• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط1

موجودہ احتجاجی سیاست(پسِ منظر اور اس کا مستقبل)۔۔۔۔خالد محمود عباسی/قسط1

قوم کو ایک اور دھرنے کا سامنا ہے۔ایک سوال ہر زبان پر ہے۔۔ دھرنے کے پیچھے کون ہے؟اصل ہاتھ کس کا ہے؟

یہ سوال باشعور لوگ اٹھاتے ہیں یا خبطی،اس بحث میں پڑے بغیر خالص سیاسی حرکیات کی روشنی میں دھرنے کے پس منظر اور پیش منظر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس سوال نے بھی بہت سے ذہنوں کو کشمکش میں ڈال رکھا ہے کہ مولانا کے ساتھ لبرل اور سیکولر قسم کے لوگ کیوں آ کھڑے ہوئے ہیں؟ سطور زیریں میں انہی سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہوئے آنے والے منظر کی دھندلی عکاسی کی کوشش ہو گی۔

یہ ہم سبھی جانتے ہیں  کہ ملک خدا داد کے قیام کے ابتدائی چند سالوں کے بعد مفاد پرستوں کا ایک گروپ بین الاقوامی آقاؤں کی آشیرباد سے اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا تھا۔اس گروپ کی نمائندگی عدلیہ،پارلیمان،سول سوسائٹی اور مقتدر حلقوں میں تھی۔جنھیں اندرون خانہ ایک نومولود مذہبی عصبیت مربوط رکھتی تھی۔پالیسیاں یہی مخصوص حلقہ بناتا ،لیکن لیبل کبھی فوج پر لگتا،کبھی سیاستدانوں پر اور اکثر مولویوں پر۔پھر اس نفرت کو کبھی “پنجابی ظلم” کی طرف بھی موڑنے میں کامیابی ملتی   رہی۔جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا اور چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی نے جنم لیا۔اقدام ایک خاص گروہ کا ہوتا اور گالی پنجاب کو  سننا پڑتی۔یہی صورتحال افقی تقسیم میں نظر آتی، جب لبرل حضرات کی نظر میں تمام خرابی کی جڑ مولوی قرار پاتا اور مولوی کی نظر میں ساری خرابی ان بے دینوں کی پیدا کردہ ہوتی ،جو اپنے آپ کو لبرل،سیکولر یا قوم پرست کہتے۔فوجیوں کی نظر میں سیاستدان کرپٹ اور سیاستدانوں کی نظر میں فوج ترقی کے رستے کی رکاوٹ سمجھی جاتی۔اصل کھلاڑیوں نے پچاس سال قوم کو اس طرح آپس میں ہی الجھائے رکھا اور اپنا کھیل انٹرنیشنل ایجنڈے کے مطابق کامیابی سے جاری رکھا۔عام طور  پر جن اقدامات کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈالا جاتا وہ فیصلے درحقیقت اسی گروپ کے منصوبہ سازوں کے ہوتے البتہ یہ گروپ بڑی کامیابی سے ان فیصلوں کو کبھی فوج،کبھی سیاستدانوں اور کبھی بیوروکریسی پر ڈال کر اپنے آپ کو مخفی رکھنے میں کامیاب ہو جاتا۔

اکیسویں صدی سے قبل اگر سائنسی انکشافات کا دور تھا تو یہ صدی سیاسی رازوں کے افشاء کی صدی ثابت ہو رہی ہے۔امریکہ نے جن حیلوں بہانوں سے اپنا ایجنڈہ آگے بڑھایا اور دیگر مغربی ممالک نے جس طرح اسکی تقلید کی اس عمل نے مغربی جمہوریت کے بظاہر روشن چہرے کا اندرون جو چنگیز سے تاریک تر ہے پوری طرح آشکارا کر دیا۔استعمار کی جو نئی شکل بنی تھی اس کے میک اپ کے اُترتے ہی اس کے پاکستانی بازو کا ستر بھی کھلنا شروع ہو گیا۔ جب اس مفاد پرست،نیم مذہبی،نئے عالمی استعمار اور عالمی صیہونی منصوبہ سازوں کے ممد و معاون گروپ کا پردہ فاش ہونے لگا تو وہ کھلی فسطائیت پر اتر آیا۔اس کا پہلا نشانہ پرویز مشرف بنا۔جو اس کا ایک انتہائی اہم مہرہ رہ چکا تھا مگر اب اگلے مرحلے کےلئے بےکار ہی نہیں ہو چکا تھا بلکہ ایک درجے میں رکاوٹ بھی تھا۔اس کے بعد کے دس سال اندرون خانہ فسطائیت کے اجراء کے ہیں۔اس عمل میں نواز شریف کو رکاوٹ سمجھا گیا۔نواز شریف نے حالات کو دیکھتے ہوئے نبھا کرنے کی بہتیری کوششیں کی مگر ہر بار کہیں سے کچھ ایسا ہوتا رہا کہ طرفین میں تصادم کی کیفیت بڑھتی ہی چلی گئی۔اس تصادم نے نواز شریف کو موت کی دہلیز تک تو پہنچا دیا مگر اس کو جھکا نہ سکا۔اسکی پارٹی کی لیڈر شپ نے پنجاب کے جاگیرداروں والا روایتی مفاہمانہ انداز اپنایا مگر وہ،اسکی بیٹی کچھ پارٹی لیڈر اور بڑی تعداد میں پارٹی ورکر اس کے مزاحمتی بیانئے کے ہمنوا ہوتے چلے گئے۔ادھر مختلف اداروں میں موجود حقیقی محب وطن عناصر کی بھی آنکھیں کھلنے لگیں اور سوالات اٹھنے شروع ہوئے تو انگلیوں نے بھی مخصوص جگہوں کی طرف اٹھنا شروع کر دیا۔اس صورتحال نے درپردہ کارفرما گروہ میں گھبراہٹ پیدا کر دی۔ہنگامی صورتحال میں دس آدمیوں کے کپتان کو قوم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہوا۔اس میں شک نہیں کہ اس میں پوٹینشل تھا مگر تجربہ کرکٹ ٹیم ہی کو لیڈ کرنے کا تھا۔اسکی نہ سیاسی تربیت ہو سکی،نہ کوئی سیاسی استاد مل سکا اور نہ کسی سیاسی عمل سے گزرا۔اس کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کےلئے اور پھر اس پر برقرار رکھنے کےلئے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔چنانچہ میڈیا کے لوگ ہوں،سیاستدان ہوں یا سول و فوجی بیوروکریسی کے مخلص لوگ اصل صورتحال ان پر عیاں ہوتی گئی۔اس عمل نے جہاں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کو مذہبی،سیکولر اور لبرل کے ساتھ ساتھ پنجابی سندھی پٹھان  ا ور بلوچی حلقوں میں قبولیت دی وہاں نقصان یہ ہوا کہ ان حلقوں کے نشانے پر فوج آ گئی۔اس بیانیے کو فوج مخالف یا ملک دشمنی پر معمول کیا جانے لگا۔جس سے ایک نئی خطرناک تقسیم وجود میں آ چکی ہے۔

ادھر مولانا فضل الرحمان جس مذہبی دھارے کے نمائندہ ہیں وہ مضبوط سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔دیو بند مکتب فکر کے جس حصے نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی اس نے طویل عرصے تک کارزار سیاست میں مسلمانان ہند کی راہنمائی کا فریضہ بڑی دلسوزی اور بے جگری سے سر انجام دیا تھا۔وہ سیاست کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف تھے۔مگر تقسیم کے وقت مسلم عوام کے جذبات کا صحیح ادراک نہ کر سکنے کی وجہ سے قیادت انکے ہاتھوں سے پھسل کر قائد اعظم کے پاس آ گئی۔دیو بند کا ثانوی حصہ مسلم لیگ کا ہم رکاب ہوا اور جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پاکستان بننے کے بعد مدنی گروپ کا پاکستانی حصہ جمعیت علماء اسلام کہلایا۔چونکہ اب اس گروپ کی سیاست اصلاً  اس ضرورت کےلئے تھی جو کاروباری طبقات کو سیاست میں دھکیلنے پر مجبور کرتی ہے یعنی مدارس جو خدمت دینی کے مراکز ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ حضرات کےلئے “زمینی ضرورتیں”پوری کرنے کا باعث بھی ہیں۔یہی ضرورت مدنی گروپ کی بھی تھی۔ضرورت کے اس اشتراک نے دونوں دھڑوں کو جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم پر جمع رکھا۔اس جماعت کا اصل کام ایک طرح کی ٹریڈ یونین جیسا نظر آتاہے۔ مگر ایک شاندار ماضی رکھنے کی وجہ سے اس جماعت کو سیاسی میدان کی مہارت رکھنےوالی چند جماعتوں میں سے ایک شمار کیا جا سکتا ہے۔تاہم اس جماعت نے زیادہ تر اپنے آپ کو مدارس کے تحفظ تک ہی محدود رکھا۔ یہ جماعت پاکستان کی سیاست میں کوئی قابل ذکر ایجنڈہ رکھے بغیر بھی سٹیٹس کو کی قوتوں کو کھٹکتی رہی۔لہذا علماء کے اندر سے بھی اس کی سیاسی مخالفت کی بنیاد پر جماعتیں بنتی رہیں۔جنھیں میڈیا میں ان کے سیاسی قد سے کہیں بڑھ کر کوریج ملتی۔جب مولانا فضل الرحمان صاحب نے اس جماعت کی قیادت سنبھالی انھوں نے اکثر مقتدرہ کی مخالف قوتوں سے اتحاد کیا۔وہ ایم آر ڈی کا حصہ رہے۔انھوں نے نواز شریف سے بھی دوری رکھی۔مگر پرویز مشرف انھیں زیر دام لانے میں کامیاب رہے۔پھر جب نواز شریف مقتدرہ کےلئے ناقابل برداشت ہو گئے تو مولانا کو نواز شریف کا سیاسی حمایتی بننے میں ذرا دیر نہ لگی۔

2018ء کے مقتدرہ کے منصوبے میں مذہبی طبقے کےلئے کوئی حصہ نہیں رکھا گیا تھا۔عالمی حالات صاف چغلی کھا رہے تھے کہ نہ صرف مذہبی طبقے کو کارنر کیا جانا ہے بلکہ مدارس کا ناطقہ بند کرنا ، توہین رسالت اور ختم نبوت والی دفعات بھی غیر موثر کرنا پیش نظر ہے۔مولانا کو اپنی سیاسی بصیرت سے اس حقیقت کا ادراک کرتے دیر نہ لگی۔ان کے پاس طاقت کے اظہار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ادھر مسلط کردہ فسطائیت کے اثرات مرتب ہونے شروع ہوئے۔عوام میں مایوسی،صحافیوں میں خوف اور بے زاری اور سیاسی حلقوں میں تشویش نے جنم لینا شروع کیا۔ جس طرح تقسیم ملک کے وقت علماء عوام کے جذبات نہیں سمجھ سکے تھے اسی طرح مسلم لیگ کی سیکنڈ لائن کی لیڈرشپ موجودہ صورت حال کو سمجھنے میں ناکام رہی۔مولانا کی دور رس نگاہ نے موقع تاڑ لیا۔ان کے پاس مضبوط تنظیم پہلے سے موجود تھی۔سیاسی بصیرت بھی وافر ہے اور تحریکی شعور کی بھی کمی نہیں ہے۔انھوں نے کوشش کی کہ دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ لیکر چلیں ،مگر سب کے پاؤں من من کے ہو گئے۔پھر انکی سیاسی ضرورت اور بصیرت نے انھیں اپنی ہی تنظیم پر آسرا کرتے ہوئے اکیلے ہی تحریک کی ٹھان لینے پر آمادہ کر لیا۔انکے سیاسی شعور نے انھیں صحیح راہنمائی دی کہ انھوں نے ان مسائل پر بات کی ہے جو سب کے مشترکہ مسائل ہیں۔یہی وجہ ہے  کہ سوسائٹی کے ہر طبقے اور ہر جماعت کے کارکنوں کی ہمدردیاں انھیں حاصل ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ایک اور ہلچل کا سامنا ہے۔تحریکیں کامیابی سے ہم کنار ہوں یا ناکام رہیں یہ معاشرے کے زندہ ہونے کی گواہی دے جاتی ہیں۔

وکلاء   تحریک کے  اصل اغراض ومقاصد کیا تھے اور اس کی آڑ میں کس نے اپنا ایجنڈہ کیسے آگے بڑھایا،اس سے قطع نظر اس گھٹن زدہ آمرانہ ماحول میں یہ تحریک تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح محسوس ہوئی تھی۔امیری اور درویشی کی عیاری اپنی جگہ، مگر عوام کی بے تابانہ شرکت قومی زندگی اور ولولے کی علامت ضرور ثابت ہوتی ہے۔اس حوالے سے موجودہ فسطائیت زدہ ماحول میں مولانا کی یہ کاوش تاجروں،صنعتکاروں،صحافیوں اور غریبوں کے ساتھ ساتھ مفادات سے بلند دانشوروں،حقوق انسانی کی تنظیموں اور اپنے حقوق کےلئے سرگرداں مختلف گروہوں کےلئے امید کی کرن بن کر سامنے آئی اور اسی وجہ سے زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ لوگوں کی نظریں اس پر لگی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply