شب قدر، عید اور مسلمانان مقبوضہ کشمیر

ابراہیم جمال بٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب قدر کی رات تھی، میں گھر میں بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک ایک خاص خبر آئی کہ کل سرینگر کی گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر فوجی قدغنیں رہیں گی۔۔۔۔ اسی پر بس نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی پڑھا کہ حسب معمول آنے والی عید کی نماز عیدگاہوں میں پڑھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ سب پڑھ کر پھر سے تاریخی اوراق جیسے میرے سامنے کھل گئے، جن پر اپنی تاریخ کے وہ باب درج ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی عیدیں خوشیوں کے ماحول میں نہیں بلکہ اکثر خوف کے سایے میں منائی گئیں۔
عید کی نماز عید گاہوں میں ادا کرنے کا خواب ہی رہ گیا ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی یہی دہشت ناک طریقہ اختیار کیا گیا کہ عید جیسی نماز کو مسجدوں تک ہی محدود رکھا گیا۔ لوگوں کے جم غفیر سے بھارت سرکار اس قدر خوفزدہ ہوکر بوکھلاہٹ کی شکار ہو چکی ہے کہ مسجدوں پر بھی نظریں رکھے ہوئے ہیں، انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر نمازی نماز کا مقصد سمجھ کر ایک جگہ جمع ہو گئے تو یہ ہمارا حال بے حال ہو جائے گا۔
بھارت کی اس سوچ پر افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا، زبردستی طاقت کی بنیاد پر نہ آج تک کوئی اپنا بنایا جاچکا ہے اور نہ ہی بنایا جاسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر اپنا جبری تسلط برقرار رکھنے کے لیے دھونس دباو ایک فضول اور لاحاصل مشق ہے جس کا ثمر کڑوے پھل کے سوا کچھ نہیں۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply