پیر زیر تعمیر ہے ۔۔سلیم مرزا

یہ اُن دنوں کی بات ہے ،جب میں پاکستان گجر یوتھ کے چیئرمین چوہدری افتخار احمد برسہ کے پاس ملازم تھا ۔چوہدری صاحب ویسے تو اسلام آباد رہتے ہیں, لیکن ہفتے دس دن بعد آبائی شہر گجرات میں غمی خوشی میں بھی لازمی شریک ہوتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بہترین سیاسی اور سماجی شخصیت ہونے کی وجہ سے اپنے ملازمین سے اولاد جیسا رویہ رکھتے ہیں ۔
ایک بار ایک صاحب انکے پاس کسی ضرورت سے آئے تو چوہدری صاحب میری طرف اشارہ کرکے کہنے لگے ۔۔
“آپ پرسوں اس منڈے سے مل لیجئے گا ۔یہ آپ کو پانچ لاکھ دے دے گا ۔”
ان صاحب نے بغور مجھے دیکھا, اور کہا
“چوہدری صاحب !پیسے بیشک رہنے دیں ۔لیکن اسے منڈا تو نہ کہیں۔”
چوہدری صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو کاریگر ایک بار کسی کام کے سلسلے میں ان کے پاس پہنچ گیا پھر ساری زندگی وہ کام اسی کے ذمے لگ گیا ۔
کنسٹرکشن کے کام کیلئے گجرات کا مستری یوسف برسوں سے ان کے ساتھ ہے ۔
چونکہ مستری کا اسّی سال کی عمر میں بھی مرنے کا کوئی پروگرام نہیں تو اُمیدہے آئندہ بھی وہی رہے گا ۔
مستری یوسف کُل وقتی کاریگر ہے اس لئے اسے بلاوجہ نہانے سے چڑ ہے ۔اور وجہ اس کے پاس ہے بھی نہیں ۔لہذا بہت کم نہاتا ہے۔
اس کے سر کے بال اورداڑھی سفید ہے ۔وہ میلا ہوکر عجیب طرح کا کسمیلا لگنے لگتا  ہے۔
ایک دن میں اور چوہدری صاحب گجرات سے نکلنے لگے تو مستری کو بھی گجرات سے کام کے سلسلے میں ساتھ لے لیا ۔
چوہدری صاحب لینڈ کروزرکی پچھلی سیٹ پہ ٹیک لگائے بیٹھ گئے, میں ڈرائیونگ سیٹ پہ اور مستری میرے ساتھ بیٹھ گیا ۔
رات ایک ڈیڑھ کا ٹائم ہوگا ۔اسلام آباد ایکسپریس وے پہ ایک اشارہ توڑنے کے جرم میں مجھے روک لیا گیا ۔
میں نے انسپکٹر سے کہا
“میں نے اشارہ کراس نہیں کیا ”
وہ کہتا ہے
” آپ نے کیا ہے ”
میں نے کہا
” اگر میں نے کیا ہوتا تو میں کبھی جھوٹ نہ بولتا ۔کیونکہ میرے ساتھ میرے پیر صاحب بیٹھے ہیں ,ان کی موجودگی میں , میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ ”
یہ کہہ کر میں نے مستری یوسف کو دیکھا جو اس, سارے معاملے سے لاتعلق نظر آتے ہوئے سب سن رہا تھا ۔
پولیس والا کہنے لگا کہ اگر بابا جی کہہ دیں کہ اشارہ نہیں توڑا تو آپ جاسکتے ہیں ۔
مستری نے سرسری نگاہ سے ہم دونوں کو دیکھا اور کہا
“پتر ,ہم دنیاوی معاملات نہیں دیکھتے ۔ہم کہیں اور تھے ۔لہذا آپ چالان کرو ۔”
انسپکٹر نے ایک لمحہ سوچا, پھر پسنجر سیٹ کا دروازہ کھول کر بابا جی کے گوڈوں کو ہاتھ لگایا اور مجھے جانے کا اشارہ کیا۔
“میں واقعی شکل سے پیر لگتا ہوں۔ ”
مستری نے حیران ہوکر مجھ سے پوچھا
میں نے کوئی جواب نہیں دیا,
کیونکہ میں نے خود پیر بننے کا سوچ لیا تھا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply