جدا گانہ مزاحمت اور برداشت۔۔حسان عالمگیر عباسی

مختلف طبقات ایک دوسرے کو سمجھاتے سمجھاتے دور ہو رہے ہیں حالانکہ انھیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے تاکہ قریب ہو سکیں۔ ایک بات جو سب سمجھ چکے ہیں اسے اختیار یا آزادی کہتے ہیں۔ ہر ذی روح بالغ مرد و زن اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پہ فیصلے لیتے ہیں لہذا فیصلہ سازی میں مداخلت کا فایدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ جو جیسا ہے کی بنیاد پہ قبول کرنا سیکھیں تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی طرف سفر کا آغاز ہو سکے۔ جبر کی ڈیفینیشن مختلف طبقات میں الگ الگ ہے لہذا ہر قسم کے جبر کے خلاف مزاحمت کو ایک آنکھ سے دیکھنے اور سراہنے کی ضرورت ہے۔ مزاحمت بھی حکمت کے تابع رہنی چاہیے۔ دوسروں کو مزاحمت پہ اکسانا اور اپنی ذات اور ذات سے جڑے خونی رشتوں کو تماشہ دیکھنے تک محدود رکھنا بھی الگ ہی نوعیت کا منافقانہ طرز عمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مصلحت مفاہمت سمجھوتے نظریاتی دھیما پن لچک اور اس سے ملتے جلتے سبھی الفاظ پتہ نہیں کیوں بدنام ہیں حالانکہ یہ رویہ بھی ایک نظریہ ہی ہے جسے نظریہ ضرورت کہتے ہیں جس میں حکمت عقل دانش تدبیر غور و فکر اور سوچ بچار کا عمل دخل ہے۔ نظریات سے بلا وجہ کی غیر حقیقت پسندانہ وابستگی اور اپنی ذات کو دیوار میں چن دینا یا لکیر کا فقیر ہونا سوچ و فکر میں پختگی نہیں کہلاتی بلکہ پختگی کی علامت یہ ہے کہ انسان منصوبہ بندی کرے اور اپنے ذمے اتنا ہی لے جتنا اس کی حیثیت اجازت دے رہی ہے اور سامنے والا بھڑکنے کڑھنے کی بجائے آپ کی بات کا پاس رکھتے ہوئے پاس پاس آنے لگے۔ یہاں الٹ چل رہا ہے۔ سب چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کا نظریہ رائج ہو اور وہ سکہ چلے جو ان کی جیب میں ہے حالانکہ کوئی کسی کی بات کیوں مانے جبکہ اس کے پاس بھی آنکھوں کے اوپر ایک اخروٹ موجود ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply