فوج کی حکمرانی/لیاقت علی ایڈووکیٹ

جوں ہی کسی نوجوان کو فوج سے سلیکشن اورکاکول اکیڈیمی ایک مخصوص تاریخ پررپورٹ کرنے کا لیٹر موصول ہوتا ہے تو نہ صرف نوجوان خود،اس کے اہل خانہ بلکہ دورونزدیک کے رشتے داراورمحلے دار بھی خوشی ومسرت سے نہال ہوجاتے ہیں۔ مبارک بادوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔نوجوان کے کنبے کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔رشتہ داراورمحلے داراس کو اپنے بچوں کے سامنےبطورماڈل پیش کرتے ہیں۔منتخب ہونے والا نوجوان نہ صرف خود بلکہ اس کے ارد گرد سبھی افراد اس کومستقبل کےجنرل اوراگرقسمت مہربان ہوئی توممکنہ چیف آف آرمی سٹاف اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے روپ میں دیکھتے ہیں۔
دوران ٹریننگ نوجوان کیڈٹ کی جس اندازاورڈھنگ سےتعلیم وتربیت کی جاتی ہے اس کی بدولت وہ خود کودوسروں سے مختلف،منفرد اور اعلی ٰشخصیت سمجھنے لگتا ہے۔اس کے ٹرینرزاس کو یہ سب کچھ باوربھی کراتے ہیں کہ وہ کوئی عام انسان نہیں ہے،وہ بہت سپیشل ہے۔ اسےکس طرح کالباس پہنناہے،نشست وبرخاست کا انداز کیسا ہونا چاہیے،کتابیں کون سی پڑھنی ہیں،ہماری غداراورمحب وطن شخصیات کون سی ہیں اورپاکستان کا دشمن نمبر1 کون ہے یہ سب تصورات،نظریات اورتعصبات اس کے ذہن میں اس طرح ٹھونسے جاتے ہیں کہ پھروہ ساری عمران سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔
جب یہ کیڈٹ کاکول اکیڈیمی سے تربیت مکمل کرکے فیلڈ میں جاتا ہے تو وہ مکمل طورپرایک ایسا فرد بن چکا ہوتا ہے جوسب کو بشمول عزیزواقارب کوکیڑے مکوڑے سمجھتا ہے اورحتی الامکان ان سے ملنے سے گریزاں رہتا ہے۔ اگر ماں باپ خوشحال نہ ہوں اورکسی محلے گلی کے چھوٹے سے مکان میں رہتے ہوں تو ان سے ملنے کےلئے چند گھنٹوں کے لیے  آ توجاتا ہے لیکن رہتا واپس جاکر چھاونی ہی میں ہے۔ میرا ایک ملنے  والا رکشہ ڈرائیور ہے اس کے بیٹے کو تین چار سال قبل فوج میں کمشین مل گیا۔ جب بھی ملنا ہوتا میں اس سے پوچھتا کہ بیٹے کا کیا حال ہے وہ بتاتا کہ ٹریننگ مکمل ہوگئی اوراب فلاں جگہ اس کی پوسٹنگ ہوگئی ہے۔ میں پوچھتا کہ ملنے آتا  ہے؟تو وہ بتاتا ہاں آتا ہے۔ پھرکہتا کہ رات وہ چھاونی ہی میں گذارتا ہے
لیفٹیننٹ سے کپتان بنتے تک اس کے رشتہ داروں یا فوجی افسروں نے اسے داماد بنانے کے لئےنشان زد کرلیا ہوتا ہے۔بعض دوراندیش نوجوان کپتان خالہ، پھوپھی اور چچا کی بیٹیوں کی بجائے اپنے باسزفوجی افسروں کی بیٹیوں کو شادی کے لئے ترجیح دیتے ہیں تاکہ مستبقل میں ترقی و خوشحالی کے راستے کشادہ ہوتے چلے جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

فوجی افسرآخر اپنی دُم پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو اس کی جڑیں کسی ایک افسر کے رویے اور طرز عمل میں تلاش کرنے کی بجائے فوج اور ریاست کے باہی تعلق میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج گذشتہ کم از کم ساٹھ سالوں سے پاکستانی ریاست پر غالب اورقابض ہے۔ ریاست اورحکومت خواہ کوئی بھی ہو ہر کام اس کی مرضی سے کرتی اورہرقدم اس کی رضا سےاٹھاتی ہے۔
یہ سڑکوں، چوراہوں اوردیگر جگہوں اورمحکموں میں فوجی افسر جس طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ دراصل ان کے ادارے کے ریاست پر قابض ہونے کا اظہارہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply