آفٹر شاکس/شہزاد ملک

جنگ میں سرحدوں کا دفاع کرنے والے فوجی جوان تو وطن کی دھرتی پر اپنے لہو کے پھول کھلاتے ہی ہیں ,دور دراز دیہات میں بوڑھے باپ کانپتے ہاتھوں اور ڈبڈباتی آنکھوں سے اپنے بہادر جگر گوشوں کے سبز ہلا لی پرچم میں لپٹے جسد خاکی وصول کرتے ہی ہیں, نوجوان بیوائیں اپنے ننھے بچوں کو ان کے شہید باپوں کی جرات و شجاعت کے قصے سنا سنا کر اپنی تنہائیاں تو کاٹتی ہی ہیں ,

 

 

 

 

یہ ننھے بچے باپوں کی شفقت کی بجائے ان کی وردی والی تصویریں دیکھ دیکھ کر جوان ہوتے ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ جنگ معاشرے پر اپنے ہمہ گیر اثرات چھوڑتی ہے جس طرح کسی مہیب زلزلے کے بعد کئی دنوں تک اس کے آفٹر شاکس دھرتی کو جھنجوڑتے رہتے ہیں اسی طرح جنگ ختم ہونے کے بعد بھی اس کے آفٹر شاکس تباہی پھیلا سکتے ہیں

ہماری اکلوتی خالہ سیالکوٹ کے سرحدی گاؤں فتح والی میں آباد تھیں خالو جان کی مناسب سی زمینداری تھی ہندوستان سے ہجرت کے بعد آدھی آبائی زمین یہاں اور آدھی سرگودھا کے ایک گاؤں میں الاٹ ہوئی خالو جان خود فتح والی میں اپنے بچوں کے ساتھ اس وقت کے حساب سے اچھی خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے اور سرگودھا والی زمین پر ان کے چھوٹے بھائی کاشت کراتے تھے اور ادھر ہی آباد ہوچکے تھے خالو جان بڑے نیک سخی دل پانچ وقت کے نمازی اور پرہیزگار شخص تھے اس کردار کی وجہ سے لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے گاؤں کی مسجد کے امام کی غیر حاضری میں نماز کی امامت بھی کرا دیا کرتے تھے, سیالکوٹ کا بھارت کے ساتھ بارڈر زیادہ دور نہیں ہے۔

6 ستمبر1965 کو بھارت لاہور پر حملہ آور ہوچکا تھا،7 ستمبر تک تمام سرحدی علاقے جنگ کی زد میں آچُکے تھے ،پاک فوج نے دیہات خالی کرا لئے تھے کیونکہ بھارتی توپوں کی گولہ باری سے کھیتوں کی تباہی کے ساتھ دیہاتیوں کے گھروں کا نقصان بھی ہورہا تھا فتح والی کا فاصلہ کچھ زیادہ ہونے کی وجہ سے ابھی گولہ باری کی زد سے دور تھا لیکن کبھی کبھی کوئی گولہ کھیتوں میں آ گرتا تھا خطرہ بہر حال شدید تھا دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی کا بھی خطرہ تھا انہی خطرات کے پیش نظر خالو جی نے اپنے بیوی بچوں کو سرگودھا اپنے بھائی کے پاس بھیجنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ ایمرجنسی میں اگر گاؤں سے نکلنا پڑے تو اکیلے نکلنا آسان ہوگا اگرچہ خالہ جان اپنے گھر اور میاں کو چھوڑ کر جانے پر راضی نہیں تھیں لیکن خالو جی نے انہیں سمجھا لیا ضروری سامان کے ساتھ بیوی بچوں کو اپنے ایک کزن کے ساتھ روانہ کردیا اور خود فتح والی میں ہی رہ گئے جنگ جاری تھی اور ہر وقت فضا دشمن کے اور اپنے بمبار طیاروں کی گھن گرج سے گونجتی رہتی دشمن کے جہاز پاک فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کے لئے سیالکوٹ ریلوے سٹیشن کو تباہ کرنے کی کوشش میں تھے لیکن پاکستان ائر فورس کے شاہینوں نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور ڈٹ کر اپنی فضاؤں کا دفاع کیا دن میں توپوں اور ٹینکوں سے داغے جانے والے گولوں کے پھٹنے کی آوازیں اور رات کو ان میں سے نکلتی آگ کے شعلے بھی دکھائی دیتے تھے ۔

انہی دنوں میں بھارتی ٹینکوں کی یلغار کو پاک فوج نے چونڈہ کے میدان میں نہ صرف روک لیا بلکہ اس میدان کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا کر ایک نئی تاریخ رقم کردی اس کے بعد دشمن کی زمینی یلغار تو رک گئی مگر فضائی حملے جاری رہے سترہ دن تک گھمسان کی جنگ کے بعد جنگ بندی ہوگئی حالات پرامن تو ہوگئے مگر کھیتوں میں کسانوں کو اس وقت تک جانے کی اجازت نہ ملی جب تک پاک فوج کے ماہرین نے کھیتوں میں گرنے والے بموں اور گولوں سے کھیت صاف نہیں کردئیے ۔

جنگ ختم ہوئے کچھ مہینے ہوچکے تھے دیہات میں معمول کی زندگی شروع ہو چکی تھی خالو جی اب سوچ رہے تھے کہ اپنے بھائی سے کہیں وہ ان کے بال بچوں کو واپس چھوڑ جائیں تا کہ ان کے گھر کی زندگی بھی معمول پر آجائے۔
اس دن خالو جی معمول کے مطابق مسجد سے عصر کی نماز پڑھ کر نکلے گھر کی طرف جاتے ہوئے گاؤں کا ایک کمہار مل گیا اس کے ساتھ اس کی سات آٹھ سال کی بیٹی اور گدھا تھا جس کی کمر پر دونوں جانب کچھ سامان لدا ہوا تھا سلام دعا اور خیر خیریت پوچھنے کے بعد کمہار نے بتایا کہ وہ گاؤں کے لوہار کا لوہا اس کی دکان پر چھوڑنے جا رہا ہے خالو جی نے کہا کہ لوہے کا کوئی اچھا صاف ستھرا پیس میرے لئے رکھ لینا مجھے ہل کی پھال بنوانی ہے کمہار نے گدھے پر لدی بوری میں ہاتھ ڈال کر ایک لوہے کا بیضوی شکل کا گیند سا نکالا اور خالو جی کو دکھاتے ہوئے بولا یہ دیکھ لیں شائد آپ کے کام کا ہو وہ اس کی عجیب سی شکل دیکھ کر حیران ہوتے ہوئے بولے یہ تمہیں کدھر سے ملا ہے اور جب اس نے بتایا کہ باہر کھیت سے ملا ہے تو خالو جی نے اسے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی چیز اٹھانے کی کیا ضرورت تھی یہ کوئی خطرناک چیز بھی ہو سکتی ہے بیچارہ سادہ دل کمہار جو اس گیند نما لوہے کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا گھبرا گیا اور اسی گھبراہٹ میں وہ بیضوی لوہے کا گیند اس کے ہاتھ سے گر گیا ایک زبردست دھماکہ ہوا کچھ چیخیں بلند ہوئیں اور گہرا دھواں چھا گیا ارد گرد سے لوگ بھاگے آئے دھوئیں اور گرد کے بادل چھٹے تو ایک دل خراش منظر لوگوں کے سامنے تھا کمہار اس کی ننھی بیٹی گدھا اور خالو جی زمین پر خاک و خون میں لتھڑے پڑے تھے کچھ اس طرح کہ گدھا اور ننھی بچی موقع پر جاں بحق ہوچکے تھے خالو جی کا نچلا دھڑ اڑ چکا تھا اور کمہار کی گردن سے خون جاری تھا دونوں کو اٹھا کر گاؤں کے قریبی ہسپتال لے جایا گیا لیکن کمہار راستے میں ہی دم توڑ گیا اور خالو جی نے بمشکل رات گذاری اور اگلی صبح فجر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ انہیں زیادہ دیر تک رکھا جاتا گاؤں میں ان کے کچھ رشتہ داروں اور دوسرے لوگوں نے اسی دن ان کی تجہیز و تکفین کردی اور جب سرگودھا میں خالہ جان ان کے بچوں کو اور خاندان کے باقی لوگوں کو بتانے کے لئے آدمی پہنچا اس دن انہیں دفن ہوئے چار دن ہو چکے تھے اور جب سب روتے دھوتے فتح والی پہنچے تو اس حادثے کو ایک ہفتہ گذر چکا تھا اس حادثے کی اطلاع پولیس تک پہنچی وہ گاؤں آئی تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ لوہے کا وہ بیضوی گیند بم تھا جو کھیت میں گر کر پھٹا نہیں تھا کیسے پھٹتا اسے جن کی موت کا سبب بننا تھا ان تک پہنچتا تو پھٹتا کمہار ہر روز کھیتوں سے پھٹے ہوئے گولوں کے لوہے کے ٹکڑے چن کر لاتا اور لوہار کے پاس بیچ دیتا اس دن وہ بم کی شکل میں اپنی اور دو اور انسانوں اور ایک جانور کی موت اٹھا لایا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ میں لڑاکا فوجیوں اور سویلین شہریوں کی شہادتیں تو ہوتی ہی ہیں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جن میں خالو جی جیسی گمنام شہادتوں کا ان کے گھر والوں کے سوا کسی کو علم نہیں ہوتا میں اس وقت چھوٹی تھی لیکن یہ واقعہ ہمیشہ میرے دل میں پھانس کی طرح اٹکا ہوا تھا آج یہ کہانی لکھ کر دل کچھ ہلکا سا ہوگیا ہے انیس سو پینسٹھ کی جنگ کی ایک سچی کہانی منظر عام پر لانے میں مجھے بہت سال لگے ستمبر کا مہینہ آتا ہے تو پینسٹھ کی جنگ کے کئی واقعات یاد آنے لگتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply