ذہانت (17) ۔ جج بمقابلہ الگورتھم/وہاراامباکر

محققین کے ایک گروپ نے 2017 میں الگورتھم اور انسانی جج کے فیصلوں کا موازنہ کیا۔ انہوں نے پانچ سال میں نیویارک شہر میں گرفتار ہونے والے ہر شخص کا ریکارڈ لیا۔ اس وقت میں ساڑھے سات لاکھ لوگ ضمانت کے لئے عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

 

محققین نے اس کا مقابلہ اس الگورتھم سے کروانا تھا جو پیشگوئی کر دے کہ کونسا ملزم ضمانت کی پاسداری نہیں کرے گا۔
اصل ڈیٹا میں 408,232 ملزمان کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ نئے جرم کا ارتکاب کر سکتے تھے۔ اور ان پر الگورتھم کا ٹیسٹ کیا جا سکتا تھا۔ ان میں سے ایک چوتھائی وہ تھے جو کسی اور جرم میں بعد میں گرفتار ہوئے۔
جن ملزمان کو ضمانت نہیں ملی تھی، ان کا موازنہ کرنے کا طریقہ نہیں تھا۔ اس وجہ سے ججوں کے ساتھ موازنہ کے مکمل اعداد و شمار نہیں بنائے جا سکتے تھے۔
لیکن ایک چیز واضح تھی۔ جج اور مشین کی پیشگوئی میں بہت زیادہ اتفاق نہیں تھا۔ اور الگورتھم نے جس گروپ کو سب سے خطرناک قرار دیا تھا، اس میں سے نصف کو ضمانت مل گئی تھی!
لیکن کون درست تھا؟ ڈیٹا دکھاتا تھا کہ جن لوگوں کے بارے میں الگورتھم کو تشویش تھی، وہ واقعی خطرہ تھے۔ ان میں سے 62.7 فیصد نے ضمانت کے دوران نئے جرائم کئے، جن میں سے ریپ اور قتل کے بدترین جرم بھی شامل تھے۔ الگورتھم نے یہ بھانپ لیا تھا۔
محققین کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے بھی دیکھا جائے، یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ الگورتھم کی پرفارمنس انسانوں سے بہتر ہے۔ الگورتھم 41.8 فیصد کم لوگوں کو جیل بھیجتا۔ اور جرائم کی شرح میں اضافہ نہ ہوتا۔
اگر یہ درست ہے تو اس کے فوائد بڑے ہیں۔ رہوڈز آئی لینڈ ایک ایسی ریاست ہے جو آٹھ سال سے الگورتھم کا استعمال کر رہی ہے اور اس نے جیلوں کے قیدیوں میں سترہ فیصد کمی کر لی ہے اور ساتھ ہی ساتھ جرم کی طرف پلٹ جانے والوں میں چھ فیصد کمی ہوئی ہے۔
برطانیہ میں ایک قیدی کو رکھنے پر سالانہ خرچ تیس ہزار پاونڈ ہے۔ جب کہ ہائی سیکورٹی جیل میں رکھنے پر آنے والا خرچ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بغیر جرائم میں اضافے کے اگر جیلوں کی آبادی میں کمی ہو تو اس میں سب کا فائدہ ہے۔
تو کیا ایسے فیصلے الگورتھم کے سپرد کر دئے جائیں؟ بدقسمتی سے، یہ اتنا آسان نہیں۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ الگورتھم کامن سینس نہیں رکھتے۔ دوسرا مسئلہ ان کے ڈیزائن کے معیار کا ہے کہ غیرمعیاری الگورتھم کو کیسے پہچانا جائے (جیسا کہ اس سیریز کی تیسری قسط میں تھا)۔ لیکن تیسرا اور پیچیدہ مسئلہ کچھ زیادہ گمبھیر ہے۔ یہ تعصب کا مسئلہ ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply