رسل کا تجویز کردہ تجربہ اور پاکستان/یاسر جواد

رسل نے کسی جگہ پر کہا تھا کہ وہ پوری طرح قائل ہے کہ سرکاری سرپرستی کے باعث عام لوگوں کو لاتعداد فضول اور واہیات باتوں پر یقین دلایا جا سکتا ہے۔ اُس نے کہا کہ اگر اُسے ایک موزوں فوج دے دی جائے، جسے اوسط آدمی کو حاصل تنخواہ اور غذا سے زیادہ دینے کا اختیار بھی ہو تو وہ تیس سال کے اندر اندر زیادہ تر آبادی کو یقین دلا دے گا کہ دو +دو تین ہوتے ہیں، کہ پانی گرم ہونے پر جم جاتا ہے اور ٹھنڈا ہونے پر ابلنے لگتا ہے، یا اِس کے علاوہ کوئی بھی واہیات بات جو ریاست کے فائدے میں جاتی ہو۔
برٹرینڈرسل شاید مذاق کر رہا تھا، یا شاید جدید ریاستوں کا راز بتا رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ دنیا میں یہ تجربہ عملی طور پر کسی ملک میں اتنی کامیابی کے ساتھ کیا گیا ہے کہ نہیں جتنا پاکستان میں کیا گیا۔ اُس نے تیس سال کی بات کی تھی، جو دو پشتوں کا عرصہ بنتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں پانچ پشتوں جتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تو یہاں کسی نگران کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ یہ عمل خود کار ہو چکا ہے۔ واہیاتی ہمارے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔ اب بھی آپ کو عام ’پڑھے لکھے‘ یا ڈگری یافتہ لوگ کہتے ہوئے ملیں گے کہ اصل زندگی تو آخرت کی ہے، کہ چاند پر قدم رکھنے کا منظر ہالی ووڈ نے فلمایا، کہ پاکستان نور ہے، کہ آئن سٹائن شیعہ ہو گیا تھا، کہ ایمان کی طاقت کے سامنے اسلحہ کوئی وقعت نہیں رکھتا، اور سب کے کندھوں پر فرشتے بیٹھے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ تو پھر یہ بھی شاید درست ہو کہ اگر ریاست تہیہ کر لے کہ لوگوں کو عقل، تنقیدی سوچ، بردباری، سائنس وغیرہ کی طرف لانا ہے تو یقیناً یہ کام بھی دو پشتوں یعنی تیس چالیس سال میں کیا جا سکتا ہے۔ ہم موجود نسل کے لوگ اِس لیے بدقسمت ہیں ہم دو اور تین ثابت کرنے والے تجربے کے عہدِ عروج میں پیدا اور بڑے ہوئے۔ ہمارے بچے اِس لیے بدقسمت ہیں کہ وہ اس تجربے کے نتائج ہر جگہ بھگت رہے ہیں اور ریاست نے ابھی تک تجربے کو زائل کرنے کا فیصلہ تو ایک طرف، ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ پاکستان نامی علاقے میں موجود تمام پچیس کروڑ لوگ خسارے میں رہے۔ معاشروں کی نمائندگی صرف بیس پچیس فیصد شہری علاقے ہی کیا کرتے ہیں۔ اور وہ ضرور خسارے میں ہیں۔ اُن کی زندگی ایک تجربہ گاہ کے چوہوں والی ثابت ہوئی۔
لیکن موجودہ حالات کے بھیانک پن کو بیان کرنے سے زیادہ آسان کام اور کوئی نہیں۔ مشکل کام اِس بھیانک پن سے نمٹنے کی اپنی سی کوشش کرنا ہے۔ ہمیں وہ کرتے رہنا ہو گا، ورنہ تو اجتماعی خود کشی کل ہی کر لینی چاہیے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply