نہیں آتی مثال کے طور کیا آپ نے کسی ملکی سلامتی مسئلے سے متعلق کسی بھی آرمی چیف کا یہ بیان سنا کہ ہم دفاع کے معاملے میں اس ملک میں سے کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتے پاکستانی دفاع کو لے کر افواج پاکستان مکمل خود مختار ہیں؟؟ نہیں! کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت عموماً عیاں ہوتی ہے اس کو بتانے کی ضرورت نہیں پیش آتی…
اسی طرح کیا کوئی اس ملک میں یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ افواج پاکستان کی انڈیا سے متعلق پالیسی پر کھل کر تنقید کر سکے؟؟ نہیں! کیونکہ یہاں سے توہین کا باب بند ہو کر غداری، انڈین ایجنٹی اور ملک و مذہب دشمنی کا باب شروع ہوتا ہے لہٰذا بڑے سے بڑا طرم خان ہماری افغان پالیسی پر تو بات کر لیتا ہے انڈیا سے متعلق پالیسی پر لب کشا نہیں کرتا… اور صرف یہی نہیں بلکہ ہم نے دیکھا کہ دو آئین شکن فوجی افسر کہ جو آئین کے آرٹیکل چھے کے تحت غدار ہیں ایک باہم متصادم پالیسی اس ملک پر مسلط کرتے ہیں، دونوں ان پالیسیوں کا حکم امریکہ سے وصول کرتے ہیں، اور ان دونوں پالیسیوں کو ملک کے لیے نا گزیر بتاتے ہیں، ان پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں بے قصور پاکستانی شہریوں کے ساتھ ساتھ عوامی لیڈروں کی غیر طبعی اموات ہوتی ہیں لیکن آج تک کسی عوام کے نمائندے نے یہ سوال نہیں کیا کہ جنرل ضیاء الحق جو کہ ایک فوجی تھا اس نے اقتدار پر شب خون مارا، اپنے حلف کی خلاف ورزی کی، اسلام و شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا، اس سب کے دوران افغانستان جلتا رہا، پھانسی کے پھندے سیاسی لیڈر اور سیاسی کارکنوں کے وزن سے شکستہ ہوتے رہے، عوام اپنے ہی پیاروں پر غداری کے الزامات سہتے رہے، کچھ بچوں نے جہاد کے لیے کلاشنکوف اٹھائی اور کچھ نے ہیروئین سے دل لگالیا، سکولوں میں کشمیری اور افغان مجاہدین کے دلفریب قصے سنائے جاتے رہے، ریاست ڈالر وصول کر کر کے اپنی سٹرٹیجک ڈیپتھ ڈھونڈتی رہی، یہاں تک کہ کچھ آم پھٹے اور بہار آئی، ٹھیک گیارہ سال اور ڈیڑھ مہینے کے بعد ایک اور فوجی جنرل آیا کہ جس نے Enlighten Moderation کا نعرہ لگایا اس جہاد کو کہ جو ضیا الحق نے اسلام کی بقا کے لیے شروع کیا تھا اس نے انتہاپسندی بتایا، افغانستان جلتا رہا، پاکستان پر ہر روز ڈرون حملے ہوتے رہے، ایک لاکھ پاکستانی War Against Terrorism میں شہید ہوئے، ریاست ڈالر وصولی کے ساتھ ساتھ اس سٹرٹیجک ڈیپتھ کے مزے لیتی رہی کہ جو انہوں نے گذشتہ قسط میں بنائی تھی، پرویز مشرف گانے گاتے رہے اور اس کے حواری یہ بتاتے رہے کہ بینظیر گاڑی کے لیور لگنے اور اکبر بگٹی پہاڑی تودہ گرنے کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے تھے، کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ادارہ آج ان میں سے کس کی پالیسیوں کو ٹھیک سمجھتا ہے کیونکہ حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے سے باہم متصادم ہیں….

جاتے جاتے کچھ بات ان کی کہ جن کو عوام کندھوں پر اٹھا کر لاتے ہیں جن کے آوے ای آوے اور مخالف کے جاوے ای جاوے کے نعرے عوام لگاتے ہیں مجھے ایک بار بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے کہا تھا کہ مجھے “پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی” کا اعلان ان پاکستانیوں کی توہین لگتی ہے کہ جو نہ اردو بول سکتے ہیں نہ سمجھ، اور اسی نے بتایا کہ یہ اعلان کہ قومی زبان اردو ہوگی انگریزی زبان میں کیا گیا تھا، جب قائد عوام نے آپریشن سرچ لائٹ کے بعد کراچی ائیر پورٹ پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ پاکستان کو بچا لیا گیا ہے تو وہ توہینِ عوام ہی کر رہے تھے، 1988 میں جب ایک نہتی لڑکی کہ جس سے بندوق والے ڈرتے تھے آئی جے آئی کو ہرا کر عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آئی اور کچھ دن بعد اس نے ایک تمغہ جمہوریت جو کہ ان ووٹرز کا حق تھا کہ جن کے ووٹ سے وہ وزیراعظم بنی تھی ایک آرمی چیف کو دے دیا تو وہ توہین عوام و جمہور ہی کر رہی تھی، وہی کامریڈ بینظیر بھٹو اور اس کی سیکولر پیپلزپارٹی کہ جو روشن خیال پاکستانیوں کی آخری امید تھی جس وقت کرن تھاپر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں سینہ ٹھوک کر یہ کہتی پائی گئی کہ
Yes I am the mother of Taliban
تو وہ توہینِ عوام کی ہی مرتکب ہوئی تھیں….
وہ میاں نواز شریف کہ جو کہنے کو تو عوام سے ایک ہیوی مینڈیٹ لے کر مارچ 1997 میں دوسری بار وزیراعظم بنے اور کچھ عرصے کے بعد امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھنے لگے تو وہ توہینِ عوام ہی کر رہے تھے، وہ آصف علی زرداری کہ جس نے اپنی جوانی کے گیارہ سال جیل میں انُ جرائم کی سزا کاٹتے گزار دی کہ جو کبھی ثابت نہ ہو سکے وہی کہ جب اسکی بیوی سڑک پر مار دی گئی تو اس نے کسی جماعت کو قاتل لیگ کہا اور جب اقتدار ملا تو اس قاتل لیگ کے پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنا کر توہینِ عوام کی تھی دو سطریں اس دھوکے کے بارے کہ جو آج تک پاکستان کے عوام کے ساتھ ہونے والا سب سے بڑا دھوکہ ہے دی گریٹ عمران خان۔۔ پاکستانیوں کی آج تک کی جانے والی سب سے بڑی توہین ان صاحب نے کی ہے، نوجوانوں کو خواب دکھائے، مسیحائی کا دعویٰ کیا، چہرے ہی نہیں نظام اور سوچ بدلنے کی قسمیں کھائیں، اور آج ان صاحب کا بنایا ہوا وہ نظام ہے کہ جس میں چاروں ڈکٹیٹروں اور ہر کرپٹ سیاستدان کی خصلت و خباثت موجود ہے….
لیکن جمہور اپنا بدلا لینا جانتا ہے جس کی ایک مثال دو قبریں ہیں ایک ضیا کی اور ایک ذوالفقار علی بھٹو کی ۔۔ضیا کی مبینہ قبر جو اسلام آباد کے بلیو ایریا میں ہے ” ضیا“ کی قبر ہونے کے باوجود تاریک ہے اور دوسری جانب ایک ویرانہ ہے کہ جہاں دس سال تک کسی کو نہ آنے دیا گیا اور آج وہاں کامریڈ بھٹو کا مزار ہے اور اس کامریڈ بھٹو کی قبر پر لوگ منت مانگتے ہیں…

Advertisements
julia rana solicitors london

جمہور اپنا بدلا لینا جانتا ہے کل تک عمران خان سندھ کے لوگوں کو زندہ لاشیں کہتے تھے کیونکہ وہ ہر بار ایک ہی پارٹی کو منتخب کر لیتے ہیں اور کل تک خیبر پختون خوا کی عوام عمران خان اور تحریک انصاف کے بھائیوں کے لیے سیاسی شعور کی علامت تھے لیکن جمہور نے اس بار کے بلدیات میں عمران خان اور ان کے حامیوں کی یہ غلط فہمی پوری طرح دور کر دی کہ جمہور کی توہین ہر بار کی جا سکتی ہے…
آخر میں ایک بات کہ توہینِ عوام وہ واحد ایجنڈہ ہے کہ جس پر اس ملک کی اشرافیہ پہلے دن سے ایک ہی صفحے پر ہے اور یہ صفحہ تب تک نہیں پھٹے گا جب تک لوگ اپنے بنیادی حقوق پہچان کر ان کو استعمال کرنا نہیں شروع کریں گے…..

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply