آداب گالم گلوچ۔۔۔۔۔۔ شفیق زادہ ایس احمد

چند دن پہلے  ملک عزیز کے ایک سینئر اور صحافتی اقدار کے نقیب  رہنما   کو ایک وڈیو میں نونہلان  و بالغان ِ وطن کو  نادر اقسام کی گالیوں کا اسٹاک  فراہم کرتے سن کر لاکھوں ہم وطنوں کا  منہ ’فق ‘ ہو گیا ہوگا۔  ہر دوسرے جملے میں انقلابی  اور پہلے میں سادھو ہونے کا تاثر دیتے موصوف تلخ کلامی اور لفظی نشتر کا استعارہ مانے جاتے تھے مگر ان کی بدکلامی ان کے ذاتی کردار کا آئینہ  ثابت ہوئی ۔   انہیں مغلظات بکتے سن کر اور اپنے اسٹاف سے  فرعونیت سے مخاطب ہوتے دیکھ کر یقین  جانیے طبعیت مکدّر ہو گئی۔ میڈیا کے اس دور میں ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے کہ قوم کی ایسی تیسی کر نے پر پلے پڑے ہیں۔  یہ امر تو ثابت ہوا کہ کسی کے تعلیم یافتہ یا پھر  قومی زبوں حالی کا دُکھتا اپنڈکس لیے پھرنے کا ہر گز   یہ مطلب نہیں کہ    موصوف سِفلی جذبات کے اظہار کے فن میں بھی یکتا  ہوں۔  کلیہ یہ ہے کہ اگر کوئی کام نہ آتا ہو تو کسی ماہر فن سے سیکھ لینا چاہیے۔  اسی میں بے عزتی کی بچت ہے اور تھوڑی بہت ہوبھی  جائے تو اسے ٖسوشل میڈیا کے اس دور میں فائدہ ہی سمجھنا چاہیے ،   پیارے میاں نے بقول  شاعر   کہہ کر یہ مصرعہ عطا کیا ۔۔

؏  بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

اب آتے ہیں نفسِ مضمون کی طرف ، پیارے میاں فرماتے ہیں کہ   اوّل تو کسی خاتون کو بہن کی گالی دینا، گالی و گفتگو کے بنیادی گرامر سے متصادم ہے، صنف نازک کے معاملے میں گالیانہ  ہم بستری یا ہمبستری والی گالیوں  کے اظہار کےلیے   بہن کے ساتھ لگایا جانے والا ’ لاحقہ‘ غلط العام ہے، جس کا کوئی منطقی نتیجہ نہیں نکلتا ، تاآنکہ   بھارت کی طرح آرٹیکل 377 نافذ کر کے ’ ماں بہن ‘ ایک کر دی جائے ۔   بہن کی گالی کو اگر صنف نازک پر ہی برسانا مقصود ہو تو  ’ بھائی ڈیش ‘ کے ساتھ عزت افزائی کی جائے۔ اس طرح  ’ مادر ڈیش ‘ کے بجائے ’فادر ڈیش ‘ بکنا صحیح رہے گا ۔

نوٹ : ڈیش وہ خالی جگہ ہے جسے اپنے اپنے کلچر اور متعلقہ لچّر پن کے حساب سے پُر کر لیا جائے۔

سابقے اور لاحقے  دونوں کی درست مقام پر پلیسمنٹ  گالی کامطلب واضح کرنے میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے ۔     دیکھیے اگر گالم گلوچ کے معاملے میں گرائمر اور عروض کا خیال نہ رکھا جائے تو گالی کی بے حرمتی ہوتی ہے اور  جس خباثت اورکمینگی کو وصول کنندہ  ( دشنام الیہ )  تک پہنچانا مقصود ہے  ، اس کی تاثیر کم ہو جاتی ہے  اور ’ دشنام الیہ  ‘ بنا کچھ سمجھے  ہونق  بنا منہ تکتا ہی رہ جائے گا  ’ گ‘ ( اردو  کے انتیسویں  حرف ِ تہجی                           ’  گاف    ‘     میں حسب ضرورت  الف  یا پھر  چھوٹی ی  کا اضافہ فرمالیں  تاکہ  جنس واضح ہو جائے)۔  اسی طرح  اگر کسی خاتون کو ماں بہن کی گالی دی جائے تو ، سننے میں  بہتوں کو بھلے بھلا لگتا ہو مگر معنویت کے حساب سے مقصد فوت ہو جاتا ہے  جو ملک عزیز  کے غیرت مند اور با حمیّت مردوں کی پسندیدہ گالیوں کا ضیاع ہے ۔  ویسے کتنی حیران کن بات ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ غیرت مند ہونے کا دعوی کرنے والی قوم ، بے عزتی اور ہتک کے لیے اگر کسی کو استعمال کر تی ہے تو وہ بھی بیچاری وہی  ’ زنانی ‘جس کے لیے قوم غیرت مندی کا ڈھونگ رچاتی ہیں ۔

اسی طرح جب انہوں نے اپنے صا حبزادے کا ذکر خیر کیا تھا تو،  اس وقت بھی ان کو یوں کہنا چاہیے تھا ’  اوئے ،   کب لینے جانا ہے حاتم مادر ڈیش کو ‘  تو جملے میں جان پڑ جاتی اور  گالی کی معنویت میں اضافہ ہوتا اور  فاعل و مفعول میں ربط بھی پید ا ہو جاتا۔  اس طرح یہ ایک پرفیکٹ  گالی بن جاتی، دریں چہ شک  ۔  لیکن اگر اسی جملے میں وہ  چھوٹے صاحب کی ڈگری کو مع  مقام تربیت  بھی  نتھی کر کے یوں بیان کرتے  ’ کب لینے جانا ہے حاتم   صاحب  ( فرام  بیلی پور) کو ‘ تو  جملے میں نہ صرف رعب بلکہ مردانہ وجاہت تو پیدا ہو تا مگر   افسوس کہ مقصدیت کا خون ہو جاتا۔   دوسری طرف  اسی جملے کی شاعرانہ تقطیع میں ڈگری مہمل ثابت  اور جملہ فوت ہو جاتا ۔   یہ وہ نزاکتیں ہیں جن کا دورانِ گالم گلوچ اور سر پھٹّول خیال نہ رکھا جائے تو بیلی پور کے پڑھے لکھے اور اندرون شہر کے روایتی  تانگہ بانوں میں کیا فرق رہ جائے گا ۔ ویسے شنید ہے کہ  آقا حاتم  بیلی پوریہ ( ہز ایکس لینسی  ماسٹر  حیٹم  منٹگمری) اس عمر میں  ایم بی اے وغیرہ  کرتے رہتے ہیں ۔ آئی بی اے اور لمس  والے اسے وہی سمجھیں جو وہ   گریجویشن کے بعد  کیا کرتے ہیں اور عوام الناس  اپنی  اپنی مشکلا ت اور مصائب کے  حساب سے اسے فی زمانہ ’ ماں بہن ایک ‘ کرنا ہی سمجھیں۔ ویسے ماں بہن ایک کرنے کو ملک عزیز میں نہ جانے    کیوں گالی سمجھا جاتا ہے ، حالانکہ بہن بھی تو ہی ماں کا ہی ایک روپ ہوتی ہے –

مزید براں ،  اسی گالیانہ سیشن میں وہ اسٹریٹجک مینیجمنٹ پر بھی طبع آزمائی کرتے نظر آرہے ہیں، یعنی چالاکی کی اسٹرٹیجی کے بارے میں  جانکاری دے رہے ہیں ۔  عورتوں میں وقت اور حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے اور مشکلات سے نکلنے کی خصوصی صلاحیت ہوتی ہے ، اور وہ اس کام کے لیے ضروری اوزاروں  سے لیس بھی ہوتی ہیں۔ ہماری کتاب ’ ہم تماشا‘ سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے ’ عورت کے آنسو، نخرہ اور نزاکتیں بھی ایک عجب طرح کا ’ویپن آف ماس ڈِسٹرکشن ہیں۔

پیارے ہمیں کہنے لگے  کہ ’ چونچ چالاکی ‘ تو سنی ہے ، جس کا پریکٹشنر اپنے خطیبانہ جوہر کے بل پر فائدہ اٹھانے پر قادر ہوتا/ہوتی ہے، موصوف خود بھی سرِشام ، ٹی وی اسکرین کے کسی کابک سے  دوسرے   صحافتی  کبوتروں کے ساتھ مُنڈی نکالے کسی لقا کبوتری کے ساتھ   یہی ’ چونچ چالاکی ‘  کرتے نظر آتے ہیں۔  ابھی چند دن پہلے’ لُقّا‘  صحافیوں کے خود ساختہ  خلیفہ نے بھی یہی ’ چونچ چالاکی ‘ ایک پولیس والے کے ساتھ کی تھی۔ وہی پرانی گھٹیا ترکیب، لونڈیا پھنس گئی تو ہاتھ صاف ورنہ ’ بہنا ڈر گئی بہنا ڈر گئی ‘     کا    ’ راگ  بھیڑویں     ‘   کہ میں تو چیک کر رہا تھا کہ عفیفہ کتنی پاکدامن ہے اور پھر  بلّے بلّے  کی خود ستائش  یعنی  میرا اسٹنگ آپریشن المعروف   صحافیانہ’ چونچ چالاکی ‘  کامیاب ہوگئی۔   مگر جس  نسوانی چالاکی کی جانب  ہمارے موضوعِ سخن صحافی نے اشارہ کیا ہے، کتابوں کی کتابوں کھنگال ڈالیں مجال ہے   لمس سے لے کر ممس تک ، کسی یونیورسٹی میں اس پر لب کشائی کی گئی  ہو۔ راقم اپنی علمی کم مائیگی کا اعتراف کرتاہے۔

جس غیر پیشہ وارانہ اور  اناڑی پن سے یہ گالیاں خاتون کو عطا کی گئیں، اسے دیکھ و سن کر افسوس و حیرانی کے ملے جلے جذبات پیدا ہوئے۔  پیارے میاں کا فرمانا ہے  ’  گالی کسی نیوز چینل کی خبر تو  ہے نہیں کہ  میک اپ پوت کر ٹیڑھے منہ اور تلفّظ سے   جیسامن چاہے پڑھ دی جائے ،  گالی ہے جناب ،  گا—لی!سیاسی جماعتوں کا یو ٹرن نہیں ، جدھر سے بھی گھسو، مطلب ایک ہی نکلتا ہےیعنی کہ کچھ نہیں نکلتا۔

انسان اپنے کلام سے ظاہر ہوتا ہے ، اس قول  کی سچائی تو سب نے دیکھ ہی لی ۔ محترم  صحافی کبھی کسی کو گوالمنڈی کا غنڈہ ، تو کبھی کسی کو بمبینو کا بلیکیا قرار دیتے نہیں تھکتے، مگر خود اپنے حسنِ  کلام سے بازار حسن کا ایسا کارندہ نکلے جو تھرڈ کیٹیگری کے فورتھ کلاس مال کی دلّالی میں دلّالی لینے کو ہی لائف ٹائم اچیومنٹ سمجھتا ہے۔

؏     ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

جاتے جاتے بہ طور حرف آخر عرض ہے کہ حضور گالی ہدیہ کرتے وقت جس ’سٹائل‘ میں آپ پائپ کے ساتھ نبرد آزما ہیں وہ  غیر بالغ اور بالغ  النظردونوں طرح کے ناظرین کے لیے  اخلاق باختہ بلکہ اِشتہائی ہے، اس شوق سے احتراز کریں ، دہن تو بگڑ ہی گیا ہے ، رہن سہن بھی برباد ہو جائے گا۔

آپ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مائیکل گھسیٹا اگر پتلون میں جھاڑو اُڑس لے تو وہ مور نہیں بن جاتا، سمجھے ! چی گوویرا  کی چائینز کاپی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نہ جانے ہمارے دانشور اور اہل علم وعقل کب سمجھیں کے کہ ’ ہر گالی کچھ کہتی ہے۔

Facebook Comments

ShafiqZada
شفیق زاد ہ ایس احمد پیشے کے لحاظ سےکوالٹی پروفیشنل ہیں ۔ لڑکپن ہی سے ایوَی ایشن سے وابستہ ہیں لہٰذہ ہوابازی کی طرف ان کا میلان اچھنبے کی بات نہیں. . درس و تدریس سے بھی وابستگی ہے، جن سے سیکھتے ہیں انہیں سکھاتے بھی ہیں ۔ کوانٹیٹی سے زیادہ کوالٹی پر یقین رکھتے ہیں سوائے ڈالر کے معاملے میں، جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی طمع صرف ایک ہی چیز ختم کر سکتی ہے ، اور وہ ہے " مزید ڈالر"۔جناب کو کتب بینی کا شوق ہے اور چیک بک کے ہر صفحے پر اپنا نام سب سے اوپر دیکھنے کے متمنّی رہتے ہیں. عرب امارات میں مقیم شفیق زادہ اپنی تحاریر سے بوجھل لمحوں کو لطیف کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ " ہم تماشا" ان کی پہلوٹھی کی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ کہتے ہیں جس نے ہم تماشا نہیں پڑھی اسے مسکرانے کی خواہش نہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”آداب گالم گلوچ۔۔۔۔۔۔ شفیق زادہ ایس احمد

  1. کیا غیر معمولی کمال کا مظاہرہ دیکھنے والے کے ہوش اڑانے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے؟
    جی ہاں اس کی ایک مثال آں محترم شفیق زادہ کی شگفتہ تخلیقات ہیں جنہیں صرف سرسری طور پڑھ کر ان سے حظ اٹھانا ممکن ہی نہیں۔ بلکہ کمربستہ اور یکسو ہوکر تقابل، صنعت تضاد، سجع اور خیال آفرینی کی داد دیجئے ۔

  2. اپنے قیمتی دشنامی اسٹاک سے کچھ بیش قیمت موتی قوم کو پیش کئے ہیں اور قوم انکی قدر ہی نہی سمجھ رہی ???

  3. واہ کمال کی خیال آرائی ہے
    بہت خوب لکھا ہے جناب ایک ثقیل موضوع کو نہائت لطیف پیرائے میں بیان کرنا آپ کی اردو زبان پر دسترس کو ظاہر کرتا ہے ???

Leave a Reply