اہم شخصیات اور ریاستی تحفظ ۔۔۔ محمد عمران

دنیا میں قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے سے معاشرتی حیات کو منظم کیا جاسکے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ چنانچہ الہامی ضابطے اور انسانی دساتیر وقوانین اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی حیات کی حفاظت کی جائے اس کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ مقاصد شرع کے نامور عالم دین امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسی الغرناطی الشاطبی (متوفیٰ۷۹۰ھ) نے شریعت کے مقاصد کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے،

1۔مصالح ضروریہ: مصالح ضروریہ اُن اَہداف و غایات کو کہا جاتا ہے کہ اگر وہ ہاتھ نہ آئیں تو انسان کی دنیا یا آخرت برباد ہو جائے ۔

2۔مصالح حاجیہ:یعنی وہ مصلحتیں جن سے انسانی حاجات وابستہ ہوں اور اگر وہ حاجات پوری نہ ہوں تو انسان تکلیف اور مشقت میں پڑ جائے،

3۔ مصالحِ تحسینیہ: یعنی ایسی مصلحتیں اور ایسے اہداف جن کی رعایت انسانی کردار اور گفتار میں حسن وخوبی کا باعث ہوں ۔ ان شرعی مقاصد میں سے مصالح ضروریہ اہم ترین ہیں گویاکہ شریعت نے احکام شرعیہ میں ان مصالح کو علت کے بعد سب سے مقدم رکھا ہے اور یہ پانچ مصالح ہیں جنھیں مقاصد خمسہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ درج ذیل ہیں:

1۔دین کی حفاظت

2۔انسانی جان کی حفاظت

3۔ انسانی عقل کی حفاظت

4۔انسانی نسل کی حفاظت

5۔انسان کے مال کی حفاظت.

تو انسانی جان کی حفاظت شریعت میں اہم ترین مقصد ہے اس مقصد پر بیسیار قوانین کی بنیاد رکھی گئی ہے  جن کی تفصیلات اسلامی قانون وفقہ کی کتاب ہدایہ وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انسانی دستاتیر میں سے اقوام متحدہ کے دستور Universal Declaration of Human Rights میں بھی دفعہ نمبر تین میں انسانی جان کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین پر اگر نگاہ ڈالیں تو آئین کی  دفعہ نمبر چار میں انسانی جان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔

اس تمہید کے بعد اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرے۔ ملک عزیز پاکستان میں شروع دن سے مختلف اداروں میں رسہ کشی جاری ہے ایک طرف ملک میں بار بار مارشل لاء دوسری طرف سیاست دانوں کی نا اہلی تیسری طرف وکلاء تحریک اور ملک میں زیر اثر فیصلے، چوتھی طرف میڈیا کا جانب دارانہ رویہ اس پر مستزاد فوج اور عوام میں جنگ اور بیرونی قوتوں کا ملک میں افراتفری کی تحریکات کو شہ دینا ۔

اس سیاسی بحران نے ملک کو مشکلات میں ڈالا ہے، خانہ جنگی کی صورتحال بنی ہوئی ہے، ملکی معیشت اور  امن وامان داؤ پر لگا ہے۔ ریاست ، بیرونی ایجنسیوں ،شدت پسندوں اور امریکی ڈرون حملوں سے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے ۔ ان  ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے قوم کے عام شہریوں سے لیکر ملک کی  نامور شخصیات تک ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں مولانا یوسف لدھیانوی شہید ، مولانا مفتی نظام الدین شہید، مولانا عبد اللہ شہید، مولانا اسلم شیخپوری شہید، مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید، مولانا حسن جان شہید، ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید، بنوری ٹاؤن کے اساتذہ، جامعہ فاروقیہ کے اساتذہ ، ایسے درجنوں علمائے کرام اور سیاسی لیڈران کی طویل فہرست ہے جو حکومت کی عدم توجہ و ناکام انتظامات اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمن صاحب مولانا عبد الغفور حیدری صاحب پر خود کش حملے ہوچکے ہیں یہ سب وہ ناقابل تردید شواہد ہیں جو حکومت وانتظامیہ کی ریاستی تحفظ پر سوالیہ نشان ہیں۔

اب ایسے حالات میں جہاں فوج ، علماء، اور سیاست دان ایک پیج پر جمع ہوکر شدت پسندوں کے خلاف اعلامیہ جاری کرچکے ہیں اور امریکی ناراضگی مول لیکر چائنا کے ساتھ سی پیک معاہدات کرچکے ہیں جس کی وجہ سے فو ج تو خیر ہر طرح کے اسلحہ سے مسلح ہیں لیکن علمائے امت اور سیاست دان جو آسان ہدف بن سکتے ہیں ان سے تحفظ فراہم کرنے والے اہلکار واپس کرنے کا حکم نامہ جاری کرنا یقیناً  انتہائی ناعاقبت اندیشی ہے۔ بلکہ مجھ جیسے سیاسی طالب العلم کے لیے اس کو ناعاقبت اندیشی پر محمول کرنا دشوار ہے کیونکہ زمانی قرائن اس کے خلاف جارہے ہیں ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک کے سیاست دان جب انتخابات کے لیے کمپین کرنے نکلے ہیں ایسے حالات میں ان سے سیکورٹی چھیننے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

اگرچہ یہ بہت خوشنما بات ہے کہ اہم شخصیات کی سیکورٹی پر قوم کے پیسے لگ رہے ہیں تو محترم ومکرم جج صاحب! کیا ان اہم شخصیات کی زندگی داؤ پر نہیں لگی ہے ؟ اگر خدا نخواستہ ملک ایک مرتبہ پھر بے نظیر بھٹو والے سانحہ سے دوچار ہوا تو اس کی ذمہ داری آپ  جج صاحب برداشت کرسکیں گے؟ کیا ملک اس طرح کے مزید سیاسی بھونچال کا متحمل ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً  نہیں تو براہ کرم ملک کی  ان اہم شخصیات کو قربانی کا بکر ا مت بنائیں۔ اور ملک میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لیے راستہ فراہم مت کیجیے ۔

Facebook Comments

محمد عمران
رئیس دار الافتاء دار السلام۔اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply