گزشتہ قسط کا لنک
قسط14
آلودگی :
خیموں کے پاس لگاجنریٹر سرکاری پیٹرول اُڑاتاشورمچارہاتھا اَور خیموں میں بیٹھے سرکار کے اَعلیٰ افسران تاش کھیلتے ہوئے باتونی بدپرہیزی کاشکار ہوچکے تھے۔یہاں تین طرح کی آلودگی پھیل رہی تھی۔پہلی پیٹرول کی جو یہاں کی شفاف فضاکو آلودہ کررہاتھا،دوئم شورکی آلودگی تھی جو اس خاموش اَور پُرسکوت ماحول میں خلل ڈال رہی تھی،تیسری سرکار کے اَعلیٰ دماغ شدیدباتونی آلودگی پھیلارہے تھے۔ہماری قدیم پہاڑی زبان میں اس طرح کی آلودگی کو ‘‘منہ کی بواسیر ’’ کہاجاتاتھا۔اس طرح کی بواسیر کارواج عام دیکھنے میں آیاہے۔ یہاں تک کہ سلیقہ مندلوگ اچانک کھُلنے پرشد ید قسم کی بواسیر (باتونی غلاظت )کاشکار پاے جاتے ہیں۔
تمنائے شب :
خواہش تھی کہ جب چاند یہاں آئے گاتو جھیل اَور پربتوں کوسکوت کے لمحوں میں نظربھر کردیکھوں گا۔۱۴۰۰۰فٹ کی بلندی پر چاندنی میں نہائے مناظر جب سامنے پڑے ہوں گے۔عالم سکوت میں شب کاسُرمئی اَندھیرااَور سنہری شعاعیں رنگ آمیزی کرکے جب پربتوں کو نہال کریں گی ۔۔۔تو اس سکوتی اَور نہال ہوتی ،پربتی دُنیا کے بیچ ایک جھیل کنارے بیٹھ کر دیکھنا ،بالکل محو ہونا،یک دم خود سے بے گانہ ہوجانا،خاموش رہ کر خامشیوں کو سُننا،کِتنا منفرد اَور کِتنا پیارا منظر ہوتا۔؟یہ سماں کتنا اَنوکھاہوتا۔۔؟ مگرسرکار کاپالاہواخرابہ یہاں جبراًگھُس آیاتھا۔قانون کے ہاتھوں قانون شکنی ،فطرت شکنی اَور عبادت شکنی ہوگئی تھی۔
قافلے کے لوگ بہ ضد تھے کہ دیکھو یہاں کتنی سردی ہے۔اعجازیُوسف نے کہا تُم کو یہاں اَکیلے نہیں چھوڑسکتے ۔دوستوں نے کہادیکھو جوکُونج اپنی ڈارسے بچھڑ جاے اس کی زندگی اَور منزل کی ضمانت مشکل میں آجاتی ہے۔دن کو کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔اَب تھکن بھی ہے اَور بھوک بھی اَور سردی الگ ہے۔یہ اتنی شالیں اَورجیکٹیں ہیں مگر ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔وہاں جاتے ہی ہم نے کھانا کھانا ہے۔وہاں تُمھارااتنی دیر تک کون انتظار کرے گا۔چلو نیچے چلتے ہیں۔
نسوانی حُسن کی خود کشیاں اَور فکر مند دو آوارہ گرد:۔
ہم نیچے اُترتے گئے ۔آہستہ آہستہ خراماں خراماں قطار دَر قطار ۔اَمیر سفر سردار عاشق صاحب اَور مَیں پیچھے رہ گئے ۔باقی لوگ پگڈنڈیوں پر دستی فون کی روشنیوں کی مدد سے کافی آگے چلے گئے تھے۔عاشق صاحب اَور مَیں اس پر بات کررہے تھے کہ نسوانی حُسن نے جوستم خود پر ڈھائے ہیں ۔وہ کِسی تیزاب پھینک پاگل سے کئی درجے سنگین ہیں۔بنت حوا نے اَپنے حُسن کے ساتھ اجتماعی برُاسلوک کیا۔اِسے مصنوعی طریقوں سے نکھارنے کی آڑ میں مکمل تباہ کرکے چھوڑاہے۔مزید ظُلم یہ کہ وجودِ زن اَپنے نازک اَور کنوارے ہاتھوں سے حُسن کشی میں مصروف ہے ۔اَور اس قدر مصروف ہے کہ اُسے دُوسری کوئی فکر ہی نہیں رہی۔ہم نے آج جھیل پر جو آلودہ ہوئے چہرے دیکھے تھے ۔سب کے سب اَپنا فطری رُوپ گنواچُکے تھے۔مگر جانے کیوں کسی کو اس پر ملال نہ تھا۔بس اک میں تھا جسے یہ پریشانی ہوئی تھی اَوراَب عاشق صاحب تھے جنھیں فکر ہوئی تھی ۔کیاہم دونوں نسوانی حُسن کے بارے میں مشترکہ پریشان ہیں۔؟مگر نسوانی حُسن اَپنے سے یہ اجتماعی زیادتی کیوں کررہاہے ۔؟؟؟وہ بھی اس قدر شوق سے ۔؟؟؟اس پر مَیں اَور عاشق صاحب ایک مرتبہ پھرمل بیٹھیں گے۔ہم دو آوارہ گرد کِسی دن آوارگی میں گھر کارستہ بھول کر کِسی بَن میں جا بسرام کریں گے اَور اِس پر خوب سوچیں گے۔کہ حُسنِ نازک کی شوق خُود سوزی میں آخر کِس چیز کادخل ہے۔؟یہ آتش ِخود سوزی کِس نے بھڑکائی ہے۔کیادوگیانی کسی بَن میں بیٹھ کر کوئی رستہ نکال سکیں گے ۔؟یہ تو کِسی بَن میں بیٹھ کر، چاندتاروں کی چھاوں میں نرم گھاس کے بچھونے پر لیٹ کر،ہاتھ کے سرہانے پہ سر دھر کر چاند رو ہوکر ہی سوچاجاسکتاہے۔۔۔؟شاید چنداماموں کی طرف سے کوئی سندیسہ، کوئی حل آ پہنچے۔؟
عاشق صاحب کو ھسک تھی کہ یہاں اس وادی میں پہلے پہل کون آیاہوگا۔؟کِس نے یہاں پہلے پہل قدم رکھے ہوں گے۔؟اَور تب یہ وادی کیسی ہوئی ہوگی۔؟
رات نے وادی کو ڈھانپ لیاتھا۔وادی ،پربت ،پھول اَورپھلواریاں سیاہ چادر اوڑھ چکے تھے۔شب ایک نقاب ہے ،ایک رِدا ہے ۔جو بنوں ،چوٹیوں اَور زندگی کو ڈھانپ کر سُلادیتی ہے،چھپادیتی ہے۔پھرسارے کاساراعالم ،عالم ِسکوت کی گودمیں سر رکھ کر سوجاتاہے۔جیسے کوئی بچہ ماں کی گود میں سر رکھے گہری نیندمیں چلاجائے۔
وہاں اُوپر جوبروج ہیں،کون ہیں اَور کیاہیں۔۔۔؟؟؟:۔
ایک بڑے پتھر پر سارے دوست چڑھ کر بیٹھے ہوئے تھے اَور ہماراانتظار کررہے تھے۔ہمارے اُوپر تاروں کاآسمان جگ مگ جگمک کررہاتھا۔اتنا گھنا اَور اس قدر روشن ۔۔یہ شہر وہاں اُوپرکِس نے آباد کر رکھاہے۔؟اَورکیوں کر رکھاہے۔؟وہاں کے باسی کیسے ہیں ۔؟کیاوہاں بھی اُن روشن جگہوں پر عظیم و مہان پربت ہیں ۔؟اِن پربتوں کے سینے اَور بدن پر قدقامت ہرے ہرے دیار ہوتے ہیں۔؟اَور ان اُونچے اُونچے پربتوں کے دامن میں پُرسکوت و پُرسکون وادیاں ہوتی ہیں۔؟اَور اِن خوب صورت وادیوں کی گودمیں نیلی نیلی معصوم سی جھیلیں ہوتی ہیں۔؟کیاوہاں کِشن گنگا،جل ہَم (جہلم)،سندھو،پونچھ ،ہنزہ،خنجراب ندیاں دُودھیا اَور نیلگوں پانیوں کولیے ہمیشہ سے رواں ہیں۔؟کیاوہاں کے لوگ مشقت مزاج ہیں۔؟وہاں کی مٹی میں ہوس،حسداَور کھوٹ کی آمیزش تو نہیں ۔؟کیایہاں سے نظر آنے والے روشن اَور چمکیلے بُروج حقیقت میں چمکیلے اَور روشن روشن ہیں۔؟وہاں کی گلیاں ،گلے ،چوپارے ،ندیاں،دریاسمندراَور ان کاجیون کِسی آلودگی کی زدمیں تونہیں۔؟یہاں سے اتنے نزدیک نظر آنے والے اَور ایک دُوسرے کے قُرب میں بساو کیے ہوئے یہ آسمانی گُنبدکیاواقعی اتنے نزدیک ہیں۔؟ہزاروں اَور لاکھوں نُوری سال کے یہ فاصلے ،یہاں سے نظر کیوں نہیں آتے۔؟اِتنی بڑی دُوریاں یہاں سے نزدیک کیوں لگ رہی ہیں۔؟ یہ دھوکاکیوں ہے۔؟کیاان بُروج پر بسنے والوں کے ہاں بھی معاشی ،سماجی اَور عدالتی انصاف کِسی کونے کھدرے میں سہمارہتاہے۔؟کیاان بُروج کے باسی بھی بھُوک ،ننگ،فسادات سے دوچار ہیں۔اَور بڑے بڑے اَہل علم کے ہاتھوں اُن کی نسلوں کے اَذہان یرغمال ہیں۔کیاوہاں بھی علم درس گاہوں میں یرغمال ہوکررہتاہے۔؟کیاوہاں اُوپر ۔۔۔۔۔۔وہاں کسی بُرج پر کوئی سیارہ ،کوئی دیس غلام ہے ،منقسم ہے اَور تنگ دست ہے۔؟آخر وہاں کیاہے۔۔۔۔؟؟؟یہ کروڑ ہاروشنیاں ،یہ جگ مگ جگمگ دُنیا کیسی ہے۔؟کِس نے دیکھی ہے۔؟کِس کے پاس اس روشن دُنیا کی کہانی ہے۔؟اُس دیس سے آئے کِسی مسافر سے ،جب وہ اَپنی تھکن اُتارچکاہو۔؟تومَیں اس کے آنگن میں جابیٹھوں ۔اُس سے اس دیس کی کہانیاں سُنوں ۔اس کی چوپال میں ننگی چارپائیاں ہوں،برآمدے میں اُس کے چارجانب سُننے والے ہم محو بیٹھے ہوں اَور وہ کہانیاں سُناتے سناے صبح کردے۔اِدھر مُرغ ِسحراَذان دے اَوراُدھر کہانی ختم ہوجاے۔سُننے والے گھروں کی راہ لیں۔اَیسامسافر کہاں ملے گا۔؟کِس بَن میں ،کِس گاوں میں ،کِس شہر میں۔۔۔۔؟کِیاوہاں اُس روشن دُنیا میں کوئی جاپائے گا۔؟وہ کون ہوگا،کب ہوگا،وہ زمانہ کتنے دُور ہے۔؟اَور اَگر یہ سیاح یہ آوارہ گرد جب واپس آئیں گے تو کیایہ آنکھوں دیکھی کہانیاں سُننے سنانے کو چوپال سجیں گے۔۔۔؟یابرق رفتار دُنیاکی چکاچوند میں۔۔۔۔شور ہوگا،گہماگہمی ہوگی اَور سکون ،سکوت اِس شوریدگی میں، ،بھیڑ میں ہمیشہ کے لیے گُم ہوچکاہوگا۔
چٹان پر سے قافلے نے ڈیرہ اٹھایاتو کارواں آگے پیچھے قطار میں نیچے پڑاو کی طرف چل پڑا۔روشنیوں میں خیمہ بستی جگمگارہی تھی۔جیپوں کی گن گرج تھی اَور جنریٹروں کاشور تھا۔دواریاں ندی میں پانیوں کی آوازیں بھی اس بیچ اَپنے ہونے کاثبوت دے رہی تھیں۔گھوڑے کِسی کِسی ڈھلان پر ایک آدھ اَب بھی چررہے تھے۔ہم خیمہ بستی میں داخل ہوگئے۔
اِک خاک زادے سے ملاقات :۔
خیمہ بستی مختلف حصوں میں تقسیم تھی۔کبھی ہوائیں یہاں سائیں سائیں کرتی تھیں۔اَگر کوئی آتاتو وہ تھے گڈریے اَور اُن کے ریوڑ،گھوڑے ،مال مویشی ۔وہ وقت تاریخ کی گرد تلے کہیں دباپڑا ہے ۔جب سرخ پھولوں والے اس درّے (گلی ) سے قافلے گُزرتے تھے ۔وقت کے گُزرنے کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ بھی یہاں آنے لگے جنھیں سیاح کہاجاتاہے۔ہم جس معاشرے میں بستے ہیں۔وہ وباؤں کامعاشرہ ہے۔یہاں سیاحت بھی اِک وباہے اَور وباؤں نے آج تک کون سی تعمیر کی ہے۔وباایک مرض ہے اَور مرض جیون ختم کردیتے ہیں۔یہ وادی بھی اچانک اس وباکاشکار ہوگئی۔اس کی سُنسانیاں ،خاموشیاں اَور سکوت اِس وباکی زدمیں آگئے ہیں۔
اِس خیمہ بستی اَور پڑاو کو ایک ترتیب دینے میں ایک خاک زادے کی محنت ہے ۔نام ہے رئیس انقلابی۔مٹی کی چاہ میں ،دیس کی دل فریب گھاٹیوں میں سرگرداں رئیس انقلابی کی سرگرمیاں سماجی رابطے پر باتصویر دیکھااَورپڑھاکرتاتھا۔مَیں اس تلاش میں تھاکہ کوئی اَیسابندہ ملے جو اِس وادی کاحال اَحوال اِس چاندرات میں بیان کرے۔مَیں خیمہ بستی کے بیچوں بیچ کچی سڑک پربائیں جانب خیموں کے باہر کھڑاتھاکہ ایک خیمہ کے سامنے بڑاسارنگین کتبہ دو لکڑی کے بانسوں پر کھڑاتھا۔اس پر ایک نوجوان کی تصویر تھی ۔وہ ہاتھ میں گینتی اُٹھاے ہوئے تھااِردگرد برف تھی اَور نوجوان گہرے پیلے رنگ کے گرم لباس میں خوب صورت لگ رہاتھا۔ساتھ یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔‘‘رئیس اِنقلابی جانتے تو ہوں گے’’۔رئیس اِنقلابی نے 2022 کے موسم بہار میں جب ان وادیوں میں اچانک بھاری برف باری ہوئی تھی تو تن تنہا بکروالوں کی بکریوں،میمنوں اَور بکروالوں کے خاندانوں کوبچانے کی مہم کاآغاز کیا۔اَور خود صف ِاول میں رہ کرکام کیاتھا۔برفانی طوفان سے بکروالوں کو بہ حفاظت نشیبی ٹھکانوں پر منتقل کیاتھا۔ہری بھری چراگائیں ،بکروال ،ان کے ریوڑ بے موسمی برف اَور سرد ہواوں کی زد میں آگئے تھے۔رئیس انقلابی نے بازار سے ڈبوں میں بند دُودھ اَور خوراک خریدی پھر سخت موسم میں پیدل ان بلندیوں پر آکر بکروالوں کو خوراک اَور بکریوں کے میمنوں کو دُودھ بوتلوں میں ڈال کر پلایا۔
میرے رُکے قدم خود بہ خود اُس رستے پر اُٹھ گئے جو رئیس اِنقلابی کی رہائش تک جاتاتھا۔خیموں کے باہر ہی کچھ بُزرگ اَورکُچھ نوجوان باہم گُفتگو میں مصرُوف تھے ۔مَیں نے سلام کہا۔پُوچھارئیس اِنقلابی سے ملنا ہے۔تو رئیس اِنقلابی نے ہی سر اٹھاکر پُوچھا جی حُکم کیجیے ۔مَیں نے تعارف کروایاتوکِسی بُزرگ کاکام مکمل کرکے رئیس اِنقلابی کھڑے ہوئے گلے ملے ۔تصویروں میں برفانی دُنیا کے بیچ کوہ پیمائی کے لباس میں کھڑے رئیس اِنقلابی اَپنی تصویروں کے مقابلے میں یہاں بہت سادہ ،عاجزاَور مِلنسار ثابت ہوئے۔ہم چلتے چلتے رئیس انقلابی کے ذاتی خیمے میں چلے گئے۔دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔اِردگرد چوٹیاں اُن کے نام،یہاں آباد کاری اَور دیگر موضوع زیر بحث رہے۔وادی نیلم کی بے شمار جھیلیں اَور وادیاں اَبھی رُوپوش ہیں۔رئیس ا ِنقلابی نے اِن پربتوں اَور ان کے دامن میں چھُپی وادیوں میں بھٹکنے کاقصد کر رکھاہے۔لال بُتی اَور ہری پربت پر رئیس اِنقلابی جاچُکے ہیں۔لال بُتی (چوٹی )کوبرفانی موسم میں ایک پاکستانی کوہ پیما سرکرتے ہوئے ہلاک ہوگئے تھے۔اِن پہاڑوں کو رئیس انقلانی نے بغیر کِسی خاص تربیت اَور بیرونی مدد کے چھُوا،ان پر جاکر بیٹھا،چلااَور پھر واپس پلٹ آیا۔یہ پربت ،یہ چوٹیاں ،یہ جھیلیں ،یہ مٹی اَوریہ ہو ااِس کھوجی سے پیار کرتے ہیں۔اپنے رستے اس کے لیے کھول دیتے ہیں اَور یہ دیوانہ وار ان پر چلتاجاتاہے اَور بڑھتاجاتاہے۔
رئیس سے بہت سی باتیں ہوئیں ۔یہاں اُن کااَپنا خیمہ ہوٹل تھا۔چاے آئی رات نے اِ س پڑاو کورونق بخش دی تھی۔تیل پی کرمشعلیں اَور قُمقمے خوب روشن تھے۔خیمہ بستیوں کے درمیان راہ داراریاں روشن تھیں۔سیاح نام کی مخلوق اِن راہ داریوں میں گھُوم رہی تھی۔ شاید گھنٹہ بھر رئیس اِنقلابی کے خیمے میں بیٹھنے کے بعد مَیں اُٹھا وہ آگے تک مُجھے چھوڑنے آئے۔اس خیمہ بستی کی ترتیب سلجھاؤ،بناوٹ ،رستے ،راہ داریاں اَور مسافر خانے (ہوٹل) سب رئیس اِنقلابی کانقشہ ہے۔یہ رئیس نے نہیں باہر ایک لڑکے نے بتایاتھا۔
خیمے میں آیاتو کھاناکھانے لگے تھے۔سمجھ داری کاثبوت دیتے ہوئے کِسی دُنبے یا بکرے کی کڑاہی نہیں بنوائی گئی ۔بس سادہ کھانا تھا۔دوچار سالن تھے اَور مسافروں نے گرم گرم چباتیوں کے ساتھ پیٹ بھر کرکھایا۔کچھ دیر گپ شپ رہی ۔کھانے سے پہلے اَور کھانے کے بعد مسافران ِ شب اس پڑاؤ میں شب گردی کونکلے۔چاند اُوپر آگیاتھا۔مگر اَبھی اُس نے پہاڑوں کی گود میں بسی اس بستی پر اَپنی سُنہری چادر نہ اُتاری تھی۔کیوں کہ یہ پڑاو ،یہ بستی اِن عظیم پربتوں کے قدموں میں بسائی گئی تھی۔اَور چاند اَبھی پربتوں سے حال اَحوال کررہاتھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں