مقدمہ تاریخ/ڈاکٹر اظہر وحید

یہ کائنات ایک صحیفہِ حسن ہے۔ اس میں ہونے والا ہر واقعہ، ہر فرد، ہر ذی جسم مثل ایک آیت ہے، جسے کتابِ ہستی سے نکالنا ممکن نہیں۔ ہر ذی جسم کا حق ہے کہ اسے اپنے ہی اسم سے پکارا جائے۔ اگر اسم اور جسم جدا کر دیے جائیں تو تفسیرِ کائنات معتبر نہیں رہتی۔ یہاں اگر ہاتھی کو گدھا اور گدھے کو گھوڑا ہونے کا اعزاز دیا جائے تو الفاظ تک غیر معتبر ہو جاتے ہیں۔ یہاں اگر قاتل کو مقتول اور ظالم کو مظلوم قرار دیا جائے تو وہی غدر رونما ہوتا ہے جہاں حریت پسند مفتوح ہونے کے سبب غدار کہلاتا ہے اور غدارِ وطن اپنے زرخرید مورخ کے ہاتھ سے محب الوطنی کا ہار اپنے گلے میں ڈالتا ہے۔
حُسن، حسنِ ترتیب کا نام ہے۔ تاریخ میں ترتیب فراہم کرنے کی ذمہ داری وقت نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ وقت کا تانا الجھ جائے تو واقعات کی بنت صحیح دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے لازم ہے کہ وقت پر نگاہ رکھی جائے اور دیکھا جائے کہ کون سا واقعہ پہلے رونما ہوا اور کون سا بعد میں …… کون سی شخصیت پردہئ وقت پر پہلے نمودار ہوئی ہے اور کون سی بعد میں آ کر براجمان ہوئی ہے۔
تاریخ کی جی ٹی روڈ بس ایک سیدھ میں صاف سپاٹ چلی جا رہی ہے…… کچھ افراد ہیں، جو یہاں پڑاؤ ڈالتے ہیں، اور اسے اپنے وجود سے رونق افروز کرتے ہیں۔ یہاں کچھ غیر معمولی شخصیات کی آمد ہوتی ہے جو یہاں میلے بپا کرتی ہیں اور مسافروں کی شاہراہِ فکر و عمل میں سنگِ میل نصب کرتی ہے۔
وقت کی ترتیب ہمیں سیاق و سباق فراہم کرتی ہے۔ واقعات اپنے سیاق و سباق سے اہم ہوتے ہیں۔ کوئی واقعہ کسی دوسرے واقعے سے جدا نہیں۔ واقعات کا درست سیاق و سباق ہی تاریخ سے درست سبق اخذ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
قرآنِ کریم سے ہدایت لینے کے لیے تقویٰ کی شرط سب سے پہلے رکھ دی گئی ہے۔ ایک متقی شخص ہی سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے نفس کی تحریک کے زیرِ اثر نہیں ہو گا، اور کسی مادی تحریص میں گرفتار ہو کر میزانِ فکر میں خسران کا باعث نہ ہو گا۔ جس طرح حال کے واقعات کی درست تعبیر ایک مخلص انسان ہی کر سکتا ہے، اسی طرح ماضی کے تمام واقعات، جو مثل ربانی آیات کے ہیِں، ان کی درست تعبیر و تفسیر کرنا بھی ایک مزکی النفس انسان ہی سے توقع کی جاتی ہے۔
وحدتِ مسلمین کے حوالے کام کرنے والے مفکرین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے۔ صد شکر کہ تاریخ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے اختلاف کو افتراق بننے سے روکے رکھا، جنہوں نے اختلاف کو فقط اختلافِ رائے کی حد تک رکھا اور یہ بتلایا کہ اختلاف رائے کا مقصد اتفاقِ رائے تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہی وہ اختلاف ہے جسے رحمت کہا گیا ہے۔ یہ ہے وہ اختلاف جو مختلف مکاتبِ فکر کے علما کے درمیان نئے نکات کی نمو کا باعث ہوتا ہے۔ احترام کے بغیر اختلاف برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر دل میں احترام موجود ہو تو اختلاف کے باوجود زبان میں شائستگی برقرار رہتی ہے۔ اگر دل باہم پھٹے ہوئے ہوں تو اختلافی رائے سنتے ہی انسان پھٹ پڑتا ہے۔ سینوں میں برسوں کا دبا ہوا کینہ لفظوں کی صورت میں ایسا اُبلتا ہے کہ ہر طرف آگ لگ جاتی ہے۔ پل بھر میں بھڑک اٹھنے والی آگ کو بجھانے میں اتنا عرصہ لگ جاتا ہے کہ اس دوران میں بوڑھی نسلیں مر کھپ چکی ہوتی ہیں اور نئی نسلیں بڑی ہو کر اس آبائی نفرت کو اپنے عقیدے کا حصہ بنا چکی ہوتی ہیں۔
بہر طور مورخ اور مفسر کا کام کتابِ حقیقت کو کھول کر بیان کر دینا ہے، سلیم الفطرت لوگ یہ کھلی کتاب پڑھ کر ہدایت کا راستہ لیتے ہیں۔ ہدایت کا راستہ اخیتار کرنا اسی کا استحقاق ہے جو تعصب کا راستہ ترک کر چکا ہو۔ ہدایت راہِ وحدت ہے۔ متعصب شخص متفرق شخص ہوتا ہے…… وہ وحدت کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے فرمایا ہے: ”فرقہ پرست حق پرست نہیں ہو سکتا“۔ معلوم ہوا کہ فرقہ پرستی دراصل نفس پرستی ہی کی ایک قسم ہے۔
تاریخی واقعات سے درست اسباق اخذ کرنے کے لیے درست سیاق و سباق کے ساتھ ساتھ درست زاویے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ میز کو الٹا کر رکھ دیا جائے تو کسی کام کا نہیں، اسی طرح تیر کمان اور رائفل کا زاویہ اگر بگڑ جائے تو انسان اپنی ہی جماعت کو قائل کرنے کے بجائے گھائل کرتا رہے گا۔ یہی حال قرآنی آیات و ہدایات کا ہے۔ اگر مقتدی امام کی اقتدا کرنے کے بجائے اسے اپنی ”ہدایات“ پر چلانے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے بابِ ہدایت کا بند ہو جانا عین فطرت ہے۔ کون سی آیت کا مخاطب کون لوگ ہیں، یہ جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ مقتدی کے احکامات اور ہیں، اور امام کا سبق اور!
رانا سہیل اقبال نے اپنی کتاب میں بہت عمدہ نکتہ اٹھایا کہ دین ہر دور میں دینِ اسلام ہی رہا ہے۔ حضرت آدمؑ سے خاتم النبیینﷺ تک سب انبیاء دینِ اسلام ہی لے کر آئے۔ لوگ اسلام سے علیحدہ ہوتے رہے، اسلام وہی رہا۔ لوگوں نے خود کو عیسائی اور یہودی کہنا شروع کر دیا، وگرنہ رب العالمین نے ان کا نام مسلمان ہی رکھا تھا۔ دینِ حق کا انکار کرنے والا کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کفر کسی حقیقت کو چھپانے کا نام ہوتا ہے۔ ہم کلمہ گو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے کسی کا انکار نہیں کرتے، اس لیے ہمیں مسلم ہی کہا جائے گا۔ حضرت عیسیٰؑ کی تشریف آوری کے بعد جنہوں نے حضرت عیسیٰؑ کو تسلیم کیا، وہ مسلمان ہو گئے اور جنہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، وہ یہودی رہ گئے۔ اسی طرح ختم المرسلینؐ کی بعثت کے بعد جن اہلِ کتاب نے آپؐ کو تسلیم کیا، وہ مسلمان کہلائے اور انکار کرنے والے یہودی اور عیسائی رہ گئے۔
سارے نصاب ہی درست تھے، ساری کتابیں ہی درست ہیں، سارے راستے ہیں صحیح ہیں، لیکن جس کے پاس درست ترین نصاب، Updated Syllabus آ چکا ہو، جنہیں انعام یافتہ لوگوں کے سنگِ میل سے مزین شاہراہِ عظیم، صراطِ مستقیم، Motorway میسر آ چکی ہو، وہ سب راستوں کو یکساں درست تسلیم کرے اور اعلان کرے کہ جو کوئی جس راستے پر بھی چل رہا ہے، درست چل رہا ہے، ہرگز قرینِ دانش نہیں۔
کائنات کے کلیہ تخلیق کا ایک اہم جزو کلیہ تفضیل ہے…… قرآن اسی کائناتی کلیہ تفضیل کا اطلاق انبیاء پر بھی کرتا ہے، اور کہتا ہے: تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض…… یہ رسل ہیں، جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ صحابہ اکرامؓ کی ایک دوسرے پر فضیلتوں کے قائل، انبیاء اور امتوں کی برابری کے قائل کیسے ہو جاتے ہیں؟ قرآن کی کسی آیت کو چھپانا نہیں چاہیے۔ ایک آیت ہے، جس کی طرف شاید ہماری توجہ بہت کم منعطف ہوئی ہے۔ سورۃ النساء کی آیت 51 اور 52 انتہائی قابلِ توجہ ہیں۔ ترجمہ ملاحظہ کریں: ”کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا، وہ بت اور طاغوت پر ایمان لاتے ہیں اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور جس پر اللہ لعنت کر دے تو ہرگز تم اس کے لیے کوئی مددگار نہ پاؤ گے“۔ ہمیں کتابِ ہدایت اسلام سے ملی، راہِ ہدایت ہادی اعظم رسول کریمؐ سے ملی…… کس قدر ناشکری ہے کہ ہم غیروں کے گن گائیں اور انہیں ”ہدایت یافتہ“ قرار دینے میں کچھ بھی تامل نہ کریں۔
امریکہ میں مقیم ایک کلاس فیلو کا فون آیا، کہنے لگا “بھئی! ہم تو اسلامی ملک میں رہتے ہیں، اسلام نے جو بتایا ہے، وہ سب کچھ یہاں نافذ ہے”۔ میں نے استفسار کیا: “پھر وہاں جوا، شراب اور ہم جنسوں سے شادی بھی ممنوع ہو گی؟”
اسلام صرف عمل ہی نہیں، ایمان بھی ہے۔ اسلام میں تعلیم کیے ہوئے تمام معاشرتی اخلاق اپنانے کے باوجود اگر میں رسولِ کریمؐ کی نبوت و رسالت پر ایمان نہیں لاتا تو مجھے خود کو مسلمان کہلوانے کا حق نہیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے ایک محفل میں فرمایا تھا، اور مجھے وہ الفاظ بعینہ اسی طرح یاد ہیں: ”کافر اس لیے کافر ہے کہ وہ نبیؐ کی Prophethood کا قائل نہیں“۔ ایک اور مقام پر آپؒ کی ہدایت تھی: ”اس شخص کے علم کی تعریف نہ کرو، جس کی عاقبت تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے“۔
میں اپنی اور اپنے مسلمان بھائیوں کی خامیوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، لیکن اگر کوئی کہے کہ غیر مسلم، مسلم کے برابر ہے، یا بہتر ہے، تو اسے کبھی قبول نہیں کروں گا…… کیونکہ میں خوشبو اور بدبو پہچاننے کی قدرت رکھتا ہوں، صفائی اور پاکیزگی میں فرق کر سکتا ہوں، جرم اور گناہ میں تمیز کر سکتا ہوں!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply