پاکستان کی موجودہ صورتحال/انور مختار

ملک اس وقت جس اخلاقی‘ آئینی‘ سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی بحران سے دوچار ہے اس تک لمحہ بہ لمحہ‘ قدم بہ قدم پہنچتے ہم سب نے دیکھا ہے۔پاکستان کو غیر مستحکم بے توقیر اور برباد کرنے میں عوام الناس سمیت سیاستدان، عدلیہ، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

ہم جو بھی ہیں‘ جیسے بھی ہیں‘ جن مسائل سے دوچار ہیں‘ جن بحرانوں سے گزررہے ہیں‘ وہ ہمارے مسائل ہیں‘ ہمارے بحران ہیں‘ ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے‘ مسائل کو حل کرنا ہے‘ بحرانوں پر قابو پانا ہے‘ حالات سے پنجہ آزما ہونا ہے‘ حالات کو سازگار کرنا ہے۔ قوموں کی زندگی میں ساٹھ ستر سال کچھ بھی نہیں ہوتے‘ مجموعی ترقی یا تبدیلی کے لئے انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن دوسرے ملکوں میں تیزی سے ترقی ہورہی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے لوگ وہاں پہنچنا چاہتے ہیں‘ اس لئے ایک طرف وہ زیادہ دیر صبر نہیں کرنا چاہتے‘ دوسری طرف وہ ملک کے اندر ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لئے عملی جدوجہد میں حصہ نہیں لیتے۔ دوسروں کی ترقی سے امیر بننا چاہتے ہیں۔ غیرجانبداری ممکن ہے کہ کسی مخصوص صورت حال میں اچھی بھی ہوتی ہو لیکن یہ زیادہ تر مسائل سے گریز‘ ذمہ داریوں سے انحراف کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ عام طور پر صورت حال سے اور مقابلے سے بچنے کے لئے اسے اختیار کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق کا کسی بھی صدی میں مطالعہ کرلیں آگے بڑھنے کے لئے اپنے ملک سے‘ قبیلے سے یا خطے سے جانبدار ہونا ضروری رہا ہے۔ ہماری مختصر سی تاریخ میں اتنے معرکے‘ مقابلے اور ہنگامے ہوچکے اور ہماری اکثریت اتنی تھک چکی کہ خاموش رہنے پر مجبور ہوگئی اور ایک یہ رجحان تیزی سے نمو پانے لگا کہ سیاسی وابستگیوں سے قطع تعلق کو عافیت کا نشان کہا جانے لگا۔ سیاست کو ایک انتہائی مذموم عمل قرار دے دیا گیا ہر حکومت کے کچھ حامی ہوتے ہیں کچھ مخالف۔ لیکن کسی مملکت میں رہنے والوں کے بارے میں یہ تصور ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی مملکت کے مخالف ہوں۔ یہ انتہائی نازک اور حساس معاملہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کے کسی سربراہ مملکت کو تمام پاکستانیوں کا احترام اور اعتماد حاصل نہیں رہا ہے۔ اسی طرح فوج نے ملک کے سول نظم و نسق کو جس طرح بار بار سنبھالا ہے‘ پھر ملک کے کئی علاقوں میں فوجی یا سول حکومتوں کے دور میں جو فوجی ایکشن ہوئے ہیں پہلے تو وہ اسی دور میں متنازع ہوگئے ملکی معیشت کی زبوں حالی اتنی تشویشناک نہیں جتنی عوام کے اندر پیدا ہو جانے والی غلامانہ سوچ خطرناک ہے۔ یہ انتہائی خطرناک بیماری ہے بلکہ مہلک مرض ہے جب سے بھارت نے خلائی کامیابی حاصل کی ہے، یہ غلامانہ سوچ اور بد ترین قسم کا احساس کمتری کھل کر سامنے آیا ہے، لوگ اپنا اور اپنے ملک کا مذاق اڑا رہے ہیں جو ان کے احساسِ شکست اور احساسِ کمتری کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستانی باشندوں میں احساسِ شکست اور کمتر ہونے کا گمان پیدا کرنے میں بیرونی طاقتوں کی سرمایہ کاری اور محنت بھی شامل ہے۔آج وہ طاقتیں خصوصاً بھارت مطلوبہ نتائج ملنے پر بہت خوش ہوگا ہمیں بد قسمتی سے وہ کامیابیاں نہیں مل سکی ہیں جو بھارت کے حصے میں آئی ہیں چند سال قبل بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو تین دن بعد پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر ڈالے اور پاکستان جوہری اسلحہ کے حوالے سے بھارت کے ہم پلّہ ہو گیا۔ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے پاکستان اور بھارت میں ایٹمی مقابلہ برابر کا ہو گیا تھا۔ لاریب پاکستان کی یہ عظیم کامیابی تھی ۔
بھارت کے مقابلے میں ہم نے بھی ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کے برابر کھڑا ہوکر خود کو سرخرو کر لیا تھا لیکن اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ’’چندریان تھری‘‘ کا مقابلہ ہم کیسے اور کیونکر کریں؟ ارون دھتی رائے نے لکھا تھا کہ ”دشمن آپ کی ہمت کو نہیں توڑ سکتا، یہ کام صرف آپ کے دوست کر سکتے ہیں“ تو ان کے مدنظر یقیناً ایسے دوست نما لوگ ہوں گے جن کی روح بغض کے بوجھ تلے آ کر مر چکی ہوتی ہے بقول ذلفقار چیمہ کہ ہندوستان کی خلائی کامیابی پر کچھ پاکستانیوں کا ردعمل حیران کن تھا،کوئی مبارک باد دے رہا تھا اور کوئی قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہاتھا کہ اب ہندوستان کی برتری تسلیم کر لی جائے۔ سماج میں ہر شخص کے کسی دوسرے شخص یا کولیگ سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، کیا آپ اپنے شہر یا محلے یا محکمے میں اپنے مخالف کو اس کی کسی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ اگر اپنے ذاتی مخالف کے معاملے میں آپ ایسی فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو ریاست کے مخالف پر اتنی محبتیں نچھاور کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ کاش ہمارے درمیان مخاصمت ختم ہوچکی ہوتی، کاش ہمارے اور ہندوستان کے تعلقات کینیڈا اور امریکا جیسے ہوتے مگر ایسا نہیں ہے،اور یہ بات تلخ سہی مگر ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس بد خواہ ہمسائے نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، یہ ہر عالمی فورم پر پاکستان کو بدنام اور بے توقیر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ وطنِ عزیز کے بارے میں موجودہ بھارتی قیادت کے عزائم تو بڑے ہی مذموم، جارحانہ اور خطرناک ہیں،بھارت علی الاعلان اپنے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے، ہندوستان میں ان کا مذہبی اور ثقافتی تشخص ختم کردیا گیا ہے اور اب تو بھارت میں مسلمانوں کا جینا بھی بے حد مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اسی بھارت نے جنت نظیر کشمیر کو قبرستان بنا دیا ہے لہٰذا ہمیں کس بات کے چاؤ چڑھے ہوئے ہیں کہ اس کی خلائی کامیابی پر غلاموں کی طرح بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ معیشت کمزور ہونے اور مہنگائی بڑھ جانے سے قومیں بے حمیت نہیں ہو جاتیں، زندہ قومیں اس آزادی کے لیے کئی نسلیں قربان کر دیتی ہیں جو بھارت ہم سے چھیننا چاہتا ہے۔ کئی نیم خواندہ خواتین و حضرات سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں کہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ ہمسائے کو مبارکباد دی جائے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ انفرادی تعلقات میں سماجی اقدار کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور ضرور رکھا جانا چاہیے مگر ریاستی تعلقات میں صرف ملک کا مفاد دیکھا جاتا ہے اور وہی سب سے عزیز ہونا چاہیے۔ اور یہاں تو معاملہ اس ملک کا ہے جو اخلاقی کیا، انسانی اقدار کو ہر روز پاؤں تلے روندتا ہے اور جس کا وزیراعظم ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے۔ چین اس ہمسائے کا اتنا زخم خوردہ نہیں ہے جتنا ہم ہیں، مگر چین نے ہندوستان کو کوئی مبارک باد نہیں دی، ایران اسرائیل کو اس کی کامیابیوں پر مبارکباد کیوں نہیں دیتا ؟ اس لیے کہ وہ جرات مند ملک ہے اور ان کی قومی شان اور ملکی مفاد انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ نے مبارک نہیں دی تو درست کیا ہے۔ اگر آج ہمارے اقتصادی حالات خراب ہیں تو کل یا پرسوں انشااﷲ ٹھیک بھی ہو جائیں گے، وطنِ عزیز کے کبھی بہت اچھے حالات بھی تو تھے، کبھی ہم چین اور جرمنی کو بھی قرضے دیا کرتے تھے۔ پاکستانی پالیمینٹیرنیز کے ایک حالیہ دورے کے دوران چین کے اعلیٰ حکام نے انھیں بتایا کہ 1980ءتک ہمیں کسی پروجیکٹ کا پی سی ون بنانا نہیں آتا تھا، لہٰذا اس کے لیے ہم نے پاکستان سے رابطہ کیا اور پھر ہمارے لوگوں کی کراچی میں ٹریننگ کرائی گئی۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہم کوریا سمیت بہت سے ملکوں کے لیے رول ماڈل تھے۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان ساؤتھ ایشیا کا واحد ملک تھا جس نے خلاء میں راکٹ بھیجا تھا اسوقت ہم اسپیس ٹیکنالوجی میں پورے خطے میں سب سے آگے تھے۔ اگر ہم 1960ء کی دہائی میں پورے خطے کو لیڈ کررہے تھے تو انشا اﷲ پھر سب کو پچھاڑ کر آگے نکلیں گے، دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی اور جاپان مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے، ان پر تو دشمنوں کا قبضہ ہوگیا مگر وہاں کے باشندوں نے اپنے ذہنوں پر قبضہ نہیں ہونے دیا،انھوں نے ذہنی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیا وہاں کے نوجوان ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ نہیں! انھوں نے اپنے ملکوں کے تباہ شدہ ملبے پر کھڑے ہو کر عہد کیا کہ ہم دن رات ایک کر کے اپنے ملکوں کو پھر عظیم تر بنائیں گے۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں جاپان دنیا کی اقتصادی سپر پاور بنا، اور جرمنی پورے یورپ کا چوہدری بن گیا۔ ہم بھی ایشیا کا ٹائیگر بنیں گے۔مگر اس کے لیے مایوسی اور احساسِ کمتری سے چھٹکارا حاصل کرنا لازم ہے۔ کسی ملک کی کامیابی پر ہمیں گھبرانے یا گھبرا کر غلامانہ سوچ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ جس طرح ہم نے 1998ء میں ایٹمی قوت بن کر ہمسایہ ملک کو جواب دیا تھا، اسی طرح انشاء اﷲ ہم خلائی کامیابیاں حاصل کرکے اسے ضرور جواب دیں گے۔ہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے، ntrospection ہو، بربادی کے ذمّے داروں کا تعیّن ہو، آئین اور قانون کی وہ شقیں جو صرف اشرافیہ کو تحفظ دیتی ہیں، انھیں تبدیل کیا جائے اور ایک نئے جوش اور ولولے سے سفر شروع کیا جائے۔مگر اس کے لیے سب سے پہلے ملک سے محبت کرنے والی بے لوث، باکردار، باصلاحیت اور جرات مند قیادت اور درست ترجیحات کی ضرورت ہے، ایسی قیادت تب ملے گی جب قیادت کے انتخاب کے وقت ہماری سوچ کم از کم اتنی mature ہوگی جتنی بھارتی عوام کی ہے، انھوں نے شکل دیکھ کر نہیں عقل اور قابلیت دیکھ کر ووٹ دیے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہینڈسم اور ہیرو ٹائپ افراد فلموں یا اشتہارات کے لیے موزوں ہوتے ہیں، قوموں کی قیادت کے لیے نہیں.. قیادت کے لیے کردار اور قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔آج قوم فیصلہ کر لے کہ وہ قیادت کے انتخاب کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کردار کو دے گی تو اُسی روز حالات پلٹا کھائیں گے اور بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ پاکستان کو اس وقت ایک ایسے مدبر اور جراتمند مند قائد کی ضرورت ہے جو قوم کو درست علاج کے ذریعے مہلک ترین بیماری یعنی مایوسی اور احساسِ کمتری سے چھٹکارا دلائے۔نئی نسل میں یقین اور خود اعتمادی پیداکرنا ہوگی اور انہیں احساسِ کمتری کی دلدل سے نکالناہوگا۔سب کی وفاداری اور محبت کا مرکز اور محور صرف اور صرف پاکستان ہوناچاہیے۔ سب کی بقا اور فلاح اسی میں ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply